swat ts

سوات میں بدامنی

تحریر شاہد خان

کل سوات میں بہت بڑا احتجاج ہوا جس کو نہ صرف پی ٹی ایم نے لیڈ کیا بلکہ وہ نعرے بھی لگائے گئے جو وزیرستان میں پی ٹی ایم لگاتی رہی ہے۔ اس مظاہرے کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کافی عرصے سے یہ تاثر دیا جارہا ہے گویا سوات پر دوبارہ ‘مسنگ پرسنز’ کا قبضہ ہوگیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد ‘مسنگ پرسنز’ کے قبضوں سے تمام علاقے چھڑا لیے گئے تھے۔ کچھ مارے گئے، زیادہ تر افغانستان بھاگ گئے لیکن کچھ عام لوگوں میں بھی گھل مل گئے تھے۔ جو گرفتار ہوئے ان کی بڑی تعداد کو عدالتوں نے چھوڑ دیا۔ ان کے مقامی سہولت کار اور ہمدرد بھی موجود رہے ہیں۔ اگر صرف وزیرستان کی بات کی جائے خود مقامی تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں کی ایک تہائی آبادی یا براہ راست ان تنظمیوں کا حصہ تھی یا ان کی ہمدرد ضرور تھی۔ یہ وجہ ہے کہ ضرب عضب کے بعد بھی سیکیورٹی فورسز پر وہاں مسلسل حملے ہورہے ہیں اور پاک فوج کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ ‘مسنگ پرسنز’ نہ وردیاں پہنتے ہیں نا انکی کوئی خاص شناخت ہے۔ اگر ہتھیاروں کے بغیر پھریں تو کوئی ان کو نہیں پہچان سکتا اور یہ مختلف علاقوں نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔ حتی کہ عام لوگوں کے بھیس میں افغانستان سے بھی آسکتےہیں۔ لیکن اس کے باؤجود سوات، تیراہ حتی کہ وزیرستان میں بھی کہیں ان کے کوئی جتھے نظر نہیں آئے ہیں نہ کوئی ایسا علاقہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ وہ ‘مسنگ پرسنز’ کے قبضے میں ہے۔ انکے اکا دکا لوگ ہی نظر آتے ہیں ورنہ غآئب رہتے ہیں۔ لیکن ان کے نام کی دہشت موجود ہے۔

جو مقامی سوات کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ان کےمطابق درحقیقت سوات میں اغواء برائے تاؤان کی وارداتیں بڑھی ہیں۔ اغواء کار مقامی جرائم پیشہ لوگ ہیں لیکن وہ نام ‘مسنگ پرسنز’ کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ انکی دہشت زیادہ ہے اور ان کا نام لینے کے بعد کوئی شخص پولیس کے پاس جانے کی جرات نہیں کرتا۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا آپریشن سے بچ جانے والے یا عدالتوں سے رہائیاں پانے والے ‘مسنگ پرسنز’ بھی کہیں نہ کہیں اپنی اکا دکا کاراوئیاں جاری رکھتے ہیں جیسے امن کمیٹی کے سربراہ ادریس کو انہوں نے سوات میں نشانہ بنایا۔ اس طرح کچھ ہفتے پہلے تین غیر مسلح اہلکاروں کا اغواء کیا جن میں ایک پولیس اور دوسرا آرمی آفیسر تھا۔ اس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر افواہوں نے مزید زور پکڑا کہ یہ لوگ واپس آگئے ہیں اور سوات میں سب یہی کر رہے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے سوات اور ملحقہ علاقوں میں ان کی تلاش کی۔ دو دہشتگردوں کو ہلاک بھی کیا۔ جس پر دوبارہ مقامی سرخوں نے احتجاج کیا کہ ‘ہمارے بےگناہ لوگ فورسز نے مار دیے ہیں اور ایسے آپریشنز نامنظور’۔ حالانکہ ہلاک ہونے والے شرپسندوں کے اپنے بیٹے کی اعترافی ویڈیو بھی آگئی ہے اور ان کے بارے میں پکی انٹلی جنس رپورٹ بھی تھی۔

تازہ ترین واقعہ میں ذاتی دشمنی کی بنا پر سکول بچوں کی وین چلانے والے ڈرائیور کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ایک بچے کو بھی گولی لگی۔ لیکن اس کو بھی ‘مسنگ پرسنز’ کا حملہ بنا کر پیش کیا گیا کہ جی بچوں پر حملہ تھا۔ بچوں پر حملہ ہوتا تو پوری وین نشانہ بنتی اور خدانخواستہ بہت سے بچے نشانہ بن جاتے۔ وزیرستان کی طرح یہاں بھی وین ڈرائیور کی لاش سڑک پر رکھ کر سڑک بند کی گئی جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں سوات کے لوگ نکل آئے۔ ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا جس کی قیادت پی ٹی ایم نے کی۔

پی ٹی آئی کی فوج مخالف مہم کے بعد مراد سعید نے بھی کئی دنوں سے جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ اس نے عوام کو افواج کے خلاف خوب اکسایا اور یہ تاثر دیا گویا سوات میں ان ‘مسنگ پرسنز’ کو فوج ہی لائی ہے۔ (اگروہ موجود ہیں تو) اس موصوف سے کوئی پوچھے کہ یہ منتخب ہونے کے بعد کتنی بار سوات گئے ہیں؟ سوات سول انتظامیہ کے پاس ہے اور کے پی کے میں ایک عشرے سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ فوج نے اپنی جانیں دے کر یہ علاقہ ‘مسنگ پرسنز’ سے چھڑا کر ان کے حوالے کیا تھا۔ انہوں نے امن برقرار رکھنے کے لیے وہاں کیا کیا؟ کل جو مظاہرہ ہوا اس میں لوگوں سے بات کرنے کے لیے کے پی کے حکومت کے کتنے نمائندے آئے؟

مراد سعید ‘مسنگ پرسنز’ کے ساتھ مزاکرات پر بھی تنقید کر رہا ہے اور بار بار مطالبہ کر رہا ہے کہ فوج اپنی پالیسی واضح کرے۔

عرض ہے کہ آپریشن کا سب سے بڑا مخالف اور مزاکرات کا حامی تو خود عمران خان ہے۔ کے پی میں عمران خان کی حکومت ہے۔ پالیسی وہ بنائیگی یا فوج؟ فوج کی پالیسی یہ ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائے جیسے بھی ممکن ہو۔

کے پی میں موجود پی ٹی آئی حکومت کی کیا پالیسی ہے؟ وہ یہ خاتمہ کیسے چاہتی ہے؟ بات چیت کے ذریعے یا آپریشن کے ذریعے؟ کھل کر اعلان کرے نا؟ وہ جیسا چاہے گی فوج یا ریاست ویسا ہی کرے گی۔ پی ٹی آئی حکومت آپریشن کا مطالبہ کرے تو آپریشن ہوگا اگر وہ بات چیت کے ذریعے یہ معاملات حل کرنا چاہتی ہے تو بات چیت ہوگی۔ لیکن اگر مقامی سطح پر جرائم پیشہ افراد اغواء برائے تاوان کر ررہے ہیں یا مقامی لوگ ایک دوسرے سے دشمنی کر رہے ہیں ان معاملات سے نمٹنا ان کا کام ہے۔ ویسے بھی ‘مسنگ پرسنز’ کے ساتھ مزاکرات کو لیڈ کرنے والا عمران خان اور کے پی حکومت کا معاؤن خصوصی بیرسٹر سیف ہے۔ کیا مراد سعید یہ بات نہیں جانتا؟

سوات میں سرخوں نے مظاہرے کو ھائی جیک کیا جس کے بعد وہاں بھی وزیرستان جیسے نعرے اور مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ یعنی ہم نہ آپریشن چاہتے ہیں، نہ تلاشی، نہ دوبارہ فوج کشی چاہتے ہیں، نہ کسی کو مارا جائے، لیکن ہمیں امن چاہئے۔ وزیرستان میں پی ٹی ایم کے یہ والے مطالبے سن کر ڈی سی نے سوال کیا تھا کہ پھر آپ بتائیں کہ ہم آپ کو امن کیسے دیں اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں کرنا؟ جس پر پی ٹی ایم کا جواب تھا کہ ‘ہمیں نہیں پتہ’

درحقیقت سوال انتظامیہ اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی نااہلی کو پی ٹی ایم اور خود پی ٹی آئی بھی فوج کے سر ڈال کر نہایت ڈھٹائی سے کیش کر رہی ہیں۔ وزیراعلی پی ٹی آئی کو ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے اور پولیس سمیت دیگر سول فورسز کو متحرک کرنا چاہئے۔ نیز جھوٹ اور افواہیں پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

UrduDesigner-1652285070715

اداروں پر بے جا تنقید کن کی خواہشات کی تکمیل ہے؟

تحریر: شاہد خان

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے عدم اعتماد کی تحریک پاکستان کے پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہے عدم اعتماد کی کامیابی کا انحصار پارلیمنٹ کے ممبران پر ہے جس میں کوئی ایم پی اے، بیوروکریٹ، فوجی اور سول آدمی اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا نا اس کا فائدہ رہتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا فوج یا کسی بھی سیکیورٹی ادارے نے اس میں اپنا کردار ادا کیا؟ 

جواب بڑا واضح ملتا ہے ۔۔۔ نہیں

عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور بنانے میں سیکیورٹی اداروں کا کسی بھی قسم کا کردار سامنے نہیں آیا ہے۔ فوج کے ترجمان نے واضح انداز میں کہا کہ ہم کسی بھی طرح سیاست میں مداخلت نہیں کرتے۔

اگر کسی کے پاس درج بالا صورت حال میں سیکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے یا کردار ادا کرنے کے حوالے سے ثبوت ہے تو پلیز سامنے لے آئے۔۔۔

پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے کچھ ممبر اور اتحادی تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب یہ الگ سی بحث ہے کہ ان کو نون لیگ نے خریدا, یا پیپلز پارٹی نے۔ 

نا تو صدر جو بائیڈن نے ان منحرف اراکین کو کال کی تھی نا ہی سی آئی اے نے۔ نہ تو موساد نے ان کو پیسے دئیے تھے نا ہی برطانوی ایجنسی نے۔۔۔

نا تو فوج نے کسی کو کہا کہ آپ اس تحریک کا حصہ بن جائے نا ہی سپاہ سالار نے ان اراکین کو دعوت دی۔ 

ان منحرف اراکین کو آپ لوٹے کہیں یا غدار۔ آپ کی مرضی ہے فوج نے آپ کو منع نہیں کیا کسی ادارے نے آپ کو ان کے خلاف کیس کرنے سے منع نہیں کیا نا ہی کسی صحافی کو کسی سیکیورٹی ادارے کی جانب سے کال گئی کہ ان منحرف اراکین کو دودھ کے دھلے ثابت کیے جائے۔  

جو کچھ بھی ہوا سیاست دانوں کے اپنے سیاسی معاملات رہے۔۔۔

سوال ہوتا ہے فوج نے سیکیورٹی اداروں نے اس معاملے میں پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی مدد کی؟ 

بڑا واضح جواب بنتا ہے۔۔ نہیں 

اگر آپ عمران خان سے یہ سوال کریں تو ان کا جواب بھی ” نہیں” میں ہوگا۔ 

اگر آپ کہتے ہیں کہ مدد کی ہے تو واضح ثبوت سامنے لایا جائے۔ کوئی بھی آپ کو نہیں روکے گا۔۔۔ 

امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے ایک مراسلہ لکھا جس میں انہوں نے امریکی دفتر خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کے اندرونی گفتگو کو دھمکی آمیز قرار دے کر پاکستان کو آگاہ کیا۔ 

سفارتی سطح پر اس کا جو جواب بنتا تھا پاکستان نے دے دیا۔ 

عمران خان بطور وزیر اعظم نہ رہے یہ امریکی خواہش ہوسکتی ہے مگر تحریک عدم اعتماد آئین کے مطابق ایک عمل تھی پارلیمنٹ کے لوگوں نے اس میں اپنا کردار ادا کرنا تھا پارلیمنٹ کے ممبران نے اس میں اپنا کردار ادا کرنا تھا اور انہوں نے کیا۔۔۔

بتایا جائے عدم اعتماد کی اس تحریک میں ہمارے اپنے ملک کے سفیر کا مراسلہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے ؟ اگر کوئی کردار ادا کیا ہے تو ثبوت سامنے لایا جائے۔۔۔

اگر فوج یا کسی بھی ادارے نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو ثبوت سامنے لایا جائے۔ 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اسمبلی تحلیل کرتا ہے پاکستان کے صدر اس کی توثیق کرتا ہے اسمبلی خالی ہو جاتی ہے جہاں سے ملک کے معاملات چلتے ہیں معطل رہتا ہے عدالت میں درخواست سیاسی جماعت جمع کرتی ہے بینچ بنا دیا جاتا ہے جج صاحبان سے سیاسی جماعتیں اس جلد فیصلہ صادر کرنے کی اپیل کرتی ہیں اور عدالت بغیر کسی چھٹی کے کام کرکے فیصلہ صادر کرتی ہے۔ 

نا تو آرمی چیف نے جج صاحبان کو کال کی کہ آپ حق میں یا ان کے خلاف فیصلہ صادر کریں اور نا ہی ڈی جی آئی ایس آئی نے چیف جسٹس کو بلایا کہ آپ نے عمران خان کے فیصلے کو مسترد کرنا ہے۔ 

سارا عمل سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کے درمیان رہا۔۔۔ نون لیگ کا اپنا وکیل تھا۔ فوج کا نہیں تھا۔ پارلمینٹ میں تحریک عدم اعتماد سیاسی جماعتوں نے جمع کروائی جس میں 86 اراکین پارلیمنٹ کے دستخط تھے۔ کسی بھی سیکیورٹی کے ادارے کے فرد کے نہیں۔۔۔۔ 

اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے کیس عدالت میں چلا ملٹری کورٹ میں نہیں۔ فیصلہ جج نے دیا فوجی نے نہیں۔ 

اگر سیکیورٹی اداروں کے اس پورے پراسس میں کسی بھی قسم کے عمل کی مداخلت کی کوئی بھی کسی بھی قسم کی واضح ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے۔ 

کیا فوج اور اداروں پر تنقید کرنے والے کسی بھی طرح کا ثبوت سامنے لاسکتے ہیں ؟ 

نہیں ۔۔۔ ہرگز نہیں ہے ان کے پاس۔۔۔ 

مگر۔۔۔ ان سب کے باوجود جنرل فیض اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلافات کی منگھڑت پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ فوج کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فوج پر سارا ملبہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سر عام ان کو ٹویٹس اور بیانات میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ 

زرا سوچیئے! آپ کن لوگوں کے خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے اداروں کو بلا وجہ بغیر کسی ثبوت کے نشانہ بنا رہے ہیں؟ 

زرا سوچیئے۔۔۔۔