Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

ٹی ٹی پی کے سربراہ کا قوم پرستانہ بیانیہ

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی مشہور زمانہ کتاب“انقلاب محسود” پر اگرچہ پابندی عائد ہے تاہم جن لوگوں نے اس کو پڑھا ہے ان کے لئے اس دستاویز میں چند ایسی غیر معمولی باتیں سامنے آئی ہیں جو کہ نہ صرف بہت دلچسپ ہیں بلکہ قابل بحث بھی ہیں۔ مفتی نورولی محسود سابقہ سربراہان کے برعکس جہاں دھیمے لہجے کےسمجھے جاتے ہیں وہاں نظریاتی طور پر اس کالعدم تنظیم کے اندر ہر دور میں بہت اہم شخصیت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں وہ مختلف گروپوں کے درمیان ایک پل اور مصالحت کا کردار ادا کرتے آئے ہیں اور ان کو ٹی ٹی پی کے علاوہ القاعدہ، داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
“انقلاب محسود” میں انہوں نے متعدد ابواب میں ٹی ٹی پی کو ایک مسلح اسلامی مزاحمتی تحریک کے علاوہ پشتونوں خصوصاً قبائل کی نمائندہ تحریک ثابت کرنے کی بہت شعوری کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق یہ تنظیم قبائلی مزاحمت کاروں کی ملکیت ہے اور اس کے قیام کے مقاصد میں ایک مضبوط اسلامی نظریے کی پیروی کے علاوہ پشتونوں بالخصوص قبائل کے ساتھ ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں اور امتیازی سلوک کا فیکٹر بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے حکمرانوں اور اداروں نے ہر دور میں پشتونوں کو ان کے حقوق اور اختیارات سے محروم رکھا، ان کو بد نام کیا اور ان کے وسائل کو لوٹا۔ نور محسود کی دلیل ہے کہ اسلام اور پشتون لازم و ملزوم ہیں اور اس خطے میں اسلام کا نفاذ پشتون قبائل ہی یقینی اور ممکن بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے متعدد ابواب میں اس قسم کے دلائل دیے ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ ٹی ٹی پی کی بنیاد نفاذ اسلام کے علاوہ پشتون قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوششوں اور عملی مزاحمت کے فلسفے پر قائم ہیں۔ بہت سی جگہوں پر وہ ایک ہارڈ کور اسلامسٹ سے زیادہ ایک سخت گیر قبائلی قوم پرست دکھائی دیتے ہیں۔
سن 1995-1996کے دوران جب قندھار سے افغان طالبان کی تحریک کا آغاز ہوا تو ابتدائی طور پر اس تحریک کا ایجنڈا جن نکات پر مشتمل تھا ان میں امن کے قیام اور جنگ سالاروں کی بیخ کنی کے علاوہ پشتون قوم پرستی کا عنصر اور نعرہ بھی شامل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس میں دوسروں کے علاوہ بائیں بازو کی بڑی پارٹیوں، پرچم اور خلق کے نہ صرف سینکڑوں کارکن بلکہ درجنوں اہم رہنما بھی شامل ہوئے اور انہوں نے قوت پکڑنے کے بعد لسانی بنیادوں پر ازبک تاجک اور ہزارہ قومیتوں کے سربراہوں کو بطور خاص نشانہ بنایا۔
بعد میں افغان طالبان کے القاعدہ، “ اخوان المسلمین” اور دیگر ایسی تنظیموں کے ساتھ رابطے قائم ہوئے اور صورتحال بدل گئی پھر بھی ان پر مختلف شکلوں میں لسانیت غالب رہی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ عالمی سطح پر پشتونوں کو طالبان یا ان کے حامی کا نام دیا گیا۔ یہی فیکٹر ہمیں “انقلاب محسود” میں پورے اہتمام اور شدت کے ساتھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان کے بعض معتبر حلقے قبائلی علاقوں سے اٹھنے والی ایک اور تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں کہتے آرہے ہیں کہ اس کے ٹی ٹی پی اور بعض دوسری قوتوں کے ساتھ رابطے اور ہمدردیاں ہیں اور بلاواسطہ طور پر پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے کے بیانیہ اور طریقہ کار کو سپورٹ کر رہی ہے اگرچہ پی ٹی ایم اسکو رد کرتی ہے تاہم زمینی حقائق کے تناظر میں یہ بیانیہ بہرحال اہم حلقوں میں موجود اور زیر بحث ہے ۔
کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ٹی ٹی پی نورولی محسود اور ان جیسے دوسرے ہم خیال لیڈروں کی قیادت میں قبائلی یا پشتون قوم پرستی کے تناظر میں کھل کر سامنے آجائیں گے؟ اس کا جواب فی الوقت ہاں میں ہے۔ کتاب “انقلاب محسود” میں جہاں ان تمام حملوں اور حملہ آوروں کے علاوہ تمام تنظیمی تفصیلات موجود ہیں جو کہ ٹی ٹی پی نے مخالفین پر کرائے ۔ وہاں نورولی محسود نے افغان طالبان سمیت دوسری مسلح گروپوں اور جہادی قوتوں کے ساتھ تعلقات کار پر بھی بحث کی ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے راقم کی دو کتابوں “طالبانائزیشن” اور “آپریشن ناتمام”کے تقریباً نصف درجن حوالے دے کر مختلف ایشوز پر نہ صرف یہ کہ تفصیلی جوابات دیے ہیں بلکہ ان کتابوں میں شامل بعض دلائل کے ساتھ مکمل اتفاق کر کے ٹی ٹی پی کے باز سخت گیر رویوں اور اقدامات کی وضاحتیں بھی کی ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ افغان طالبان کے مقابلے میں ٹی ٹی پی کا رویہ سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت تھا یا یہ کہ ٹی ٹی پی کے کمانڈروں اور حملہ آوروں کو سکولوں یا دوسرے عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔
ان کی تیاری کا یہ عالم رہا ہے کہ انہوں نے دونوں کتابوں کی جن معلومات پر جوابات دیے ہیں ان کے ابواب عنوانات اور صفحات تک کے حوالہ جات دیئے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر کوشش کی ہے کہ جہاد، عالمی طاقتوں کے کردار اور افغانستان سمیت خطے کے مخصوص حالات کے تناظر میں جواب دیے جائیں۔
اب کہا جا رہا ہے کہ نور ولی محسود ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے بعض گروپوں کو متحد کرنے کی کوششوں میں تیزی لے آئے ہیں اور ان کے رابطوں کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان طالبان اور بعض دیگر گروپوں کے بعض کمانڈروں کے بھی محسود کے ساتھ روابط کاری میں تیزی آ گئی ہے تاکہ افغانستان کے بدلتے حالات میں نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ اس تمام ممکنہ صورتحال میں پاکستان کے متعلقہ اداروں کو چوکس رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ بعض سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور افغانستان کی طرح معتدل مزاج پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا ایک اور تجربہ کرنا چاہیے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket