Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

وزیرستان میں احتجاجی جلسہ، پی ٹی ایم کا بیانیہ اور افغانستان

پشتون تحفظ موومنٹ نے 2020 کے دوران شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ کمر میں ہونے والے اس تصادم کی یاد میں گزشتہ روز ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر مشتعل ہجوم اور فوجی جوانوں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں بعض مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے۔

اس قسم کے واقعات نہ صرف ایسے شورش زدہ علاقوں میں ہوتے رہتے ہیں بلکہ ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ بعض حلقے  دو طرفہ طور پر ایسے واقعات کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کر کے مزید کشیدگی اور بداعتمادی کا راستہ ہموار کر لیتے ہیں۔  خڑ کمر کا واقعہ افسوسناک تھا اور اس کی اعلیٰ سطحی انکوائری بھی ہو چکی ہے۔  دو ممبران قومی اسمبلی سمیت متعدد دوسروں پر جو مقدمات درج کیے گئے تھے وہ حکومت واپس لے چکی ہے جبکہ جاں بحق افراد کے ورثاء اور زخمیوں کی مناسب مالی امداد بھی کی گئی ہے اور متاثرین اور حکومت کے درمیان کئی ماہ قبل تمام شکایات دور بھی کی جاچکی ہیں۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ پی ٹی ایم اور بعض دوسرے حلقے ہر وقت کشیدگی بڑھانے کے لیے اس قسم کے سانحے کے انتظار میں ہوتے ہیں حالانکہ بعض واقعات اور خدشات کے باوجود قبائلی علاقہ جات کے حالات امن و امان کے پس منظر میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہوگئے ہیں۔ سن 2008 سے لے کر 2013 کی اے این پی کی حکومت کے دوران قبائلی علاقوں سمیت پورے صوبے میں دہشت گردی کا جو ماحول رہا اس کی مثال نہیں ملتی اور اُس دور کے دھماکے، ڈرون حملے اور لاتعداد ہلاکتیں ہماری تاریخ کا وہ باب ہے جس کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

 اسی طرح افغانستان میں امریکی حملوں اور افغان فورسز کے ہاتھوں جو سویلین ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں ان پر قوم پرستوں اور پی ٹی ایم کی مسلسل خاموشی بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتی آئی ہے۔  خاموشی اس لیے اختیار کی جاتی ہے کہ یہ لوگ لراوبر کے مبہم نعرے کی آڑ میں نہ صرف افغانستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں بلکہ یہ افغان حکومت اور امریکہ کے زبردست حامی بھی ہیں۔

 یہ شکوہ درست ہے کہ فورسز اور حکومت کو قبائلی عوام کی تکالیف کا ادراک کرتے ہوئے عوامی زخموں پر مرہم رکھنے کی اشد ضرورت ہے اور ماضی میں ریاست نے ان کو نظر انداز کرکے زیادتی کی ہے۔  تاہم اس علاقے کو ایک اور تصادم سے دوچار کرنے کی کسی بھی کوشش کو مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ علاقہ عرصہ تیس سال تک پراکسیز،  طالبانائزیشن اور ریاستی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے جبکہ اس کے عوام کی ایک بڑی اکثریت طالبان وغیرہ کی حامی بھی رہی ہیں اس تمام صورتحال اور اس کے اثرات سے نکلنے کے لئے کافی وقت درکار ہے تاکہ مرحلہ وار معاملات کو درست کیا جائے ایک مقرر نے حالیہ احتجاج کے دوران الزام لگایا کہ پاکستان پشتونوں کے ساتھ زیادتی کر کے افغانستان کے بگڑتے حالات کا ذمہ دار ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مجموعی حالات اور پشتونوں کی اونر شپ کا اگر موازنہ کیا جائے تو پشتونوں کی اکثریت نہ صرف یہ کہ پاکستان میں رہائش پذیر ہیں بلکہ پاکستان کے اہم ترین ریاستی اداروں کے سربراہان کی اکثریت بھی پشتونوں کی رہی ہے۔  حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی آرمی میں بھی پشتونوں کی نمائندگی 25 فیصد بتائی جارہی ہے حالانکہ آبادی کے تناسب سے یہ 11 سے 13 فیصد کے درمیان ہونی چاہیے تھی۔  یہاں کے قوم پرست ہر دور میں حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور اس وقت بھی اے این پی بلوچستان حکومت میں شامل ہے۔

 دوسری طرف افغانستان میں پاور شیئرنگ کا فارمولا ہر دور میں پشتونوں کے ساتھ زیادتی اور امتیازی سلوک پر مبنی رہا ہیں۔  نمائشی سربراہان مملکت کے بغیر ہر دور میں اس کے ریاستی نظام پر اقلیت یعنی ازبک ، تاجک اور ہزارہ حاوی رہی ہیں اور اس مسلسل رویہ کے خلاف افغان عوام میں مزاحمت بھی پائی جاتی ہے۔  اس وقت بھی اشرف غنی کی حکومت سابقہ پشتون مخالف جنگی سرداروں اور پشتون مخالف وزراء سے بھری پڑی ہے جبکہ افغان ایئر فورس اور ٹروپس نے گزشتہ چند ماہ میں طالبان کے بہانے مختلف علاقوں میں خواتین اور بچوں سمیت پشتونوں کو جتنی تعداد میں ہلاک کیا ہے اس پر یونیسیف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے احتجاج بھی کیا ہے۔

جہاں تک پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مداخلت کا تعلق ہے اس پر دو سے زائد آراء پائی جاتی ہیں تاہم المیہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم اور بعض دیگر ایران، امریکا،اور  بھارت جیسے ممالک  کے کردار اور پراکسیز پر مکمل خاموش ہیں جو کہ افغانستان کے موجودہ حالات کے یا تو براہ راست ذمہ دار ہیں یا اپنی جنگ افغان سرزمین پر لڑے آئے ہیں۔  ایسا کہتے وقت پی ٹی ایم کے رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہ افغان صدر اور دیگر نہ صرف ان کی گرفتاریوں پر بیانات جاری کرتے ہیں بلکہ ان کو ریاستی پروٹوکول سے بھی نوازا جاتا ہے اگر یہ مداخلت نہیں تو کیا ہے؟

 جہاں تک علی وزیر کی گرفتاری کا تعلق ہے ان کو وہ تمام آئینی اور قانونی حقوق ملنے چاہیے جو کہ بحیثیت ایک شہری اور ممبر پارلیمنٹ حاصل ہیں۔  تاہم کسی ادارے کو مورد الزام ٹہرانے سے قبل یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ علی وزیر کو سندھ حکومت کی ایف آئی آر پر گرفتار کیا گیا ہے جہاں پی پی کی حکومت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پشتون خصوصاً قبائلی عوام کو ریاست پاکستان کے ساتھ موجودہ بگڑتی علاقائی صورتحال میں تصادم سے بچا کر رکھا جائے اور اس ریاست بھی ترجیحی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket