PTI Chairman Imran Khan

عمران خان کی قلابازیاں اور جارحانہ عزائم

اے وسیم خٹک
نئی بننے والی حکومت کو سابقہ حکومت کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ اس کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما امپورٹڈ حکومت گردانتی ہے اور اس حکومت کو نامنظور کرتے ہوئے اُن کے رہنما اسے سازش اور مداخلت کی کارستانی بتاتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ چور حکومت کے ساتھ کسی تیسری قوت نے ملکر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے۔ جس میں ایک ملک امریکہ بھی شامل ہے ان کا موقف ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہو جس کو وہ ایک سفارتی خط کو بنیاد بنا کر واویلا مچاتے ہیں جس کی حقیقت ابھی تک آشکارا نہیں ہوئی۔ نئی حکومت بننے سے پہلے حالات اس نہج تک پہنچ گئے تھے کہ آئین کو توڑا گیا اور ارٹیکل چھ کو پاؤں تلے روندا گیا۔ تب حکومت کی مشینری کو حرکت میں آنا ہی پڑا۔ جب عدالت رات کو کھول دی گئی کیونکہ جو بساط بچھائی گئی تھی۔اس کا نتیجہ برا ہی نہیں بہت برا نکلنا تھا ۔ اور پھر وقت نے دیکھا کہ آئین کو توڑنے والے آئین شکن عناصر حکومت سے دور کردیئے گئےاور عمران خان سے کرسی چھن گئی۔ اُسی دن سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں خاص کر سابق وزیراعظم عمران کو بچھو کھا گیا اُس نے کرسی چھیننے کو اپنی ہتک اور انا کا مسئلہ بنا لیا اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کے ٹرینڈ چلانے شروع کردیئے۔ اپنے نوجوانوں کو احتجاج کی کال دینی شروع کردی ۔

ملک کو بلاک کرنے اور نوجوانوں کو اشتعال دلانے کے ساتھ ساتھ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو فعال بنا کر پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا جس میں اُس کے نشانے پر گیارہ سیاسی جماعتوں کے قائدین، نئی حکومت، امریکہ اور وہ ادارے آگئے جن سے ملک کی سالمیت قائم ہے۔ اپنی سوشل میڈیا ٹیم جو کہ 2013 کی نسبت اب بہت زیادہ فعال ہوگئی ہےکیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سوشل میڈیا کی طاقت کو جان لیا تھا اور عمران خان نوجوانوں کے نبض کو جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ نوجوان ہی وہ طبقہ ہے جس کو کنٹرول کرکے اپنا مقصد نکالا جاسکتا ہے اور نوجوان ہی پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ اس اسٹیک پر عمران خان نے کافی محنت کی اور آئی ٹی کی تربیت سمیت سوشل میڈیا کی تربیت دی گئی جس کے لئے کافی زیادہ رقم مختص کی گئی۔ آج اسی کو ہتھیار بنا کر پروپینگنڈہ کیا جارہا ہے اور ساتھ میں عوام کے پاس جاکر وہی پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں جو پہلے کی جاتی تھی۔

پاکستان سے نیا پاکستان تک کا سفر ختم ہوگیا اب عوام کو ایک نئے جھانسے میں ڈال کر آزاد پاکستان کا راگ الاپا جارہاہے کہ یہ حکومت غلام حکومت ہے کیونکہ یہ باہر کے امداد پر چلتا ہے اور اس کی ڈوریں باہر سے ہلائی جاتی ہیں۔ یہاں عمران خان وہی مذہب کارڈ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس کے سارے لیڈران بھی مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور غلط انٹرپریٹیشن کرکے توہین مذہب کے بھی مرتکب ہورہے ہیں مگر کوئی پوچھنےوالا نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو موجودہ وقت میں ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے جس کو بیرونی عناصر کی جانب سے خطرات لاحق ہیں وہاں سابقہ حکمران پارٹی کی جانب سے بھی خطرات ہیں کیونکہ جس انداز میں اداروں کےخلاف آواز اٹھائی جارہی ہے یہ آواز منظور پشتین بھی اٹھا رہا تھا جس کے خلاف کاروائیاں کی گئی اور ان کے رہنماؤں کو قید کیا گیا ۔ اب وہی کچھ عمران خان کر رہا ہے۔

جنرل افتخار کی جانب سے بار بار تنبیہ کی جاتی ہے کہ فوج کاسیاست سے کوئی لینا دینا نہیں مگر عمران خان کسی نہ کسی جلسے میں اشارے دے دیتا ہے جس کو ایک ان پڑھ بندہ بھی سمجھ جاتا ہے اور پھر ایک بری عادت کہ وہ اپنی بات سے مکر بھی جاتا ہے اور اس کے ورکرز عمران خان کی ہر بات کو من وعن تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔

جتنی نفرت اس ایک مہینے میں فوج کے خلاف پیدا کی گئی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اب جب آئینی طور پر وہ حکومت سے دور ہوگئے ہیں تو اب وہ اداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کو اندورنی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں ابھی حالات اس نہج پر نہیں کہ اسے امن سے تعبیر کیا جائے۔ گزشتہ دو مہینوں میں تحریک طالبان کی جانب سے حملے اس بات کی غماز ہیں کہ وہ قوتیں پھر سر ابھار رہی ہیں جن کی سرکوبی کی گئی تھی اور جن کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا تھا تو دوسری جانب ففتھ جنریشن وار کا بھی مقابلہ کیا جارہا ہے۔

اس سخت وقت میں جب عوام مہنگائی اور پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث سری لنکا کے حال کے نزدیک پہنچ گیا ہے “اب نکلو آزاد پاکستان کی خاطر” کے نعرے ملک کو کھوکھلا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آزادی مارچ سے کوئی اچھا رزلٹ نہیں نکلے گا۔ البتہ اس سے مزید بگاڑ آسکتا ہے کیونکہ جس آزادی کا نعرہ لگایا جارہا ہے اس کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں کہ اب خان کا مقابلہ حکومت یا امریکہ سے نہیں بلکہ خان کے نشانے پر کوئی اور ہے جو اس کے لئے شاید تابوت میں آخری کیل ثابت ہو۔

murree incident 2022

خوشی منانے کے طریقوں میں تبدیلی لائیں ورنہ حادثے پیش آسکتے ہیں

کچھ عرصہ پہلے ایک مضمون لکھا تھا کہ ہمیں تو خوشی منانا بھی نہیں آتا ۔ جس میں ہم اس موضوع کو زیر بحث لائے تھے کہ ہماری عوام خوشی منانا بھی نہیں جانتی ۔آج مری میں ہونے والے حادثات کے بعد پھر اس مضمون کو لکھنے کی نوبت پیش آئی ہے کہ عوام کو اس نفسیاتی بیماری سےنکالا جائے کہ برفباری دیکھنے ، ہوائی فائرنگ ، ون ویلینگ سے خوشی کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ بندہ خوش ہو تو ایسی حرکتیں کرے جس سے ان کی جان کو خطرات درپیش ہوں ۔ دیکھا جائے تو کوئی بھی تہوار ہو ہم لوگ پاگل ہوجاتے ہیں ۔ون ویلنگ ،ہوائی فائرنگ، سیر سپاٹے کے لئے جاکر وہاں ایسی حرکتیں کرنا کہ اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں اور یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے ۔جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے ۔شو آف کرنا بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے الگ نظر آنے کی کوششوں میں لگا ہوتا ہے اور پھر اپنی جان گنوا دیتا ہے جس پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ موسم گرما میں سیاحتی مقامات پر جانا اور لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہوجانا ،اوور سپیڈنگ کے باعث ٹریفک حادثات کا شکار ہونا یہ معمول کی باتیں ہیں ۔
موسم سرما میں برفباری کو انجوائے کرنا اب ہر پاکستانی کی خواہشات میں شامل ہوچکا ہے اور گھر کے بچوں کو اس بات پر ٹرخایا جاتا ہے کہ پڑھائی کریں تو برف باری کے لئے مری ،نتھیاگلی اور سوات لے کر جائیں گے اور بچے اس آس اور امید پر والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ چھٹیوں میں لے لازمی جایا جائے گا اور پھر برفباری شروع ہوتےہی لوگ جم غفیر کی شکل میں اُن علاقوں کا رُخ کردیتے ہیں ۔ جہاں وہ برف باری کو انجوائے کرتے ہیں ۔مگر جب سے سوشل میڈیا کو ترقی ملی ہے خاص کر ٹک ٹاک اور سنیک ویڈیو سمیت وٹس اپ سٹیٹس شروع ہوئے ہیں لوگ دیوانہ وار کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اور ہر خوشی کو انجوائے کرنے کے لئے دعوتوں کی ویٖڈیوز اور تصاویر شئیر کرتے ہیں ۔امسال جوں ہی برفباری شروع ہوئی لوگوں نے مری ،گلیات، کرم ایجنسی ، زیارت اور دیگر علاقوں کی جانب رخ کرنا شروع کردیا ۔ جہاں عام دنوں میں ہوٹلوں کے کرائے ہزار دو ہزار تھے وہ دس سے بیس ہزار کو پہنچ گئے اور لوگ پھر بھی باز آنے والے نہیں تھے ۔ انہوں نے اپنے خواہشات کو جلا بخشنے کے لئے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیئے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف مری کے لئے ایک لاکھ گاڑیاں گئیں تھیں ۔ جس میں اگر ایوریج بھی کرلیں تو ہر گاڑی میں پانچ بندے بھی کرلیں تو مجموعی طور پر پانچ لا کھ ہوجائیں گے یعنی پانچ لاکھ لوگوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالی تھیں جنہیں موت کا کوئی خوف نہیں تھا صرف برف باری اُن کے ذہنوں پر سوار تھی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔منفی تک درجہ حرارت گیا اور برف باری زیادہ ہونے لگی اور دو دنوں میں سات سے آٹھ فٹ تک برف پڑ گئی ۔جس سے لوگوں کو جان کے لالے پڑگئے ۔ٹریفک جام میں پھنسی ہوئیں گاڑیوں پر برفباری شروع ہوئیں اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر گیا ۔پٹرول کی کمی ہوگئیں ۔گاڑیوں کے ہیٹر آن کئے گئے اور یوں سیاح پریشانی کا شکار ہوگئے کیونکہ اگے گاڑیاں تو پیچھے بھی گاڑیاں تھیں ۔واپسی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔سب بری طرح پھنس گئے تھے اور اُس وقت کو کوس رہے تھے جب انہوں نے مری کی برف باری کے لئے منصوبہ بندی کی تھی ۔تب ویڈیوز شئیر ہوئیں اور وزیر داخلہ شیخ رشید سمیت دیگر سرکاری عہدیدران ٹی وی پر آئے اورعوام کو متنبہ کیا کہ اب مری اور گلیات کا رُخ نہ کریں اور پھر کچھ اندوہناک ویٖڈیوز سامنے آئیں جس میں ایک خاندان کے چھ افراد میاں ،بیوی اور چاربچے سمیت ایک گاڑی میں چار پختون دوست بھی سردی کی شدت برداشت نہ کرسکے اور اب تک اطلاعات کے مطابق بیس افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جس کے بعد پنجاب حکومت نے مری کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا اور علاقے کو فوج کے حوالے کرتے ہوئے اسلام آباد اور روالپنڈی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ اب اس میں غلطی ہمارے اپنے روئیوں کی ہے کہ ہم بارش اور برفباری کو انجوائے کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل جاتے ہیں جس کا خمیازہ ایسے حادثات کی شکل میں پھر بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں کیونکہ نفسیاتی قوم کے ساتھ ایسے حادثات پیش آتے رہتے ہیں اور وہ ایسے حادثات سے کوئی سبق نہیں لیتے بلکہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب قسمت کا لکھا ہےجو ہوگا دیکھا جائے گا ۔ مگر پھر بھی ہمیں خوشی منانے کے طریقوں کو بدلنا ہوگا ورنہ ایسے حادثات ہمارے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں ۔جس پر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔