Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, May 12, 2024

وزیرستان کے متاثرین جنگ کا احتجاج، قصور وار کون؟

گزشتہ کئی دنوں سے شمالی وزیرستان کے متاثرین جنگ (آپریشن ضرب عضب) اتمانزئی اقوام پشاور آکر صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، اور میران شاہ بازار کا معاوضہ مانگ رہے ہیں، ٹانک میں محسود اقوام جبکہ وانا میں وزیر اقوام کے دھرنے جاری ہیں، ان کی دیکھا دیکھی دوسرے علاقوں کے عوام بھی احتجاج و دھرنوں کےلئے پر تول رہے ہیں، جلتی پر تیل کا کام پی ٹی ایم کے ورکرز اور کچھ مفاد پرست سیاسی رہنما و ملکان کررہے ہیں جو معاوضے کے پیسوں پر نظریں رکھے ہوئے اور عوام کو احتجاج پر اکسا رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقیقت میں شمالی و جنوبی وزیرستان کے لوگوں کو انکے تباہ شدہ گھروں اور دوسرے املاک کا معاوضہ نہیں دیا گیا اور حکومت نے ان کی بحالی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے؟ یہ پورا سچ نہیں ہے۔۔
درحقیقت نائن الیون کے واقعہ کے بعد سابقہ فاٹا میں گزشتہ 18 برسوں کے دوران ریاست پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کئی اقدامات کئے گئے، القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر ملکی و غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایک درجن سے زائد فوجی آپریشن کئے گئے، اس سلسلے میں جب آخری بڑا آپریشن ضرب عضب 2015 میں مکمل ہوا تو وفاقی حکومت اور پاک فوج نے قبائیلی علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کا فیصلہ کیا۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر 10 دسمبر 2015 کو اس وقت کے گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جگھڑا کی سربراہی میں اپیکس کمیٹی میں سی ایل سی پی کی سمری بنا کر وزیر اعظم کو بھیج دی جسے وزیراعظم نے منظور کرکے اس پروگرام کےلئے پانچ ارب روپے جاری کئے۔ یہ پروگرام سابقہ فاٹا کے پانچ ایجنسیوں شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی کے لئے تھا جس کے تحت فوجی آپریشنز میں عوام کے تباہ شدہ گھروں کا معاوضہ ادا کرنا تھا۔ وفاقی حکومت کے فارمولے کے تحت مکمل تباہ شدہ گھر کا معاوضہ چار لاکھ جبکہ جزوی طور پر نقصان شدہ گھر کے لئے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے معاوضے کی منظوری دی گئی۔ وفاقی حکومت نے اس پروگرام کو شفاف بنانے کے لیے جوSOP یا پروسیجر بنایا اس کے تحت ایک فیلڈ سروے ٹیم بنائی گئی جس میں متعلقہ نائب تحصیلدار، پاک فوج کا کیپٹن رینک کا آفیسر، سرکاری سکول کا استاد، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کا اوورسیئر اور علاقے کے دو ملکان شامل تھے۔ یہ فیلڈ سروے ٹیم اپنی رپورٹ ڈسٹرکٹ اسٹیرنگ کمیٹی کو پیش کرتی۔ ڈسٹرکٹ اسٹیرنگ کمیٹی پولیٹیکل ایجنٹ یا موجودہ ڈپٹی کمشنر، متعلقہ تحصیلدار، سی ایل سی پی کوآرڈینیٹر اور ایک مقامی ملک پر مشتمل تھی جو سروے رپورٹ کا جائزہ لیکر اس کو ایم آئی ایس یعنی منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم پر اپلوڈ کر دیتی جہاں سے آر آر یو یا ریہیبیلیٹیشن اینڈ ری کنسٹرکشن یونٹ اس کا فیصلہ کرکے منظور شدہ کیسیز کے چیکس بناتی جو ڈپٹی کمشنر کے ذریعےمتاثرین میں تقسیم کئے جاتے۔ سی ایل سی پی کے تحت جنوبی وزیرستان کے دو سب ڈویژنوں لدھا اور سرویکی میں 2016 میں سروے کی گئی، محسود اقوام کے ان دو سب ڈویژنوں کے لئے جنوری 2020 تک 14 ارب 11 کروڑ 15 لاکھ روپے ریلیز کئے گئے جن میں سے 12 ارب 35 کروڑ 38 لاکھ روپے متاثرین کو ادا کئے گئے۔ سروے کے مطابق کل 49718 خاندانوں کے کلیم کلیئر قرار پائے گئے جن میں 34302 خاندانوں کو ادائیگی کی جاچکی ہے۔
وانا کے وزیر اقوام کو سی ایل سی پی پروگرام میں شامل نہیں کیا گیا جس کے خلاف انہوں نے احتجاج شروع کیا لیکن حکومت کا موقف تھا کہ وانا سے لوگوں نے ہجرت نہیں کی اس لئے ان کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔
اسی طرح شمالی وزیرستان کے کچھ علاقوں مثلا تحصیل شوال، تحصیل میران شاہ کے تین دیہات اور دتہ خیل کے تقریباً پچاس فیصد دیہاتوں کا سروے ابھی تک باقی ہے، دتہ خیل سے ہزاروں خاندان افغانستان ہجرت کر گئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آئے ان علاقوں کے علاؤہ شمالی وزیرستان کے دیگر علاقوں کی سروے مکمل اور ان کے لئے 3 ارب 97 کروڑ 6 لاکھ 40 ہزار روپے ریلیز ہوئے جو کہ سو فیصد متاثرین کو ادا کئے گئے۔ابھی تک تقریباً 15194 خاندانوں کو ادائیگی کی جاچکی ہے جبکہ کچھ باقی ماندہ کیسز جو کہ بعد میں آئے ان کی سروے اور معاوضہ ادائیگی پینڈنگ ہے جسی کے خلاف یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں، مقامی قبائلیوں کے احتجاج کی دوسری وجہ نئے ڈپٹی کمشنر کی مس منیجمنٹ اور لاپرواہی ہے، لوگ شکایت کررہے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحبزادہ نجیب اللہ نے تقریباً دو ماہ پہلے چارج سنبھالا ہے لیکن ابھی تک مقامی مشران کے ساتھ انٹریکشن سے کترا رہے ہیں اور ان کے تمام کام ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی رویہ کے خلاف یہ لوگ پشاور میں دھرنے کے لئے انتظامات کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں سی ایل سی پی کے علاؤہ دوسرا بڑا مسئلہ دو بڑے بازاروں میرعلی اور میران شاہ کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی اور پٹرول پمپس مالکان کو امدادی رقم دینے کا ہے جس کی منظوری خیبرپختونخوا کے صوبائی کابینہ نے ( Economic Revitalization of North Waziristan ) کی شکل میں دی ہے، اس پروگرام کے تحت شمالی وزیرستان میں میران شاہ اور میر علی بازاروں اور پٹرول پمپس کی سروے کی گئی، سروے کے مطابق کل 69 پٹرول پمپس تباہ ہوئے جن کا معاوضہ مالکان 99 کروڑ مانگ رہے تھے، لیکن جانچ پڑتال اور مذاکرات کے بعد پٹرول پمپس مالکان کو 33 کروڑ 14 لاکھ ادا کیے گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ میر علی اور میران شاہ بازاروں کا مسئلہ بھی حل کیا گیا، میران شاہ بازار کے حوالے سے 10 ہزار سے زائد دکانوں کا دعویٰ کیا گیا لیکن سروے اور جانچ پڑتال کے بعد 6625 دکانوں کو تسلیم کیا گیا، دوسری جانب میر علی بازار کے 3706 دکانوں کو تسلیم کیا گیا۔ مقامی مشران اور مالکان نے میران شاہ بازار کے لیے 20 ارب 86 کروڑ روپے جبکہ میر علی بازار کے لیے 8 ارب 66 کروڑ معاوضے کی ڈیمانڈ کی۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا کی ہدایت پر اس مسئلے کےلئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں تین وزراء تین سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان شامل تھے۔ اس کمیٹی نے ایک فارمولا بنایا جس کے تحت زمین کی قیمت فی سکوائر فٹ 3500 روپے یا فی مرلہ 15 لاکھ جبکہ دکان کے سامان کی قیمت 3 لاکھ فکس کی گئی، اسکے ساتھ ساتھ بلڈنگ کے لئے بھی ایک فکس قیمت رکھی گئی۔ اسی فارمولے کے تحت میرعلی بازار کے دکانداروں اور زمین مالکان کو 2 ارب 80 کروڑ 93 لاکھ معاوضہ ادا کیا گیا اور معاملہ افہام وتفہیم کے ساتھ حل کیا گیا۔ البتہ ایسے لوگ بھی سامنے آئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ نیا بازار ان کی جائیداد پر بنایا گیا ہے اس لئے انہیں معاوضہ دیا جائے، وہ احتجاج بھی کررہے ہیں۔ یہ فارمولا میران شاہ بازار کے اوپر بھی لاگو کیا گیا لیکن میران شاہ بازار کمیٹی نے فی مرلہ 45 لاکھ روپے کے حساب سے 13 ارب 28 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے اس ریٹ کو مسترد کرکے قابل عمل فارمولے کے تحت بلڈنگ معاوضے کی کل رقم 2 ارب 92 کروڑ مقرر کی جس میں سے متاثرین کو اب تک 40 کروڑ روپے ادا کئے جا چکے ہیں جبکہ فی دکان سامان کی کل رقم ایک ارب 69 کروڑ روپے مقرر کی جس میں سے 99 کروڑ روپے ادا کئے جا چکے ہیں۔ میران شاہ بازار کا مسئلہ سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے، میران شاہ ایکشن کمیٹی نے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جس میں وفاقی وزیر مراد سعید نے بھی شرکت کی تھی، ان کا دھرنا اب بھی پشاور میں جاری ہے جس میں پی ٹی ایم ممبران اسمبلی محسن داوڑ، علی وزیر اور میرکلام نے شرکت کی ہے، یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ میران شاہ بازار کے جائیداد مالکان و دکانداروں نے مختلف لوگوں کو اپروچ کیا ہے اور کئی ایک سرکاری افسران، ملکان و حکومتی شخصیات کا معاوضے کی اس خطیر رقم پر نظریں ہیں۔ پشاور میں مقیم سینئر صحافی رسول داوڑ کے مطابق نئے ڈپٹی کمشنر نے سروے اور معاوضے کی ادائیگی پر پابندی عائد کی ہے اور جواز یہ بتایا ہے کہ پچھلے کئے گئے سروے میں کرپشن کی گئی ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ نئی سروے ہوتی ہے یا پرانے سروے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
اگر چہ حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ دونوں پروگرام شفاف اور منصفانہ ہوں لیکن بدقسمتی سے ان دونوں پروگراموں پر بدعنوانی اور مس منیجمنٹ کے جو الزامات لگے وہ درج ذیل ہیں
ڈی سی عبد الناصر نے 1300 کلیمز کو مسترد کرکے سروے سے خارج کئے لیکن کہا جارہا ہے کہ اس کے باوجود بھی ہزاروں فیک کلیمز سروے کا حصہ بن گئے ہیں۔
سروے کے مطابق کل 69 پٹرول پمپس تباہ ہوئے، لیکن مقامی ذرائع کا موقف ہے کہ صرف 13 پٹرول پمپس تباہ جبکہ دو درجن کے قریب پمپس کو جزوی نقصان پہنچا۔
ایک اندازے کے مطابق جنوبی وزیرستان میں کل گھر 60 اور 70 ہزار کے درمیان ہیں لیکن سروے ٹیم نے ایک لاکھ گھر رجسٹر کئے ہیں اور اب بھی 40 یا 50 ہزار کا کہا جارہا ہے کہ باقی ہیں۔
دو درجن سے زیادہ مدارس کو بھی سروے میں شامل کرکے کلیم داخل کئے گئے تھے جنہیں مسترد کردیا گیا۔
کئی لوگوں نے شکایت کی کہ ان سے سروے کے دوران مقامی انتظامیہ نے پیسوں کی ڈیمانڈ کی۔
تحصیل شوہ اور سپین وام میں آپریشن نہیں ہوا اور نہ ہی لوگ ٹی ڈی پیز بنے لیکن سروے میں کور کئے گئے۔
چند کیسیز میں 3 کمروں کے ایک گھر کو تین مختلف گھر رجسٹر کرایا گیا۔
انتظامیہ کی یہ بھی غفلت سامنے آئی کہ کئی متاثرین نے معاوضے کی نقد رقم لیکر اسے دوسرے شہروں میں انویسٹ کی اور وزیرستان میں اپنے خستہ گھروں کی تعمیر نو یا مرمت نہیں کی، حالانکہ یہ پیسے خالصتا گھروں کی تعمیر کے لیے تھے، اور یہ انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ اس کو یقینی بناتے، اگر یہ خطیر رقم وزیرستان کے علاقے میں گھروں کی تعمیر پر لگائی جاتی تو شاید حالات مختلف ہوتے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket