Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

اپوزیشن کی مجوزہ تحریک اور زمینی حقائق

متضاد الخیال سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن کا اتحاد تشکیل دے دیا ہے۔ اس اتحاد کو بلاول بھٹو نے ایم آر ڈی کے طرز پر چلانے کا اعلان کردیا ہے جبکہ مشترکہ اعلامیہ میں یکم اکتوبر سے حکومت کے خلاف مرحلہ وار احتجاج اور تحریک کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس میں ماہ جنوری کے دوران اسمبلیوں سے استعفوں کا مجوزہ مگرمبہم آپشن بھی شامل ہے۔ اعلامیے میں وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے نئے انتخابات کرانے اور سیاسی امور میں فوج یا مقتدر قوتوں کی مبینہ مداخلت یا کردار کی مخالفت کی گئی ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایکشن پلان کے تحت چاروں صوبوں میں جلوس اور جلسے کرنے کے علاوہ اسلام آباد کی جانب مارچ بھی کیا جائے گا تاکہ ابوزیشن کے بقول حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اے پی سی سے دوسروں کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے تقریر بھی کیں۔

یہ موقف بالکل بجا اور درست ہے کہ پاکستان کے آئین اور جمہوری نظام کے تحت اپوزیشن کو حکومت مخالف سرگرمیوں اور احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس حق کا احترام کرنا چاہیے تاہم جس جارحانہ طرز عمل کا اپوزیشن مظاہرہ کرتے دکھائی دیں اس پر مختلف قسم کے سوالات کا اٹھنا فطری عمل ہے۔

سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی 2018 کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتی آرہی ہے تو اس کے منتخب نمائندے اسمبلیوں میں کیوں بیٹھے؟ درجنوں اسٹینڈنگ کمپنیوں کا حصہ کیوں بنے اور سرکاری مراعات کیوں لیے جا رہے ہیں ؟ حد تو یہ ہے کہ اے این پی جیسی پارٹی بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے کابینہ میں بھی شامل ہیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کے بقول عمران خان واقعتا سلیکٹڈ وزیراعظم ہے تو ان کے استعفے کا مطالبہ کس جواز کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے اور یہ کہ جو مختلف الخیال پارٹیاں حالیہ اے پی سی میں شریک ہوئیں ان میں وہ کون سی مشترکات پائی جاتی ہیں کہ اگر یہ اقتدار میں آتی ہے تو ملک کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے؟

تیسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اے پی سی کے میزبان پارٹی یعنی پیپلزپارٹی واقعات یہ صلاحیت اور تجربہ رکھتی ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکال دے گی تو سندھ جیسے اہم صوبے میں یہ صلاحیت عوام کو عملی ہوتے دکھائی کیوں نہیں دے رہی؟

اعلامیہ سنانے کا فریضہ مولانا فضل الرحمن کو سونپا گیا تو نہ صرف یہ مشاہدہ براہ راست دیکھنے کو ملا کہ ان کو غلط مسودہ تھمایا گیا بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو خواتین عہدیداران اُن کو مسلسل ڈکٹیشن دیتے دکھائی دیں۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اعلامیہ اور ایکشن پلان کے معاملے پر مختلف پارٹیاں اور ان کی ٹیم خود بھی ابہمام کا شکار تھی اور دو بڑی پارٹیاں اپنی اپنی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف عمل تھیں۔ یہ پارٹیاں احتجاجی تحریک کیسے چلا پائیں گی۔ یہ سوال اپنی جگہ اس لیے بہت اہم ہیں کہ ان کے درمیان عمران دشمنی کے علاوہ کوئی چیز عملاً مشترک دکھائی نہیں دے رہی اور سیاست میں ذاتیات کی گنجائش نہیں ہوتی۔

پریس بریفنگ کے دوران جہاں ان پارٹیوں کی عدم تیاری قدم قدم پر محسوس کی گئی وہاں بلاول بھٹو نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر غلط بیانی سے کام لیا کہ سیاسی امور پر عسکری اداروں کے ساتھ مشاورت یا ملاقاتوں کی ان کو آئین اجازت نہیں دیتا۔ تاہم دوسرے دن یہ جب انکشاف سامنے آیا کہ چند روز قبل یہ حضرات اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ نہ صرف ملاقات کر چکے ہیں بلکہ مشاورت بھی کی گئی ہے تو ان کے لیڈروں اور کارکنوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کا واضح مطلب یہی لیا گیا کہ جو کام یہ لیڈر عمران خان کے لیے برا سمجھ رہے ہیں وہ اپنے لیے یہ درست اور جمہوری سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ بات بار بار ثابت ہوتی آئی ہے کہ موجودہ اپوزیشن کی سب پارٹیاں 2018 اور اس سے قبل مختلف ادوار میں یہ پریکٹس اور تجربہ کرتی رہی ہیں۔

یہ بات یا تاثر بہت سے دوسرے حلقے بھی درست سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی حکومت بوجوہ ان توقعات اور خواہشات کی تکمیل میں ناکام ہے جو کہ ان سے وابستہ کی گئی تھیں تاہم اس مسئلہ کا حل حکومت گرانا یا اسمبلیوں کا خاتمہ ہرگز نہیں ہے اور اس رویہّ کے منفی نتائج برآمد ہوں گے اس لئے ملک کو درپیش چیلنجز اور مسائل کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے قومی مفاد کو سامنے رکھنا لازمی ہے۔

بعض سنجیدہ حلقے حالیہ اے پی سی اور اس کی اعلان کردہ تحریک کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ یہ کوشش رعایتیں حاصل کرنے کا ایک سیاسی طریقہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ چند لیڈروں کے لیے سیاسی پارٹیوں اور نظام کو داؤ پر لگانا بہت خطرناک رویہّ اور عمل ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ذاتی اور جماعتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دے کر نظام کو شفاف اور مضبوط بنایا جائے اور حکومت اپوزیشن کی تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket