Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

یونیورسٹیوں کے ملازمین کا احتجاج اور حکومتی ذمہ داریاں

خیبرپختونخوا کی مختلف یونیورسٹیوں کے ملازمین اور اساتذہ بعض حکومتی اقدامات کے ردعمل میں احتجاج پر ہیں اور ان کی دو نمائندہ تنظیموں فپواسا اور پیوٹا نے گزشتہ دنوں پشاور میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کر کے الزام لگایا کہ 18 ویں اور 25 ویں آئینی ترمیم کے علاوہ ہائیر ایجوکیشن کے بعض اعلانات اور مراعات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ سیاسی جماعتیں بھی اس احتجاج کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب بعض وائس چانسلرز کی برطرفی اور معطلی کے حکومتی اقدامات پر پشاور ہائی کورٹ نے بھی تشویش اور ناراضگی کا اظہار کر کے حکومت سے وضاحتیں طلب کی ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ اکثر یونیورسٹیوں میں یا تو ملازمین کی تعداد زیادہ ہے یا یہ غیرمعمولی اخراجات میں ملوث ہیں جس کے باعث حکومت ان کو درکار فنڈز فراہم نہیں کر سکتی جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے زیادہ تنظیمی اور بدانتظامی کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق پختونخوا میں پبلک سیکٹر کی 31 جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کی آٹھ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ اے این پی کے دور حکومت میں قائم ہوئی ہیں جس کے باعث متعدد اہم یونیورسٹیاں قائم کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ کے خلاف ماضی قریب میں انکوائری بھی ہوئی۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مالی اور انتظامی بحرانوں سے قطع نظر ان یونیورسٹیوں کے قیام سے اعلیٰ تعلیم کی شرح اور اس کی تعداد اور سہولیات میں اضافہ ہوا۔

فپواسا کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صادق علی کے مطابق ہزاروں اساتذہ اور دیگر ملازمین اپنے چار مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کا اپنا آئینی حق استعمال کر رہے ہیں کیونکہ صوبائی حکومت یونیورسٹیوں کے معاملات میں دلچسپی نہیں لے رہی اور اب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بجائے کٹوتی کا فیصلہ کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کے یونیورسٹیوں کو دنیا اور دوسرے صوبوں کی طرح خود مختار ہونا چاہیے اور ان کی ضروریات اور اخراجات کے مسئلہ کو حل کرنا ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ ان کے مطابق ہایئر ایجوکیشن کمیشن نہ صرف ملازمین کو مسلسل تنگ کرنے اور مراعات کم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ یونیورسٹیوں سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے سٹوڈنٹس کی فیسوں میں اضافہ کریں حالانکہ صوبے میں فیسوں کی شرح دوسرے صوبوں سے پہلے ہی کافی زیادہ ہے۔

ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق اپنی عوام کو سیکورٹی، تعلیم اور صحت فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری میں آتا ہے۔ تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ ہمارے حکمران ایک جنگ زدہ اور پہلے سے پسماندہ صوبے کے تعلیمی اداروں کو مزید تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صوبے کے عوام ملازمین اور سٹوڈنٹس مزاحمت پر اتر آئیں۔ غیر اعلانیہ طور پر ایک منصوبے کے تحت کوشش کی جا رہی ہے کہ نئی نسل پر حصول تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کیے جائیں۔ پیوٹا کے سابق صدر ڈاکٹر جمیل چترالی کا موقف ہے کہ نظام تعلیم کو پیچیدہ، مشکل اور مہنگا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کی ضروریات اور مسائل کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبے کی متعدد اہم یونیورسٹیوں کو کئی برسوں سے مالی بحران اور درکار فنڈز کی عدم فراہمی کا سامنا ہے۔ ان کے پاس احتجاج کے بغیر دوسرا راستہ اس لئے باقی نہیں رہا ہے کہ حکومت تعلیم دشمن اور ملازم کش رویے پر گامزن ہے۔

دوسری طرف معاون خصوصی برائے اعلی تعلیم اور صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے رابطہ پر بتایا کہ موجودہ حکومت ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی ترقی میں بہت سنجیدہ ہے اور پچھلے بجٹ میں تعلیم کے فروغ کے لیے ریکارڈ بجٹ رکھا گیا تھا۔ ان کے مطابق حال ہی میں سینکڑوں نئی ملازمتوں کی فراہمی کا اعلان کیا گیا ہے جس کے لیے ایک شفاف طریقہ کار وضع کیا گیا ہے تاہم بدانتظامی میرٹ کے خلاف بھرتیوں اور غیر ضروری اخراجات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور یونیورسٹیوں کو اپنی کارکردگی کا معیار بھی بہتر بنانا ہوگا۔ ان کے مطابق اساتذہ اگر احتجاج اور غیر معمولی مراعات کیب بجائےاپنی کارکردگی پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اسباب اور عوامل جو بھی ہو تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنگ زدہ صوبے کے سٹوڈنٹس کو اعلیٰ اور سستی تعلیم اور روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داریوں میں آتا ہے اور حکومت کو غیر معمولی اقدامات میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا طریقہ کار اور رویہ ٹھیک نہیں اور ملازمین کو بعض اقدامات پر تحفظات لاحق ہیں تو صوبائی حکومت کو چاہیے کہ فپواسا اور پیوٹا کے علاوہ سٹوڈنٹس کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد یا جرگے کی سفارشات اور تجاویز کی روشنی میں ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے جس کے ذریعے ان مسائل اور بحرانوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket