Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, April 25, 2024

سانحہ پشاور، جرائم میں اضافہ اور اجتماعی ذمہ داریاں

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے خیر، شراور نیکی و بدی کا سلسلہ اسکے ساتھ چلتا رہا ہے تاہم جدید دور میں جب معاشروں اور ریاستوں کی ساخت بالکل تبدیل ہوکررہ گئی ہے، جرائم کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے اور جدید سہولیات اور تفتیشی عمل کے باعث دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں عام جرائم ختم ہوگئے ہیں۔

  بدقسمتی سے پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم خاص کر اخلاقی جرائم کی تعداد میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اوراس سلسلے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بچوں، سٹوڈنٹس اورخواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 ہفتہ رفتہ کے دوران جہاں خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقے مسلسل تشدد اور جرائم کی لپیٹ میں رہے،مبینہ طورپر وہاں عوام کو تحفظ فراہم کرنے والی پولیس فورس کے ہاتھوں یا ان کی غفلت کے باعث تین نوجوان یا طلباء زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اِن میں سے دو واقعات پشاورمیں سامنے آئے۔  بنوں کے ایک طالب علم کی ہلاکت پر بحث جاری تھی کہ جمرود سے تعلق رکھنے والے خاندان کے 14 سالہ شاہ زیب آفریدی کی ایک دکاندار کو پستول سے دھمکانے کی شکایت پرغربی تھانہ میں مبینہ مگرپراسرارانداز میں موت واقع ہوئی۔ بظاہر شاہ زیب نے خودکشی کی مگرمعاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اس کو محض خودکشی کا واقعہ یا بچے کے ذہنی حالات کا نتیجہ قرار دے کر نظر انداز کیا جائے۔

  شہر کے وسطی تھانے میں سہ پہر چار بجے خلاف قانون 14سالہ ذہنی طور پر معذور بچے کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد حوالات میں اس طرح کھلا چھوڑ دینا اور اس سے لاتعلق رہنا پولیس کی کارکردگی،لاتعلقی اور رویے پر اٹھتے ایسے سوالات ہیں جن کے باعث کے پی پولیس کی ساخت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔

وزیراعلٰی محمود خان،  وزراء،  ڈپٹی سپیکر، آئی جی ثناء اللہ عباسی اور سی سی پی او عباس حسن نے گھنٹوں کے اندر جس قسم کے اقدامات اٹھائے اورجورسپانس دیا وہ قابل تعریف ہےجبکہ جوڈیشل کمیشن نے بھی فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے تاہم مجموعی طور پر پولیس کی کارکردگی اور رویے سے جو خوف پھیلا ہے اس کی تلافی اور اس کی ساکھ کی بحالی میں کئی سال لگیں گے کیونکہ اس قسم کے واقعات کا جو سلسلہ ایک سال قبل عامر تہکالے کے جس افسوسناک واقعے سے شروع ہواتھا اس میں مسلسل اضافہ انتہائی تشویشناک اور خطرناک ہے۔

 پشاور میں ہفتہ کے دوران دن دھاڑے  ایک بینک کو لوٹا گیا جو کہ اس شہر میں اپنی نوعیت کا عجیب واقعہ  تھا۔ شہر کی تاریخ میں پہلی دفعہ روزانہ کی بنیاد پر دوسرے تو ایک طرف خواتین سے موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے مگر پولیس کا رسپانس نہ ہونے کی برابر ہے تاجروں کو بھتہ خوروں کی کالز آرہی ہیں اور وہ بدترین خوف سے دوچار ہیں مگر حکومت خصوصاً پولیس لاتعلق اور بے بس دکھائی دے رہی ہے۔  مختلف قسم کے مافیاز کسی خوف کے بغیرغیرمعمولی طور پر متحرک ہیں مگر ان کی سرگرمیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا۔

 سوال یہ ہے کہ اگر پشاور جیسے مرکزی شہر کا یہ حال ہے تو دور دراز کے پسماندہ علاقوں اور اضلاع میں کیا صورتحال ہوگی؟ حکومت اس صورتحال کا ٹھوس انداز میں نوٹس لے ورنہ اس کی رٹ اور ساکھ دونوں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket