Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

افغانستان سے بیرونی فوجوں کا انخلاء: خدشات و ممکنات



سال 2021 کے دوران عالمی سطح پر توقع کی جا رہی تھی کہ دوحا معاہدہ کے مطابق امریکی نیٹو فورسز کے انخلاء کے اعلان یا  اقدامات کے نتیجے میں خطے بالخصوص افغانستان میں امن قائم ہونے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔  تاہم افغان حکومت اور طالبان کے دوطرفہ عدم تعاون، مسلسل حملوں اور بداعتمادی کے باعث یہ ممکن نہ ہوسکا بلکہ جنگ اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

 فروری 2020 کا دوسرا معاہدہ عملی طور پر محض امریکی انخلا کے اقدامات تک محدود رہا حالانکہ دوسرے مرحلے کے لیے یہ طے پایا تھا کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوگا اور سیزفائر سمیت ایک ایسی حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا جس میں بشمول طالبان کے تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے۔ طالبان اور امریکیوں نے مارچ 2020 کے بعد جون 2019 تک ایک دوسرے پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا تاہم افغان فورسز اور طالبان نے اس عرصے کے دوران ریکارڈ دوطرفہ حملے کیے اور اس سلسلے میں اُس وقت بھی کوئی کمی نہیں آئی جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات جاری رہے۔  اس ضمن میں جون 2020 کے بعد فریقین کے درمیان پاکستان، امریکہ ،چین اور یو اے ای کی کوششوں سے مذاکرات کی تقریباً دس نشستیں ہوئیں مگر اس کے باوجود سیزفائر کا کوئی فارمولا طے پایا جا سکا اور نہ ہی فریقین کسی مثبت نتیجے پر پہنچ سکے۔

 افغان طالبان کو دوحا معاہدے سے عالمی سطح پر جو اہمیت حاصل ہوئی انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جبکہ امریکہ کے ہاتھوں افغان حکومت کو مذاکراتی عمل سے باہر رکھنے اور نظرانداز کرنے کی روِش نے حکومت کی ساکھ،  قوت اور مستقبل کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان حکومت تنہا اور کمزور ہو کر رہ گئی تو دوسری طرف اس کی فورسز پوری شدت کے ساتھ طالبان پر حملہ آور ہو گئی اور تلخی، بداعتمادی اور کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔

 ایک امریکی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز اور طالبان نے دوحا معاہدے کے بعد ایک دوسرے پر تقریباً 1100 حملے کئیے جن میں 190 فضائی حملے بھی شامل ہیں۔ جن کے نتیجے میں رپورٹ میں کہا گیا کہ 300 سے زائد سیویلین بھی جاں بحق ہوئے۔  اسی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز نے عیدالفطر کے دوران طالبان لیڈر شپ کے جنگ بندی کے اس اعلان کے بعد بھی تقریباً 14 حملے کیے جو کہ عید کے احترام میں کی گئی تھی۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ عید کے فورا ً بعد جہاں ایک طرف طالبان پوری شدت کے ساتھ فورسز اور حکومت پر حملہ آور ہوئے وہاں اس کشیدگی سے داعش نے بھی فائدہ اٹھایا۔ جس نے گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران کابل میں سات جبکہ باقی علاقوں میں 11 حملے کر ائے۔  زیادہ تر حملوں میں شیعہ برادری، بچوں ، خواتین، سکولز اور ہسپتالوں کو داعش نے نشانہ بنایا۔  اس ضمن میں ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کے ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً 700 افراد جاں بحق ہوئے۔

 دوسری طرف افغان حکومت کا رویہ یہ رہا کہ داعش کے حملوں کو بھی حکومت طالبان کے کھاتے میں ڈالتے رہے حالانکہ ان حملوں کی نہ صرف یہ کہ داعش ذمہ داریاں لیتی رہی بلکہ عالمی انٹیلی جنس ادارے بھی اپنی رپورٹ میں داعش کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیتی رہی۔  طالبان حملوں سے جہاں مسلسل لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے وہاں وہ یہ الزام بھی لگاتے رہے کہ داعش کو حکومتی سر پرستی حاصل ہے اور ان کے کارندوں کو بعض علاقوں بشمول کابل سرکاری معاونت سے ٹہرایا جا رہا ہے۔  اس دوران جب امریکی الیکشن کے نتیجے میں صدر ٹرمپ کو شکست اور جو بائیڈن کو کامیابی ملی تو امریکہ کی نئی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اگر طالبان تشدد میں کمی نہیں لاتے تو انخلاء کے اعلان  پر نظر ثانی کی جائے گی۔  اس اعلان کو ایک طرف طالبان نے مسترد کیا تو دوسری طرف اشرف غنی حکومت کی  پھر سے امید پیدا ہوئی کہ شاید نئی حکومت ان کا ساتھ دے گی۔  تاہم کچھ ہفتے بعد جوبائیڈن حکومت نے نہ صرف یہ کہ طالبان سے رابطہ کرکے وضاحتیں پیش کی بلکہ انخلاء  کے جاری عمل کو اور بھی تیز کر دیا اور حالت یہ بنی کہ امریکہ نے باگرام ایئر بیس سمیت ان اہم مراکز کو بھی خالی کرانا شروع کردیا جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ امریکہ کی تحویل یا استعمال میں رہیں گے۔

 امریکہ نے مئی 2021  میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ اس کے تقریباً 7 ٹریلین ڈالرز افغانستان میں خرچ ہوچکے ہیں اور یہ کہ وہ مزید اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا تاہم ایک اور اعلان میں کہا گیا کہ امریکہ ایک معاہدے کے تحت افغان فورسز کی مالی مدد جاری رکھے گا اور اس کے بعض اتحادی بھی افغان حکومت کی مدد کریں گے۔

امریکہ کے اس مشکوک کردار اور صورتحال میں ڈاکٹر اشرف غنی کو شدید دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ نہ صرف امریکہ پر تنقید کرنے لگے بلکہ انہوں نے اپنے نائب صدر امراللہ صالح در اور مشیر محب اللہ محب کے ذریعے پاکستان کو بھی حسب سابق صورتحال کا ذمہ دار قرار دینا شروع کیا اور ایک مضمون کے علاوہ ایک انٹرویو میں انہوں نے پھر سے پاکستان پر سنگین قسم کے الزامات لگا دیے جس کے باعث جہاں پاکستان کا شدید ردعمل سامنے آیا وہاں افغان حکومت اور پاکستان کے مثبت رابطے بھی متاثر ہوئے اور جون کے اوائل میں پاکستان نے یہ کہنا شروع کیا کہ طالبان اور افغان حکومت اس مسئلہ کا خود ہی حل نکال دے۔

اس کشیدگی کا امریکہ اور اتحادیوں نے سخت نوٹس لیا اور ان کے رابطہ کاری کے باعث پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید ہنگامی طور پر افغان حکمرانوں سے بات کرنے اور تجاویز کے تبادلے کے لئے کابل گئے اسی روز برطانیہ کے آرمی چیف بھی دوسرے اعلیٰ حکام کے ساتھ کابل پہنچے۔ فریقین کے درمیان امن پراسیس اور مستقبل کے مجوزہ منصوبہ بندی پر تبادلہ خیال کیاگیا اور بعض اقدامات کی اطلاعات مغربی میڈیا نے شائع بھی کیں تاہم افغان حکومت کے رویے میں کوئی خاص فرق نہیں آیا اور شاید اسی کا ردعمل تھا کہ پاکستان افغان حکومت اور کسی حد تک طالبان کے ساتھ ہونے والی رابطہ کاری کے عمل سے لا تعلق ہو گیا مگر ساتھ میں یہ کوشش بھی کرتا رہا کہ عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کے عمل میں تعاون فراہم کرے۔  اسی کا نتیجہ تھا کہ طالبان ترکی کانفرنس میں مشروط شرکت پر آمادہ ہو گئے اور اس دوران عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ سی آئی اے کے سربراہ اسی سلسلے میں پاکستان سے مشاورت کرنے پاکستان کے خفیہ دورے  پر آئے ہیں۔

پاکستان کے واضح موقف اور نئی صف بندی کے بعد اس قسم کی  اطلاعات پھیلائی گئیں کہ پاکستان امریکہ کو اپنی سرزمین پر بعض ہوائی اڈوں سمیت بعض سہولتیں فراہم کرے گا تاکہ افغانستان پر نظر رکھی جا سکے۔ پاکستان کے متعلق اعلیٰ حکام نے پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر اڈے دینے کی اطلاعات کو غلط قرار دے کر کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایسی کوئی ڈیلنگ کی نہ تو بات ہوئی ہے اور نہ ہی امریکہ کو ایسی سہولتیں فراہم کی جائیں گی مگر اس کے باوجود تبصرے جاری رہے ۔

ماہرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ امریکی میڈیا نے جان بوجھ کر اس نوعیت کی اطلاعات یا رپورٹ شائع کیں تاکہ پاکستان اور طالبان کے علاوہ چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے ساتھ آگے بڑھنے والے بہتر تعلقات میں شکوک و شبہات پیدا کرکے بدگمانیوں کا راستہ ہموار کیا جائے۔

 اس سے قبل مئی 2021 کے اوائل میں جب پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح پلیمانی وفد طے شدہ شیڈول  کے مطابق سپیکر اسد قیصر کی قیادت میں کابل پہنچا تو وفد  کے خصوصی طیارے کو سکیورٹی پرابلمز کے نام پر ائیر پورٹ اترنے نہیں دیا گیا جس نے اس کے باوجود فاصلے بڑھا دیے کہ پاکستان نے اس پر مثبت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ جب بھی افغان حکومت بلائے گی وفد پھر جائے گا۔  اس تمام تر صورتحال نے جہاں ایک طرف انٹرا افغان ڈائیلاگ سمیت دوسری ان کوششوں کو نقصان پہنچایا جو کہ بعد از امریکی انخلا کے لیے پاکستان کر رہا تھا وہاں طالبان کے حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس جون کو ایک امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان نے نہ صرف دو ہفتوں کے دوران تقریباً  اٹھارہ اضلاع پر قبضہ کیا اور ان کی پیشقدمی جاری ہے۔

جون میں امریکی سینٹکام کے سربراہ جنرل فرانک نے اعلان کیا کہ امریکا  ستمبر میں اپنی فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان کی ایئر فورس یا دوسری فورسز کو کسی بھی لیول پر سپورٹ نہیں کرے گا اور افغانستان کی سکیورٹی افغان حکومت کی اپنی ذمہ داری ہوگی اس اعلان نے مزید تشویش کو جنم دیا اور غالباً اس کے بعد ان اطلاعات کی اصلیت بھی واضح کر دی جن میں کہا جا رہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو اڈے فراہم کر رہا ہے کیونکہ یہ ایک اہم ترین امریکی عہدے دار کا واضح اعلان تھا ۔اب اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کا مستقبل اور پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

  ماہرین تجزیہ کار اور سفارتکار اس ضمن میں جن اہم نکات،  امکانات اور خدشات پر متفق نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں۔

۱۔  افغانستان جاری کشیدگی کے باعث پھر سے خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے اور اگر طالبان کی پیش قدمی اسی طرح جاری رہی تو افغان حکومت کے لیے ماضی کی طرح کابل سمیت دوسرے شہروں کو بچانا بھی مشکل ہو جائے گا ۔

۲۔   امریکہ کی لاتعلقی اور محدود ترین مدت کے اعلانات نے اشرف غنی کی حکومت کو سیاسی، اقتصادی مشکلات اور تنہائی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے اور عوام  با امر مجبوری پھر سے طالبان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

۳۔  اس بات کا یقینی خطرہ موجود ہے کہ اب کے بار افغانستان مختلف لسانی گروپوں کے تصادم کا مرکز بن جائے کیونکہ بیس برسوں کے دوران نظام حکومت میں پشتون اکثریت پر دوسری اقلیتوں کا غلبہ رہا جس کے باعث پشتون آباد ی موجودہ نظام سے نہ صرف غیر مطمئن ہیں بلکہ مزاحمت پر بھی اتر آئی ہے جس کا طالبان فائدہ اٹھائیں گے ۔

۴۔  افغانستان پھر سے عالمی اور علاقائی پراکسیز کا مرکز بنے گا کیونکہ صلح کی تمام کوششیں ناکام دکھائی دے رہی ہے اور جاری صورتحال سے پاکستان،  ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ چین اور روس بھی لاتعلق نہیں رہیں گے۔

۵۔  اگر خانہ جنگی کا ستمبر کے بعد آغاز ہوتا ہے تو اس کے پاکستان پر ماضی کی طرح براہ راست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی سرحدوں پر دباؤ بڑھے گا۔ سیکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوگا اور مہاجرین کی تعداد میں پھر اضافہ ہوگا ۔

۶۔  پاکستان نے اگرچہ ماضی کے مقابلے میں سرحدوں کی سکیورٹی اور مانیٹرنگ کو موثر بنایا ہے اور قبائلی علاقوں میں صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے تاہم کشیدگی کی صورت میں اس کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے اور اس کی پھر بھی کوشش ہو گی کہ مسئلے کا سیاسی حل نکل آئے کیونکہ سی پیک وغیرہ کے لیے بھی افغان امن لازمی ہے ۔

۷۔  پاکستان کی کوشش ہوگی کہ ٹی ٹی پی اور دیگر کو جہاں پھر سے فعال نہ ہونے دے وہاں افغان طالبان کو دوحا معاہدے کے تحت اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ ٹی ٹی پی یا دوسروں کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے نہ دیں۔ یہی مطالبہ امریکہ اور افغان حکومت سے بھی کیا جائے گا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket