Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, March 29, 2024

عمران خان کا دورہ کابل

وزیراعظم عمران خان چند روز قبل ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ افغانستان گئے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور انہوں نے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ خطے کی صورتحال، کراس بارڈر ٹیررازم اور مجوزہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے علاوہ دو طرفہ تعلقات کی ازسرنو بحالی اور تجارت کے فروغ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ان کے وفد میں دوسروں کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید بھی شامل تھے۔ ایوان صدر پہنچنے پر ان کا شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا۔ اُن کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جس کے بعد ان کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ باقی کے تین اہم عہدیداران نے اپنے متعلقہ افغان حکام کے ساتھ بھی دو طرفہ معاملات پر بات چیت کی۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اس موقع پر خطےبالخصوص افغانستان کی صورتحال، سیکورٹی کے معاملات اور مجوزہ امریکی انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی متوقع صورتحال کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق پاکستانی وفد نے خطے خصوصاً افغانستان میں بھارت کے منفی عمل ودخل پر افغان عہدیداران کو نہ صرف اپنی تشویش اور تجاویز سے آگاہ کیا بلکہ ایسے بعض ثبوت پیش کرنے کی آفر بھی کی کہ جس سے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ بھارت افغان دوستی کی آڑ میں نہ صرف افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آرہا ہے بلکہ وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کوششوں کو بھی ناکام بنانا چاہ رہے ہیں۔ اس موقع پر پاکستانی وفد نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ نہ صرف تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا بلکہ پاکستان کی سرزمین افغان بدامنی کے لیے استعمال کرنے کی کسی کو اجازت بھی نہیں دے گا۔

اس دورے کے دوران ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کے عسکری اداروں بالخصوص انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان ایک کوآرڈینیٹنگ سسٹم بنایا جائے گا جس میں انٹیلی جنس شیئرنگ بھی شامل ہے تاکہ سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے۔ دوسری پیش رفت یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کی تجارت کو مزید فروغ دینے کی متعدد تجاویز پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیااور کمیٹی بنائی گئی۔

وزیراعظم عمران خان نے پریس کانفرنس اور واپسی پر ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کا امن اور استحکام پاکستان کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے اور جاری صورتحال سے پاکستان بہت زیادہ متاثر ہوتا آیا ہے۔ اُن کے مطابق پاکستان ایک پرامن ترقی پسند اور خودمختار افغانستان کا نہ صرف خواہاں ہیں بلکہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے مستقل کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو طرفہ تجارت کا فروغ ان کی ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ اس کا زیادہ فائدہ خیبرپختونخوا خصوصاً نئے ضم شدہ اضلاع کے جنگ زدہ عوام کو ملے گا کیونکہ وہ ماضی میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنے ہیں۔

وزیر خارجہ قریشی نے واپسی پر کہا کہ مذاکراتی عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور بہت جلد اس کے نتائج سامنے آ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکام کو بھارت کے کردار کے بارے میں پاکستان کے خدشات سے آگاہ کیا گیا ہے اور بہتری کی امید ہے۔

افغانستان کے سنجیدہ سیاسی حلقوں نے اس دورے کو اہم قرار دیا ہے جبکہ یورپی یونین نے پاکستان کے کردار کی باضابطہ طور پر تعریف کر کے اس دورے کو نتیجہ خیز اور اہم قرار دیا ہے۔ امریکا نے بھی اس دورے کو اہم کہا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

دوسری طرف چین نے باضابطہ طور پر سی پیک کے بارے میں الزام لگایا ہے کہ بھارت اس کو ناکام بنانے کی سازش کر رہا ہے۔ جس کو پاکستان کے تعاون کے ساتھ ناکام بنایا جائے گا۔ ایک جاری کردہ بیان میں چین نے کہا ہے کہ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار رہا ہے۔ دوسری طرف کابل کے بعض حلقوں اور حکومتی عہدیداران نے اس موقع کو ضائع کرنے کی اپنی روش جاری رکھی۔ مثال کے طور پر افغان وزیر دفاع کا انہی دنوں یہ الزام سامنے آیا کہ طالبان کے اب بھی پاکستان میں ٹھکانے ہیں۔ ایسا کہتے وقت وہ اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ شاید بھول گئے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود تقریباً چھ ہزار حملہ اور پاکستان پر حملہ کرتے آرہے ہیں اور افغان حکومت ان کا راستہ نہیں روک پا رہی۔ اسی طرح گزشتہ روز القاعدہ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ایمن الظواہری کی افغانستان میں بیماری کے باعث انتقال ہونے کی خبر آئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دائش کے علاوہ القاعدہ بھی وہاں موجود ہے۔ بہرحال تمام تر مشکلات اور بدگمانیوں کے، اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket