Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

اظہار رائے کے پیمانے اور زمینی حقائق

پاکستان میں بعض دوسرے ممالک کی طرح اظہار رائے یا میڈیا کی آزادی کی مجموعی صورتحال کبھی مثالی نہیں رہی تاہم اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ماضی کے مقابلے میں رویوں اور پالیسیوں میں بہت بہتری آئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ بہتری میں مزید اضافہ ہوگا اگر بعض حلقوں کے نزدیک اظہار رائے کی تعریف یا تشریح یہ ہے کہ بعض قومی اداروں یا ان کے سربراہان کو مزاح مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنانے کو جائز قرار دیا جائے اور اس کی کھلی چھوٹ دی جائے تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر انتہائی نامناسب ہے بلکہ کوئی جدید ملک بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اخلاقیات اور دلائل کے اندر رہتے ہوئے جن جن لوگوں نے بعض اداروں یا پالیسیوں کو جب بھی ہدف تنقید بنایا یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ان کو کچھ بھی نہیں کہا گیا بلکہ ان کی ممکنہ حد تک حوصلہ افزائی کی گئی مگر جو حلقے یا افراد ایک مخصوص ایجنڈے کے طور پر کسی بھی واقعے بیان یا اقدام کی آڑ میں بعض حساس مسائل کو غیر ضروری طور پر غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے ڈیل کرنے کی بار بار کوششیں کرتے آ رہے ہیں بعض اوقات جب وہ حدود پار کرتے ہیں تو ان کی سرزنش کی جاتی ہے اور یہ تصور یا طریقہ ہر ملک میں موجود ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے بعض رہنما، صحافی ،تجزیہ کار اور این جی اوز کے کارندے بعض اداروں کے بارے میں جو الفاظ اور لہجے استعمال کرتے ہیں کیا ایسے عناصر دوسرے ممالک میں ایسا کر سکتے ہیں؟ کیا یہ بات ریکارڈ پر موجود نہیں ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں اس کا صدر سی این این اور بعض دیگر اداروں کے ساتھ ذاتیات پر نہیں اترا؟ کیا روس اور چین جیسے ممالک میں نام و نہاد سوشل میڈیا پر ریاست کا کنٹرول محدود یا مکمل پابندی عائد نہیں ہے؟ کیا امریکا میں ایک سیاہ فام کے قتل کے بعد امریکی انتظامیہ ہفتوں پر مشتمل مظاہروں پر خاموش رہی؟ کیا متعدد ہیومن رائٹس اور پریس فریڈم کے ادارے امریکہ اور برطانیہ میں سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اعلانیہ فنڈنگ سے نہیں چلتے؟ جو چند مغرب زدہ لوگوں کو یہ علم نہیں ہے کہ وائس آف امریکہ اور بی بی سی کو ان کے ریاستی ادارے نہ صرف چلاتے آرہے ہیں بلکہ ان کی ایڈیٹوریل اور پروپیگنڈہ پالیسی ریاستی ادارے تشکیل دیتے ہیں؟ کیا امریکا ،بھارت ،ایران، چین اور برطانیہ میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی حقیقی صورتحال کو تسلی بخش یا مثالی قرار دیا جاسکتا ہے؟ نہیں کبھی بھی نہیں۔
تو اس کا جواب بھی دیا جائے کہ انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کے پاکستانی علمبردار ان ممالک کے حالات پر بات یا اعتراض کیوں نہیں کرتے۔ جواب بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں ان دو چیزوں یا ایشوز کو ذاتی اور گروہی مفادات کے تناظر میں اٹھایا اور پھیلایا جاتا ہے اور وہ لوگ سب کو معلوم ہیں جو کہ بعض عالمی اداروں کے کرائے پر رہ کر پاکستان کو بد نام کرنے کا باقاعدہ معاوضہ لیتے ہیں اور متعلقہ اداروں کے پاس ایسے لوگوں کے باقاعدہ ثبوت موجود ہیں۔ جاری حالات کے دوران بعض سیاسی یا سماجی کارکن جب ذاتی رنجش یا کسی مسئلہ کے نتیجے میں کسی حملے کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ بھی سکیورٹی اداروں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بعد میں اس میں سے کچھ اور نکل آتا ہے۔
وہ سب لوگ اب سب ہی کو معلوم ہے جو کہ باہر جانے یا دولت کمانے کے لیے پناہ لینے کی خاطر نہ صرف انسانی حقوق کے علمبردار بن کر مظلوم بنتے ہیں بلکہ اس مقصد کے لئے خود پر گولیاں بھی چلواتے ہیں اور حملوں کا انتظام بھی کرتے ہیں اور خود کو اغواء بھی کر اتے ہیں۔ جن عالمی اداروں کو وہ مدد کی اپیل کرتے ہیں ان میں اکثر بڑی طاقتوں کی ریاستی فنڈنگ سے چلتے ہیں اور سبوتاژ کے لیے کام کرتے آرہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بعض لوگ ریاستی جبر یا لاقانونیت کا سبب بھی بن جاتے ہیں جو کہ غلط ہے تاہم بعض حادثات یا واقعات کو بنیاد بنا کر نفرت پھیلانا یا منفی پروپیگنڈا کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ مذہب، ریاست، شخصیات یا بعض اداروں کو گالی دے کر یہ لوگ اپنے مقاصد سے اور انسانی حقوق کی کون سی خدمت کر رہے ہیں یہ مسئلہ جواب طلب بھی ہیں اور حل طلب بھی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket