Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

افغانستان کی بگڑتی صورتحال عالمی میڈیا اور پاکستان

افغانستان کی حالیہ صورتحال اور علاقائی قوتوں کی نئی صف بندی کی سرگرمیوں نے جہاں امن پسند حلقوں کو پیچیدہ مسائل سے دوچار کر دیا ہے وہاں پاکستان کی مشکلات اور عوام کے تحفظات کو بھی بڑھا دیا ہے۔  یہ بات سب کو معلوم تھی کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کی ناکامی کی صورت میں افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا تاہم اس بات کا اندازہ غالباً کسی کو نہیں تھا کہ طالبان اتنی جلدی پیش قدمی کر لیں گے اور افغان فورسز کی عملی مزاحمت برائے نام یا علامتی ثابت ہوگی۔  شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ دوسروں کے علاوہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کو بھی جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران یہ کہنا پڑا کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی پر ان کو بھی بہت حیرت ہو رہی ہے۔ امریکی اور برطانوی میڈیا نے 12 جولائی کو رپورٹ کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بیس برسوں کے دوران افغان فورسز پر جو اربوں کی سرمایہ کاری کی تھی وہ عام ہتھیاروں سے لیس طالبان جنگجوؤں کے سامنے وہ نتائج نہ دے سکی جس کی امریکہ کو توقع تھی۔  اگرچہ کابل سمیت دوسرے بڑے شہر افغان حکومت کے قبضے میں ہے اور معمولات زندگی پر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے تاہم کابل سے سفارتکاروں،  سرمایہ داروں اور تعلیم یافتہ حلقوں کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور ریکارڈ تعداد میں ہزاروں شہری پاسپورٹ آفسز کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔

بھارت نے قندھار میں اپنی کونسلیٹ بند کر دی ہے جبکہ متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نکل آئیں۔ طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ایک بیان پر ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو چند دنوں میں دوسروں کے علاوہ کابل پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں  تاہم فی الحال ایسا کرنا ان کی حکمت عملی میں شامل نہیں ہے۔  زلمی خلیل زاد بعض اہم ممالک کے دورے پر نکل پڑے ہیں جبکہ دوسری طرف چین، روس اور ایران کی مصالحتی کوششوں اور رابطہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم طالبان ذرائع نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ کابل حکومت کے ساتھ مصالحت کی اب ان کو نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی خواہش۔

پاکستان کا کردار بعض سیاسی حلقوں اور مخصوص تجزیہ کاروں کے برعکس طالبان کی پیش قدمی کے بعد خاموش نظر آ رہا ہے تاہم اس کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔  اس میں پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر پختونخواہ اور بلوچستان کے ان علاقوں کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جو کہ افغان سرحد کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تاکہ کشیدگی کی صورت میں ماضی والی صورت حال پیدا نہ ہو۔  اگرچہ طالبان رہنما اور ترجمان باربار کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم صورت حال میں کسی بھی وقت کوئی بھی ڈرامائی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔  اس لیے سینٹرل ایشین ریاستوں اور ایران کی طرح پاکستان بھی مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ پاکستان میں بلوچستان اور پختونخوا کی سرحدوں کی نگرانی اور سکیورٹی سخت کر دی ہے حالانکہ ماضی کے مقابلے میں تاحال افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقے طالبان کی یلغار سے محفوظ ہیں اور اب کی بار انہوں نے اپنی کاروائیوں کی شروعات شمالی  اور مرکزی افغانستان سے کی ہیں، پھر بھی پاکستان کے حکام بدلتی صورتحال کے پیش نظر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ماضی والی صورت حال پیدا نہیں ہو گی اگرچہ پاکستان افغان مہاجرین کی متوقع آمد کے بارے میں واضح کر چکا ہے کہ پہلے سے لاکھوں مہاجرین کی موجودگی اور سیکورٹی کے بعض تحفظات کے تناظر میں وہ مزید مہاجرین کو آنے نہیں دے گا تاہم یو این ایچ سی آر کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ وہ متعلقہ پاکستانی اداروں اور حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور خدشہ ہے کہ اگر کشیدگی اور جنگ میں اضافہ ہوا تو 5 سے 10 لاکھ تک مزید مہاجرین پاکستان آ سکتے ہیں۔  ان کے مطابق پاکستان اب کے بار ایسی صورتوں میں متوقع مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔

اگرچہ افغانستان کے موجودہ حالات غیر متوقع نہیں اور اس کی زیادہ ذمہ داری طالبان کے غیر لچکدار رویے اور امریکی افغان حکومتوں کی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔  اس کے باوجود پاکستان کے بعض سیاسی عناصر حقائق کا ادراک کئے بغیر اس کے باوجود پاکستان پر مبینہ مداخلت کے الزامات لگا رہے ہیں کہ عالمی میڈیا کے علاوہ امریکہ کے اندر امریکہ کی افغان پالیسی پر کھل کر ناقدانہ بحث جاری ہے۔  دوسری طرف بعض حلقے اس طرز عمل کو آگے بڑھا کر پاکستان کے میڈیا کو پرو طالبان کہہ کر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ طالبان مسلسل پیش قدمی کرتے آرہے ہیں۔ حالانکہ طالبان کی فتوحات کی زیادہ تر خبریں امریکی میڈیا ہی کے ذریعے سامنے آ رہی ہے۔  ایسی صورتحال میں بعض پاکستان حلقوں کا روایتی طرز عمل نہ صرف طالبان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے بلکہ ان سیاسی حلقوں اور پاکستانی میڈیا کے درمیان بداعتمادی کا بھی اس سے راستہ ہموار ہو سکتا ہے اس لئے احتیاط لازم ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket