Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

عمران خان کا بیانیہ اور تلخ زمینی حقائق

وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں قبائلی علاقہ جات میں انتہاپسندی اور مزاحمت پر تبصرہ کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت، قبضے اور پھر پاکستان کی اس وقت کی حکومت کی جانب سے امریکی حمایت کے باعث پاکستان کے پشتون ریاست کے خلاف مزاحمت پر اتر آئے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں کو ایسے معاملات پر غیر ضروری بیانات یا ریمارکس سے گریز کرنا چاہیے جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں اور ان کے مخالفین اور بعض غیر ملکی قوتوں کے بیانیہ کو فروغ ملتا ہے۔ تاہم ان کے انٹرویو پر بعض سیاسی حلقوں نے جس یکطرفہ ردعمل کا اظہار کیا اس کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ عمران خان کی دلیل یا موقف کو کُلی طور پر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بعض تلخ تاریخی حقائق ، غلطیوں اور واقعات کا ایک پس منظر ضرور ہوا کرتا ہے۔
یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ تمام پشتونوں کو انتہا پسندیا دہشت گرد قرار دیا جائے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پشتون بحیثیت قوم انتہائی حد تک اسلام پسند رہے ہیں اور ماضی میں پشتون افغان فاتحین نے مذہبی وابستگی کی بنیاد پر متعدد بار ساؤتھ ایشیا اور سینٹرل ایشیا پر حملے کیے بلکہ حکومتیں بھی کیں۔
ہر قوم کی طرح پشتونوں میں بھی ہر طبقہ فکر اور طرز فکر کے لوگ موجود ہیں اور ہر دور میں مذہبی جنونیت کی مخالفت بھی ہوتی رہی ہے۔ اب بھی اس قوم میں لبرلز کی بڑی تعداد موجود ہے تاہم عوام کی اکثریت کی مذہب کے ساتھ گہری جذباتی وابستگی رہی ہے اور ہے۔ کشمیر کا جو علاقہ 1948 کے دوران ہندوستان کے قبضے سے آزاد کرایا گیا وہ اس وقت کی نئی پاکستانی حکومت کی ریاستی پالیسی نہیں تھی بلکہ تاریخی دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ متعدد بار بانی پاکستان نے اس طریقہ کار پر ناراضگی کا اظہار بھی کیاتا ہم پشتون قبائل نے جہاد اور آزادی کے نام پر جنگ لڑی اور بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا۔
نائن الیون سے قبل پاکستانی پشتونوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی وابستگی کی بنیاد پر افغانستان کی طالبان حکومت کی حامی تھی اور متعدد مذہبی پارٹیاں بھی طالبان حکومت کی حمایت کر رہی تھیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ حکومت ختم کر دی تو ان حلقوں نے جہاں ایک طرف افغان اور دوسرے مزاحمت کاروں کو قبائلی پٹی میں پناہ دی وہاں انہوں نے اس بنیاد پر پاکستانی فورسز اور بلوچ قوم پرستوں پر حملے شروع کیے کہ پاکستان کی اس وقت کی حکومت اور قوم پرستوں نے امریکہ کی حمایت کی تھی۔ عمران خان کا اشارہ انہی واقعات کی طرف تھا تاہم مخالفین نے اپنی مخالفت کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گویا وزیراعظم نے پشتونوں کو بحیثیت قوم انتہا پسند قرار دے دیا ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2007 کے دوران جب تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی قیادت، کمانڈروں ، جنگجووں اور حامیوں کا مرکز وزیرستان ہی تھا۔ ٹی ٹی پی میں شامل 80 فیصد جنگجو پشتون قبائلی تھے اور اس کے قیام ، مقاصد اور انتظامی ڈھانچے کی تمام تفصیلات ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نورولی محسود اپنی کتاب” انقلاب محسود” میں تحریر کر چکے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے وہ اسباب اور عوامل بھی بتائے ہیں جن کی نظریاتی بنیادوں پر ٹی ٹی پی نے فورسز، سرکاری اہلکاروں اور بعض قوم پرستوں کو نشانہ بنایا ۔
اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر تمام پشتون مذہب پسند یا بقول لبرلز کے انتہا پسند نہیں تو تمام پشتون لبرلز اور قوم پرست بھی نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان کے پشتون بیلٹ اور کراچی جیسے شہروں میں مذکورہ سرگرمیوں اور بیانیے کی قیادت پشتونوں ہی کے ہاتھ میں رہی ہے اور اس کے اسباب سب کو معلوم ہیں ۔عمران خان کا وار آن ٹیرر پر موقف نیا نہیں ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض حلقے ان کو پرو طالبان قرار دیتے آرہے ہیں تاہم اب وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اس لئے ان کو ان معاملات پر غیر ضروری بیانات اور ریمارکس سے گریز کرنا چاہئے جس سے تنازعات پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یا دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket