Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

روزہ رکھنے اور عید کرنے کے معاملے میں مفتی منیب الرحمان کی سنیں یا مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی؟

خیبر پختونخوا کے لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔آئیے جانتے ہیں۔

میں نے خیبرپختونخوا کے لوگوں کے سامنے سوال رکھا کہ وہ مفتی منیب الرحمٰن کو مانتے ہیں یا شہاب الدین پوپلزئی کو اور اسکی وجہ کیا ہے؟

اس کا نتیجہ مختلف آراء اور نہایت دلچسپ جوابات جو کہ میں آپ کے پیش نظر کر رہی ہوں۔

پہلے تو وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مفتی منیب کو تو چاند کبھی نظر نہیں آتا۔۔ ہمارے علاقے جیسا کہ کرک، بنوں اور دیگر اضلاع کا ماحول صاف ہے ہمیں چاند نظر آ جاتا ہے لیکن وہ شہادتیں وصول نہیں کرتا۔۔۔پوری دنیا میں روزہ ہے ایک پاکستان میں ہی نہیں۔۔۔ سعودیہ عرب صرف دو گھنٹے ہم سے آگے ہے تو پھر روزہ کیوں 24 گھنٹے کے فرق سے رکھے ۔۔۔ آج پہلے روزے کی افطاری کے بعد ہمیں چاند نظر آیا۔۔۔ تو کل مفتی منیب کو دوربین میں نظر آنا چاہیے تھا۔۔۔۔ اور پوپلزئی غیر سیاسی بندہ ہے اور انکی کمیٹی 1884 میں بنائی گئی تھی یہی اعلان کرتے تھے اور آباؤ اجدد انہی کو مانتے ہیں انہیں تجربہ ہے جبکے مفتی منیب گورنمنٹ کا بندہ ہے ۔۔۔۔

کچھ اس قسم کے نظریات رکھنے والے خیبرپختونخوا کے لوگ شہاب الدین پوپلزئی کی پیروی کرتے ہیں انکے اعلان کے ساتھ روزہ رکھتے اور عید کرتے ہیں چاہے ڈھائی کروڑ کی آبادی کا فیصلہ چند شہادتوں پر کیا گیا ہو جن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ میں آسمان کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا اچانک مجھے چاند نظر آیا اور پھر غائب ہوگیا، چاند تھا یا مچھر جو آنکھوں کے سامنے اچانک غائب ہو گیا۔

اب آپ لوگوں کو لگے گا کہ لکھاری منیب الرحمٰن کی پیروی کرتے ہیں۔ نہیں ابھی انکو بھی ہم نے کٹہرے میں لانا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

اب باری آتی ہے ان لوگوں کی جو مفتی منیب کے فالورز ہیں انکے نظریات کچھ یہ ہیں کہ حاکم وقت چاہے جیسا بھی ہو اسکی اطاعت ہم پہ لازم ہے اور اس وقت پاکستانی ہونے کے ناطے ہم پر مفتی منیب الرحمان کی اطاعت لازم آتی ہے کیونکہ وہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس بارے میں وہ حدیث کا حوالہ دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ یہ جملہ بڑے فخر سے بولتے ہیں کہ اگر مفتی منیب غلط ہے تو پوپلزئی پارٹی عیدالاضحیٰ ہمارے ساتھ کیوں کرتی ہے۔۔۔ اسکے جواب میں پوپلزئی پارٹی کہتی ہے کہ عیدالاضحیٰ دراصل مفتی منیب ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔۔ پھر منیب پارٹی فرماتی ہے چھوٹی عید سعودیہ کے ساتھ کرتے ہو تو بڑی عید سعودیہ سے ایک دن بعد کیوں کرتے ہو ۔۔۔ میری عید میری مرضی۔۔۔ لاحاصل بحث ختم ہو جاتی ہے۔۔

منیب پارٹی سے ایک اور سوال میں نے کیا کہ چند سال پہلے مفتی منیب صاحب نے اعلان کیا تھا کہ چاند نظر نہیں آیا، اسی شام کو پاکستان کی ایک فلائٹ اتری اور اس میں موجود تمام لوگوں نے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد چاند دیکھا تھا، پھر ہنگامی سطح پر دوسرا اجلاس ہوا اور عید کی نوید سنا دی گئی۔۔ اسکے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اس نے اپنی غلطی ٹھیک کی، اب وہ ٹھیک ہے یا غلط گناہ اسکے سر پہ جائے گا ۔۔۔۔ شاہد اسی ڈر کی وجہ سے مفتی صاحب پاکستان کے چاروں صوبوں میں سے ایک صوبہ سے آئی ہوئی شہادتوں کو بر طرف رکھتے ہوئے ایک اور روزہ رکھوا لیتے ہیں تاکہ انکے کندھوں پر بیس کڑوڑ عوام کے روزہ کھانے کا گناہ نہ آئے۔۔۔۔۔

اگر میں انکی جگہ ہوتی تو اتنے بوجھ تلے شاہد میں بھی یہی فیصلہ کرتی کیونکہ مجھے لوگوں کے گناہ اپنے سر لینے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔

اب تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں مفتی منیب کے ساتھ اور عید پوپلزئی کے ساتھ کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اس صوبے میں رہتے ہوئے دونوں مفتیوں پہ گناہ کا بوجھ پھینک کر مزے کررہے ہیں۔۔۔۔ یہ بھی جرآت ازما کام ہے۔۔۔

چوتھی قسم خیبرپختونخوا میں ایسے لوگوں کی ہے جو ذہنی طور پر حاکم وقت یعنی مفتی منیب الرحمٰن کو ٹھیک سمجھتے ہیں لیکن اپنے علاقے کی مسجد میں رمضان کا اعلان ہوتے ہی روزہ رکھتے بھی ہیں اور عید بھی اسی حساب سے کرتے ہیں انکا کہنا ہے کہ اگر علاقے میں اعلان ہوجائے تو ہم پر روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے اور کانوں میں عید کا خطبہ سنائی دے تو روزہ بھی فاسق ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔

یہ سوال میں نے پچھلے سال محمد مفتی محمد اکمل سے پوچھا تھا کہ ہمارے علاقے میں عید کا اعلان ہو جاتا ہے اس صورت میں کیا کیا جائے، اس بار تو حالات یہ تھے کہ والد صاحب کی عید تھی اور والدہ کا روزہ۔۔۔

انکا جواب تھا کہ “پورے پاکستان کے ساتھ چلیں۔”

اب پانچویں قسم مجھ جیسے لوگوں کی ہے جنکو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا جائے۔ بییس سال سے زائد کا عرصہ پشاور میں گزارنے کے بعد ایک حتمی فیصلہ مجھے اور مجھ جیسے لوگوں کو کرنا چاہیے۔۔۔ جی ہاں، میں نے بھی میرا کی طرح +20 کہا۔۔۔ بھئی خاتون ہوں اپنی عمر کیوں بتاؤں میں۔۔۔

اب نظر ڈالتے ہیں سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے، اس رمضان کے چاند کی پیدائش جمعرات کی صبح سات بج کر چھبیس منٹ (7:26am) پر ہوئی۔ ماہر فلکیات کے مطابق چاند صرف اس وقت زمین پر دکھائی دیا جاسکتا ہے جب اسکی عمر ساڑھے انیس گھنٹے (19.5) سے زیادہ ہو جائے. اس اعتبار سے جمعرات کی شام چاند کی عمر صرف 12 گھنٹے تھی جو سائنسی اعتبار سے زمین پر نظر نہیں آسکتا۔

اب مجھے بھی یہ سجھ آگئی کہ مفتی منیب کو دوربین میں بھی چاند نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔۔

اور یہ بھی کہ باقی ممالک جو ہم سے کچھ گھنٹے پیچھے ہیں وہاں جب شام ہوئی تو اس وقت چاند اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ چکا تھا اسلئے نظر آگیا اور وہاں اعلان بھی ہوگیا۔
لیکن ہمارے لوگ سائنسی باتوں کے بارے میں پتہ ہے کیا کہتے ہیں “زہ مڑہ دہ سا گپ دے “

یہی وجہ ہے کہ اس مسلئے پر میں نے اسلامی نقطئہ نظر کو جانچنے کی کوشش کی اور چند مستند احادیث حوالہ جات کے ساتھ اکٹھی کی۔ تاکہ اس مسلئے کو اسلامی رو سے بھی دیکھا جائے…

اب کچھ مستند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں۔
ابو حریرہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے “جس نے میری اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللّٰہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ “۔
صحیح بخاری۔۔۔۔۔7144
صحیح مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔1835
ایک اور حدیث اسی حوالے سے

إسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشی کأن رأسہ زبیبۃ.(بخاری،رقم ۶۶۰۹)

 

”تم (اپنے حکمران کی بات) سنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے جیسا ہو”
اب سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت چاند دیکھنے کے معاملے میں امیر وقت کون ہے؟

پوپلزئی پارٹی کا یہ کہنا ہے کہ مسجد قاسم علی خان پاکستان بننے سے پہلے 1842سے قائم ہے اور اس وقت سے یہ رمضان اور عید کا اعلان کرتی ہے اسلئے ہم اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف وہ اس بات کو برطرف کر دیتے ہیں کہ اب پاکستان بن چکا ہے، 1842میں رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت تھی آج کے دور میں یہ ذمہ داری مفتی منیب الرحمان کو سونپ دی گئی ہے.

اب حاکم وقت کی اطاعت ہم پہ لازم آتی ہے ورنہ دو عیدیں دو رمضان کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔

اب سب “زہ مڑہ ” کہہ کہ سب باتیں بھلا دیں گے۔ اور میری اس ساری ریسرچ کو ریسٹ ان پیس (RIP) کر دیں گے۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔
اب اگر ہم سجھتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے تو ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا اور اگر قبول نہیں کرتے تو پھر واقعی ہم خود جی ہاں بذاتِ خود، اپنے آپ کو الگ قوم تسلیم کرتے ہیں اور پھر گلا کرتے ہیں کہ ہم پٹھانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket