Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, April 24, 2024

پشتون تحفظ موومنٹ اندرونی اختلافات سےدوچار

پشتون تحفظ  موومنٹ کے بعض اہم لیڈروں کا ایک اجلاس صوابی میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی ایم کو ایک سیاسی پارٹی کے ڈھانچے میں تبدیل کیا جائے گا۔

مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پارٹی بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ کہ جلد پارٹی کے نام اور منشور کا اعلان کیا جائے گا۔جاری کردہ تصویر میں شرکاء کی تعداد بہت کم دکھائی دی جب کہ جن لیڈروں نے اس میں شرکت کی ان میں محسن داوڑ، افراسیاب خٹک بشریٰ گوہر، پروفیسر اسماعیل اور عبداللہ ننگیال قابل ذکر ہیں یہ سب وہ لوگ ہیں جو کہ ماضی میں اے این پی کا حصہ رہے ہیں اور ان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر مختلف اوقات میں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے۔

 جس روز نئی مجوزہ پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا اسی  روز باڑہ میں پی ٹی ایم کے بانی منظور پشتین نے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کیا تاہم اس میں بھی کارکنوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم رہی۔

پی ٹی ایم کی جو تحریک کراچی کے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت سے وزیرستان سے محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے چلی گئی تھی اس  میں مختلف حلقوں اور طبقوں کی شمولیت کے باعث نہ صرف پی ٹی ایم میں تبدیل ہوگئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا ایجنڈا بھی پھیلتا گیا اور اس ایجنڈے نے اینٹی  پاکستان ایجنڈے کا تاثر دینا شروع کیا جس کے باعث قبائل کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم نہ صرف متنازعہ ہوگی بلکہ اس پر بیرونی فنڈنگ اور گائیڈ لائن لینے کے سنگین الزامات بھی لگے۔ دوسروں کے علاوہ اے این پی جیسی قوم پرست پارٹی کے قائدین نے بھی پی ٹی ایم پر متعدد سنجیدہ الزامات لگائے جبکہ بعض سنجیدہ حلقے محض اس لیئے اس سے الگ ہوگئے کہ اس کا ایجنڈا مسائل کے حل کی بجائے ایسے نازک معاملات تک محدود ہو گیا جس سے ریاست اور پشتونوں کے تصادم کا تاثر لیا جانے لگا ۔الزامات کے علاوہ گروپ بندیاں بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ سال 2020 کے دوران پی ٹی ایم دو واضح حصوں میں تقسیم ہونے لگی ایک گروہ وہ تھا جس کی قیادت محسن داوڑ کر رہے تھے اور اس گروپ میں اے این پی سے نکالے گئے اہم لیڈر شامل تھے جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت منظورپشتین اور دیگر لوگ کر رہے تھے یا کر رہے ہیں جن کو عوامی حلقوں میں کافی اثرو رسوخ حاصل ہے۔ پارلیمانی طرز سیاست اپنانے اور روایتی سیاسی پارٹی کے حامی پہلے والے لوگ تھے جو کہ مسلسل کوشش کرتے رہے تاہم منظور پشتین کے ساتھ جو لیڈر جڑےرہے وہ افراسیاب خٹک اور دیگر کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ سب کچھ اے این پی کے ردِ عمل میں کیا جا رہا ہے اور یہ کہ افراسیاب خٹک پارٹیوں کو توڑنے کے ماہر ہیں اس لیے ان کی خواہش اور ایجنڈے کے تحت چلنا نقصان دہ ہوگا اگرچہ اس تمام کشمکش میں منظور پشتین کی پالیسی مصالحانہ رہی ہےتاہم نجی  محفلوں میں ان کو یہ کہتے سنا گیا کہ وہ کسی کو پی ٹی ایم کو ہائی جیک کرنے نہیں دیں گے اور یہ کہ وہ نہیں چاہتے کہ جس تنظیم کی انہوں نے بنیاد رکھی وہ اور روایتی پارٹیوں کی صورت اختیار کر جائے کیونکہ ان کے بقول عام پارٹیاں پہلے سے ہی ایک بڑی تعداد میں پختونخوا میپ، اے این پی اور قومی وطن پارٹی کی شکل میں موجود ہیں۔

محسن داوڑ کے تیس مئی کے اعلان کے بعد پی ٹی ایم کی تقسیم کا نہ صرف باقاعدہ مطلب لیا گیا بلکہ سوشل میڈیا پرسینکڑوں کارکنوں نے مخالفانہ بیانات اورالزامات بھی شیئر کیے اور ان میں اکثریت نے نئی پارٹی کے قیام کو وجوہات بتائے بغیر مسترد کردیا۔ جس ایک نقطے پر پارٹی کے قیام کی مخالفت پر سب متفق نظر آئے وہ افراسیاب خٹک اور ان کے ساتھیوں کا عمل دخل ہونا تھا اس معاملے پر بحث چل نکلی اور اب بھی جاری ہے۔

 پی ٹی ایم کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اب یہ عملی طور پر نہیں رہی تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس کے لیڈر، کارکنوں کے علاوہ ہمدرد بھی تقسیم ہو چکے ہیں بلکہ اب تو حالت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات پر اترآئے ہیں ۔جب کہ منظور پشتین اور ان کے حامی لیڈروں نے محسن داوڑ کے اعلان یا بیان کے بعد تادمِ تحریر کسی قسم کا ردعمل یا بیان نہیں دیا ۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پشتون قوم پرستی کی بنیاد پر ہی  پارٹی بننے جارہی ہے تو یہ تجربہ ناکامی سے دوچار ہو گا کیونکہ ایک تو تین بڑی پارٹیاں پہلے سے ہی میدان میں موجود ہیں اور دوسرا یہ کہ ماضی میں قومی انقلابی پارٹی، نیپ اور ایسی دوسری وہ تمام پارٹیاں خود کو منوانے میں ناکام رہی ہیں جن کا افراسیاب خٹک سمیت ایسے دوسرے لیڈر حصہ رہے ہیں۔ تاہم ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر پارٹی نہیں بنائی جاتی اور اس گروپ کو کوئی تنظیمی شکل نہیں دی جاتی تو لیڈرشپ کے پاس دوسرا کیا آپشن ہے ۔ پی ٹی ایم کا طرز سیاست یا بیانیہ کیسا رہا اس بات سے قطع نظر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹوٹ چکی ہے اواس کا مستقبل بڑے خطرے سے دوچار ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket