Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ تاریخی حقائق اور افغان بیانیہ

پاکستان اور افغانستان کے نارمل اور بہتر تعلقات کی راہ میں برسوں سے جو چند بڑے مسائل اور فاصلے رکاوٹ بنی ہوئی ہے ان میں ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ یا تنازعہ ہردور میں سرفہرست رہا ہے مختصر الفاظ میں اس کی تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اکثر افغان حکمران اور عوام ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان ایک قانونی اور مستقل سرحد یا حد بندی نہیں سمجھتے جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ ایک انٹرنیشنل بارڈر ہے اور اس کے ذریعے ڈیورنڈ معاہدے کے طے شدہ آفیسروں کے مطابق دونوں ممالک کی واضح حدبندی تقریباً ایک صدی قبل اس وقت کی گئی تھی جب پاکستان سرےسے وجود میں ہی نہیں آیا تھا ۔ افغانستان کے متعلقہ حلقوں کا موقف رہا ہے کہ برٹش راج نے کئی جنگوں کے بعد افغان حکمران امیر عبدالرحمن کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا جو معاہدہ کیا تھا وہ برابری اور باہمی رضامندی کی بجائے برطانیہ کے دباؤ اور افغانستان کی مجبوریوں کا نتیجہ تھا جبکہ پاکستان کے علاوہ برطانیہ کا بھی موقف ہے کہ مجبوریاں، مینڈیٹ اور اسباب جو بھی تھے طریقہ کار کے مطابق اس دستاویزی معاہدے پر نہ صرف یہ کہ افغان حکومت نے مرضی سے دستخط کیے تھے بلکہ بعد میں ایک اور ضمنی معاہدے کے دوران ایک نمائندہ افغان حکومت اور حکمران نے اس کی تائید اور تصدیق بھی کی۔ پاکستان کا یہ موقف بھی ہے کہ آزادی ہند کے دوران جو علاقے پاکستان میں شامل کیے گئے وہ برٹش راج کے زیر حکمرانی اور متحدہ ہندوستان کا حصہ تھے اس لیے افغانستان کے خدشات کے باوجود اب یہ علاقے قانونی، سیاسی اور بارڈرز قوانین کے تحت موجودہ پاکستان کا حصہ ہیں اور اسی تناظر میں ڈیورنڈ لائن ایک انٹرنیشنل بارڈر ہے۔

اب آتے ہیں ڈیورنڈ لائن کے مسئلے یا معاہدے کے تاریخی پس منظر کی طرف۔ 2430 کلو میٹر پر مشتمل ڈیورنڈ لائن یا پاک افغان سرحد 12 نومبر 1893 کے دن قائم ہوئی۔معاہدے پر برٹش انڈیا کے متعلقہ آفیسرموریٹمرڈیورنڈ اور افغان حکمران امیر عبدالرحمان نے دستخط کئے ہے اس معاہدے کے تحت نہ صرف تجارت، خارجہ پالیسی ،سبسڈی کے امور پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا بلکہ برٹش انڈیا اور افغانستان کی نئی حد بندی بھی کی گئی تاہم حد بندی کا مسئلہ مختلف افغان حلقے وقتا ًفوقتاً اٹھاتے رہے۔

اس معاہدے کو عملاً دوسری اینگلو افغان جنگ کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کے بعد 8 اگست 1919 کو تیسری اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں غازی امان اللہ کی زیر قیادت ایک اور معاہدے اور نئے شرائط کے تحت افغانستان کو محدود آزادی مل گئی اور اس آزادی کو ہر سال بڑے اہتمام کے ساتھ منایا بھی جاتا ہے ۔ اس سے قبل اور اس کے بعد معاہدہ گندمک اور معاہدہ راولپنڈی کے دوران جو شرائط طے پائی گئیں ان میں بھی ڈیورنڈ لائن کی حیثیت برقرار رکھ کر اس کی تائید کی گئی تھی ۔

معاہدہ گندمک (1879) کے دوران افغانستان، کوئٹہ، کرم، خیبر، ہرنائی، پشین اور سبی کے علاقوں سے بوجوہ برٹش راج کے حق میں دستبردار ہو گیا تھا تاہم ڈیورنڈ لائن معاہدےکے بعد افغانستان تقریباً آدھی پشتون آبادی سے بھی دستربردار ہوگیا تھا اور اسی کے نتیجے میں سال 1901 کو برطانیہ نے شمالی مغربی صوبہ سرحد کے نام سے نیا صوبہ قائم کیا۔ اس فیصلے کے خلاف وزیرستان اور بعض دیگر میں مخالفت ہوئی مگر افغانستان سے ڈیورنڈ معاہدے کے بعد کوئی مخالفانہ آواز یا مخالفت سامنے نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں رہائش پذیر بعض قوم پرست حلقے افغان عوام اور حکمرانوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے اس علاقے کو جان بوجھ کر خود سے الگ کرکے برٹش انڈیا کی تحویل میں دے دیا تھا ۔

12نومبر 1893 کو ڈیورنڈ لائن معاہدے کے ذریعے بلوچستان اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے بہت سے علاقے برٹش انڈیا کے زیر انتظام آگئے اور بعد میں برطانیہ نے ان علاقوں کو فاٹا، ایف آر اور دیگر مختلف انتظامی یونٹوں میں تقسیم کرکے بفرزون کے طور پر زار روس اور بعد میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا۔

تلخ حقیقت تو یہ ہیں کہ جب 1919 کو تیسری اینگلو افغان جنگ کے خاتمے پر غازی امان اللہ اور برطانیہ کے درمیان افغانستان کی محدود آزادی کے تاریخی معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے تو افغان حکمرانوں نے غیر اعلانیہ طور پر مخالفت کی بجائے ڈیورنڈ لائن معاہدے پر خاموشی اختیار کرلی۔

ممتاز بھارتی مصنف اور راء کے اہم ترین آفیسر آر کے یادیو نے اپنی کتاب “مشن راء” میں اس مسئلے کے بارے میں لکھا ہے کہ ڈیورنڈ معاہدے سے قبل برطانوی افسران میں افغان حکمرانوں اور سرداروں کو قیمتی تحائف اور نقد رقوم سے نوازا جس میں ایک قیمتی گھڑی بھی امیرعبدالرحمن کو معاہدے کے روز بطور تحفہ پیش کی گئی جس پر وہ دوران دستخط بہت خوش دکھائی دیے۔ ان کے مطابق افغان تین مسلسل جنگوں سے تنگ آگئے تھے اس لیے وہ اس صورت میں معاہدہ اور اپنا تحفظ چاہ رہے تھے اس لئے انہوں نے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے اہم ترین علاقے برٹش انڈیا کے حوالے کیے حالانکہ متعدد دوسرے علاقے بھی الگ یا تقسیم ہوئے ۔

آر کے یادیو کے مطابق اکثر افغانی اس معاہدے سے بوجوہ مطمئن اور خوش تھے تاہم جب دوسری جنگ عظیم کے بعد تقسیم ہند کا مرحلہ پیش آیا تو پاکستان کے بعض قوم پرست لیڈروں نے یہ مسئلہ اٹھایا اور آزاد پشتونستان کا مطالبہ بھی سامنے آیا تاہم ان دونوں نعروں کو افغانوں کی اکثریت کے علاوہ گاندھی جی کی زیرقیادت کانگرس نے بےوقت کی راگنی قرار دے کر اس کی حمایت نہیں کی ۔ پاکستان اور بھارت وجود میں آئے تو فارمولے کے مطابق یہ علاقے پاکستان میں شامل ہوئے افغانستان نے صرف یہ کیا کہ اس نے یہ کہہ کر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس کے بعض علاقوں پر اس کی دعویداری ہے۔ دوسری طرف متعدد بیانات اور تاریخی دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کے سابق صدر سردار داؤد خان جب اگست 1976 کو پاکستان کے دورے پر آئے تو ایک صحافی کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان تسلیم شدہ سرحدسمجھتے ہیں حالانکہ سردارداؤد اس سے قبل پشتونستان تحریک کے بڑے حامی رہے تھے۔

2017 کو سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ کبھی بھی ڈیورنڈ لائن انٹرنیشنل بارڈر تسلیم نہیں کریں گے۔ تاہم بعض قوم پرستوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ طالبان حکمران ملا عمر نے بھی نصیر اللہ بابر کے ساتھ ایک ملاقات میں ڈیورنڈ لائن پر بحث سے انہیں منع کیا تھا۔ حال ہی میں جب واشنگٹن میں امریکا کی نائب وزیر خارجہ برائے ساؤتھ سنٹرل ایشیا ایلس ویلز سےجب ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صاف بتا دیا کہ امریکہ اس کو انٹرنیشنل بارڈر سمجھتا ہے اور اسی حساب سے ڈیل کرتا ہے۔

چند برس قبل جب پاکستان نے اس طویل بارڈر پر باڑ لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا تو اشرف غنی کی حکومت نے چند کمزور بیانات کے بغیر عملاً اس کی کوئی مخالفت نہیں کی اور اب یہ منصوبہ تقریبا 70 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ ایک سیاسی اور عوامی دباؤ اور خواہش کے علاوہ عملاً موجودہ حالات میں کوئی سفارتی اہمیت نہیں رکھتا اور دونوں ممالک کی سرحدیں معلوم ہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket