ایک سو تیس سالہ پرانی ٹنل دریافت کون سے پہلوؤں کی نشاندہی کرتی ہے؟

حال ہی میں ایوبیہ نیشنل پارک میں جب شجر کاری کے لئے  کھدائی کی جارہی تھی تو اس دوران ایک ٹنل دریافت کی گئی جسے برطانوی دور حکومت میں ڈونگہ گلی اور مری تک کے شارٹ کٹ سفر کے لئے بنایا گیا تھا۔

۔ کھدائی کرنے والوں کا کہنا تھا کہ” جب ہم کھدائی کررہے تھے تو ہمیں 1891 کا نشان نظر آیا اور جب مزید کھدائی کی گئی تو یہ برطانوی دور حکومت کا شاہکار نظر آ یا۔”

یہ ٹنل 1891 میں برطانوی دور حکومت میں تعمیر کی گئی تھی لیکن بے توجہی اور کوڑا کرکٹ کے باعث کہیں دب گئ اور اسکا نام و نشان ہی مٹ گیا تھا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ایسی اور کتنی ٹنلز ہیں جو کوڑا کرکٹ کے اندر تاحال چھپی ہیں؟ جس وقت کوڑا کرکٹ پھینکا جارہا تھا اس وقت پارک انتظامیہ نے بے توجہی کیوں کی؟ لوگوں نے بھی اس بات کا خیال نہ کیا کہ ایک ٹنل کتنی مشکل سے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی جاتی ہے اور عوام کا ہی پیسہ ایسے ترقیاتی کاموں میں لگتاہے پھر کیا ہمیں اپنے پیسے پر بھی رحم نہیں آتا؟

جب کوڑا دان گلی کے نکڑ پر پڑا ہوتا ہے اور ہم کسی خالی پلاٹ پر کچرا پھینکنا پسند فرماتے ہیں پھرشکایت  کرتے ہیں کہ حکومت نےکیا ہی کیا ہے پھر ہم بھول جاتے ہیں کہ حکومت نے جو جگہ جگہ کوڑا دان رکھوائے ہیں وہ سجاوٹ کے لیے نہیں بلکہ کوڑاپھینکنے کے لیے ہیں۔

clean

آج اگر پاکستان کی گلی گلی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم پڑھی لکھی جاہل قوم ہیں ۔ میں نے کئی گاڑیوں سے گنڈیریوں اور مالٹے کے چھلکوں کو گرتے دیکھا ہے۔ میں نے کئی سکولز اور کالجز کی گاڑیوں میں بچوں کو بھُٹا کھا کر گراتے دیکھا ہے۔

میں بھی کبھی ان میں سے ایک تھی ایک بار فرسٹ ائیر میں، میں نے بھُٹا کھایا اور باہر گرانے لگی تو گاڑی میں ایک باجی تھی انکا نام مہوش تھا انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اوربھُٹے کا تُکا مجھ سے لیکر اپنے بیگ میں ڈال دیا اور کہا یہ ہمارا ملک ہے ہم اسے صاف نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔یہ الفاظ میرے ذہن پر ایسے چسپاں ہوئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے کوڑا کرکٹ کوڑےدان کے علاوہ کہیں نہیں گرایا۔ اور یہ کہتے ہوئے مجھے آج فخر محسوس ہورہا ہے کہ میں نے اس معاملے میں اپنے ملک کے ساتھ خیانت نہیں کی

تو پہلی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم کوڑے کو صحیح ٹھکانے لگائیں

 ہر مقام چاہے وہ پارک ہو ، ہسپتال ہو، تعلیمی ادارہ یا کوئی اور جگہ اسکی انتظامیہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس جگہ کی صفائی کا خیال کرے اور وہاں کوڑا کرکٹ پھیلانے والوں پر جرمانے عائد کرے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی صفائی کے اعلیٰ معیار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جرمانے عائد کرتے ہیں اگر کوئی کوڑا دان کے علاوہ کہیں اور کچرا گرائے۔

تیسری بڑی ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جو اس معاشرے کو جینا سکھاتے ہیں ، سب سے پہلے والدین، اساتذہ ، معلم ، لکھاری، براڈکاسٹر نیز ہر وہ شخص جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں یا انکی بات کو ترجیح دیتے ہیں ایسے لوگوں کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فالورز کو جینے کا ڈھنگ سکھائیں اور ذمہ دار شہری بنائیں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ آپ جب بھی باہر کوڑا گراتے ہونگے تو دل میں خلش ضرور اٹھتی ہوگی، ایک آواز ضرور آتی ہوگی کہ یہ غلط ہے

اب بس اس غلطی کو دوہرانا نہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے ایمان کے نصف حصے کا فرض ہی نبھا لیں

AWKUM ranked Top among Pakistani Universities

Abdul Wali Khan University Mardan (AWKUM), University of Khyber Pakhtunkhwa (KPK), ranked first among the Pakistani Universities according to the list issued by the Times Higher Education World University Ranking 2021.

World body examined seventeen Universities of Pakistan and AWKUM declared top in country and 510th at world level in terms of research and citation. Earlier, Quaid.e.Azam University, Islamabad was holding the first position in the ranking among the Universities of Pakistan.

On this Occasion, AWKUM Vice Chancellor Prof. Dr Zahoor-ul-Haq said that “It is an honor that the Univer¬sity has 300 PhDs, the largest numbers of doc-torate degree holders in the province.” He added that even in terms of funds allocated for research, the AWKUM remained on top in KP. He said that the winning of top position had encouraged the university’s faculty and administration. The AWKUM vice-chancellor asked the PhDs of the university to play a role in improving the quality of education.

AWKUM was established in April 2009, in Mardan KPK named after the great Pashtoon leader Abdul Wali Khan. The university started in an already-built postgraduate college of Mardan, has several campuses and more than ten thousand students enrolled in different disciplines.

Currently the university has six faculties and three constituent colleges. The faculties are Faculty of Arts & Humanities, Faculty of Chemical and Life Sciences, Faculty of Physical & Numerical Sciences, Faculty of Economics & Business, Faculty of Social Sciences, Faculty Agriculture.

It is the biggest higher education institute for the students of Swabi, Charsadda, Nowsehra, Mardan, Swat, Shangla, Buner, Dir, Chitral, Northern Punjab, Kohat, Southern parts of Khyber Pakhtunkhwa, and the extensive Tribal region along the boundaries of the Province.

The university has several campuses at different places in KPK offering different disciplines: Main Campus, Garden Campus, Pabbi Campus, Palosa Campus, Riffat Mahal Campus, Shankar Campus, Timergara Campus.

Each campus has digital library where students issue books with the digital machine which issues the books through library cards moreover there is an e-books support programmer that allows researchers to access most of the important text and reference books electronically in a variety of subject areas. Around 75,000 number of electronic content has been made available through the Digital Library Programme. It also helps researchers to access the international scholarly literature based on electronic (online) delivery, high quality, peer-reviewed journals, databases, articles and e-Books across a wide range of disciplines.

This kind of achievement motivates other Universities of Pakistan to involve and provide such environment to the students and scholars where they can do researches with facilities and can get more prominent names in researches to get the top ranks among the universities of world.

IGP KP online lecture on Erstwhile FATA merger and combating COVID-19

Inspector General of Police, Khyber Pakhtunkhwa (IGP -KP) Dr. Sanaullah Abbasi delivered an online lecture on the role of police in fight against Covid-19 and policing in the newly merged districts of Khyber Pakhtunkhwa. The online seminar was attended by entire faculty of Abdul Wali Khan University (AWKUM). Deans and few selected Chairpersons were invited to the conference room while majority of the faculty attended the lecture online due to COVID-19 SOPs.

Inspector General Sanaullah Abbasi highlighted the role of the Khyber Pakhtunkhwa Police in serving the people during Covid-19 pandemic, ensuring law and order and mainstreaming FATA, fight against terrorism and controlling other crimes in the province. “KP police has been in the line of fire since last two decades and is actively involved in helping people during these challenging times”, he further said.

He also talked about various other issues including implementation of standard operating procedures (SOPs) during coronavirus pandemic, actions against drug-traffickers, miscreants & terrorists and police development plans in the newly merged districts of Khyber Pakhtunkhwa. IGP answered numerous questions of faculty members after the lecture. Responding to a question of a participant regarding the viral video of police torture in Peshawar, IGP commented that abuse of power and physical torture by any officer and institution is condemnable and the police department will give exemplary punishment to officials involved in such incidents.

Vice Chancellor, AWKUM, Porf. Dr. Zahoorulhaq thanked IGP for visiting university and speaking to the faculty members on the role of police. He also highlighted the progress, achievements and various projects of the university. Porf. Dr. Zahoorulhaq further said that university is using all available resources to help the provincial government during this pandemic and has given its building and infrastructure for this purpose. The participants of the seminar thanked Vice Chancellor for arranging this seminar and paid tribute to the sacrifices of police officials of Khyber Pakhtunkhwa.

Such lectures and visits in universities by various heads of the departments should continue as it not only gives opportunity to young generation to interact with senior hierarchy of government but will also help in bridging the gap between young generation and government. Today IGP visit will leave a longterm impression on youths’ mind who stands more aware about various police efforts in the province and their overall sacrifices in ensuring peace in KP.

کورونہ اور قوت مدافعت

انسانی جسم کے اندر قدرت کی جانب سے قوت مدافعت کا ایسا نظام موجود ہے جو جسم میں پیدا ہونے والی ہر بیماری، وائرس اور انفیکشن کے خلاف لڑتا ہے۔
مدافعتی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
جسم غیر ملکی مادوں کو جسے اینٹیجن کہتے ہیں، مدافعتی نظام اینٹیجنوں کو پہچاننے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لئے کام کرتا ہے۔
قوت مدافعت انسان کے اندر خدا کی دی ہوئی نعمت ہے جس میں قدرتی طور پر ایسے بہت سے خلیات مل کر جسم کی حفاظت کے لئے کام کرتے ہیں۔
جیساکہ کچھ قسم کے سفید خون کے خلیے ، جسے فاگوکیٹس کہتے ہیں ، حملہ آور حیاتیات کو چبا دیتے ہیں۔ دوسرے ، جنھیں لیمفوسائٹس کہتے ہیں ، جسم کو حملہ آوروں کو یاد رکھنے اور ان کو تباہ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
اینٹی باڈیز کسے کہتے ہیں؟
اینٹی باڈیز جس کو امیونوگلوبلین بھی کہا جاتا ہے ۔ یعنی جسم جب ایک مخصوص بیماری کے خلاف خلیات پیدا کرتا ہے ۔ یہ پروٹین مخصوص اینٹیجن پر بند ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمارے جسم میں عام طور پر رہتے ہیں اگر ہمیں دوبارہ اسی جراثیم سے لڑنا پڑے تو یہ آسانی سے اس بیماری کا مقابلہ کرلیتے ہیں اسی وجہ سے چیچک جسکو ایک بار ہو جائے وہ عام طور پر دوبارہ بیمار نہیں ہوتا ہے۔
کورونہ کے بارے میں بھی اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جسکو ایک بار کورونا ہو جائے اسکے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہو جاتی ہیں اسلیے اسکو دوبارہ یہ بیماری عموماً نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
لیکن جن لوگوں کا قوت مدافعت کا نظام کمزور ہو انکا جسم قدرتی طور پر وہ خلیات پیدا نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مختلف اینٹی بائیوٹکس لینی پڑتی ہیں۔
لیکن ایسی بیماری کا کیا جائے جسکی دوا اب تک ایجاد نہیں ہوئی جیسا کہ کورونہ جو اب تک لاکھوں جانیں نگل چکا ہے۔
ایسی صورتحال میں ضرورت ہے کہ اپنے قوت مدافعت کے نظام کو مضبوط بنایا جائے
قدرت نے ایسی بہت سی کھانے کی چیزیں پیدا کی ہیں جن سے قوت مدافعت بحال ہو سکتا ہے۔
وٹامن سی اور قوت مدافعت
وٹامن سی سفید خون کے خلیوں کی پیداوار بھی بڑھاتا ہے اور مدفعتی نظام کو بھی مضبوط کرتا ہے جو جسم کو بیماریوں کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے ۔چونکہ آپ کا جسم نہ اسے پیدا کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرتا ہے ، لہٰذا آپ کو مسلسل صحت مند رہنے کے لئے روزانہ وٹامن سی کی ضرورت پڑتی ہے۔ زیادہ تر بالغ افراد کے لیے روزانہ تجویز کردہ رقم یہ ہے:
خواتین کے لئے 75 ملی گرام
مردوں کے لئے 90 ملی گرام
کھٹے میٹھے رسیلے پھل
جیسا کہ مالٹے، کینو ، سنترے، لیموں، سٹرابیری، کیوی اور انگور۔ ان پھلوں کو سٹرس فروٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ آم، پپیتا،انناس اور تربوز بھی اپنے اندر مطلوبہ مقدار میں وٹامن سی رکھتے ہیں جو کہ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔
وہ سبزیاں جن میں وٹامن سی وافر مقدار میں موجود ہے
آپ نے سنا ہوگا کہ زکام میں اگر چپلی کباب کھائیں جائیں تو زکام جلد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ چپلی کباب میں مرچ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ وٹامن سی سے بھرپور ہوتی ہے جو کہ آپ کے مدافعتی نظام کو فروغ دینے کے علاوہ ، آپ کی صحت مند جلد برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ مزید برآں اس میں بیٹا کیروٹین پایا جاتا ہے جسے آپ کا جسم وٹامن اے میں تبدیل کرتا ہے ، آپ کی آنکھوں اور جلد کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
سرخ مرچ، سبز مرچ اور شملہ مرچ کے علاوہ ٹماٹر، مٹر، میٹھے آلو، ساگ، سلاد کے پتے بند اور پھول گوبھی میں وٹامن سی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہرے پتے والی سبزیوں میں بھی وٹامن سی موجود ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک نہ ایک سبزی کو روزانہ خوراک میں شامل کرنا اپنے قوت مدافعت کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں ہے۔
کون سی چیزیں مدافعتی نظام کو بری طرح متاثر کرتی ہیں؟
خوراک کی بے احتیاطی کے علاوہ کچھ ایسی چیزیں اور عادات ہیں جو قوت مدافعت کو کمزور کرتی چلی جاتی ہیں۔
جیسا کہ بہت زیادہ آرام کرنا، جسم کو جام رکھنا، خوراک میں نکوٹین کا بے جا استعمال، ضرورت سے زیادہ ورزش اور نامکمل ڈائٹ، سورج کی مضر شعاعیں اسکے علاوہ ذہن پر پریشانی سوار کرنا یا اچانک غم کا عندیہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام پر برا اثر ڈالتا ہے۔
لہٰذہ ہمیں چاہیئے کہ احتیاطی تدابیر کے علاوہ ان مندرجہ بالا چیزوں کا بھی خیال رکھیں تاکہ ہم کرونہ سے بچ سکیں۔

جس نےخیبر پختونخوا آکریہ سب نہیں کھایا , وہ جمیآ ہی نہیں

آپ پاکستان کے کسی حصے میں بھی چلیں جائیں آپکو پنجاب میں کراچی بریانی، کراچی میں بلوچی سجی، بلوچستان میں لاہوری چھولے اور لاہور میں پشاوری چپلی کباب ضرور ملیں گے لیکن وہ ذائقہ بمشکل ہی مل پائے گا جو اس شہر یا علاقے میں کھانے کا مزہ ہے۔ پھر آپ چاہے اسی خصوصیت سے وہ ڈش اپنے علاقے میں تیار کرلیں وہ ذائقہ نہیں دیتی۔

جیسے ہم پشاوری جب پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں جاتے ہیں تو قہوہ کی پتی ساتھ لے کر جاتے ہیں تاکہ یہی ذائقہ دوسرے علاقے میں بھی مل سکے لیکن وہ ذائقہ کہاں۔۔۔۔

آج میں اپنے صوبے خیبر پختونخوا کی وہ تمام پکوان لکھنے جارہی ہوں جو آپکو پورے ملک یا باہر کی دنیا میں مل تو جائیں گے لیکن اس صوبے میں موجود ذائقہ بمشکل ہی مل پائے گا۔

تارو کباب/ چپلی کباب
چپلی کباب جسے صوبے کی روایتی خوراک بھی کہا جاتا ہے عام طور پر گائے یا بیل کے گوشت کے قیمے میں مخصوص مصالحہ جات ملا کر بنایا جاتا ہے اسکی خاص بات یہ ہے کہ اس میں گائے یا دنبے کی تازہ چربی یعنی لم کی چربی استعمال کی جاتی ہے۔

پشاور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ پر واقع نوشہرہ چھوٹے سے بازار میں چپلی کباب کی پانچ دوکانیں قریب قریب قائم ہیں جہاں دن رات لوگوں کا رش رہتا ہے۔

تاروجبہ میں واقع ایک کباب ہاؤس کے مالک نسیم گل نے بتایا کہ’ ہم روزانہ ایک یا دو بیل ذبح کرتے ہیں اور تقریباً چار من تک کباب فروخت ہوتے ہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ چپلی کباب اس صوبے کی پہچان بن چکاہیں اور اب یہ پاکستان کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ بیرونِ ممالک بھی جاتے ہیں جس میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک قابل ذکر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والے لوگ روزانہ چالیس سے پچاس کلو چپلی کباب ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

وہاں موجود روایتی چارپائیوں پہ بیٹھ کر تارو کے چپلی کباب کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

دم پخت
نواب آصف الدولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دم پخت کہتے ہیں۔ آج انہی کے ایجاد کردہ اس کھانے کے فن پر ہزاروں کی کمائی ٹکی ہوئی ہے۔
دن پخت کی خاصیت یہ ہے کہ نہ تو اس میں گھی ڈلتا ہے اور نہ ہی پانی بلکہ گوشت اپنی چکنائی اور بھاپ میں پکتا ہے.
دم پخت کی تیاری کچھ اسطرح سے کی جاتی ہے کی ایک پتیلے میں لاٹھ کی تہہ لگائی جاتی ہے اسکے اوپر گوشت کی بوٹیاں رکھی جاتی ہیں اور پھر ثابت سبز مرچیں، لہسن کی جوئیاں، ادرک، زیرہ اور حسبِ ضرورت نمک۔ اسکے علاوہ آلو بڑے سائز میں کٹے ہوئے ڈالے جاتے ہیں۔ ڈھکن بند کرنے کے لیے گوندا ہوا آٹا لگا دیا جاتا ہے تاکہ گوشت دم پخت ہو جائے۔۔۔
بڑا گوشت کم از کم تین گھنٹے اور دنبے کا گوشت دو گھنٹے آہستہ آنچ پر پکتا ہے اور اسے تندور کی تازہ روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔

پٹہ تکہ
پٹہ پشتو زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہی “چھپا ہوا”. جی ہاں چھپا ہوا تکہ۔ بالکل خیبرپختونخوا کے تکوں کی خاصیت یہ ہے کہ اسے دنبے کی چربی جو پتلی تہہ میں موجود ہوتی ہے اس میں تکوں کو لپیٹ کر تیار کیا جاتا ہے جو اسکے خاص ذائقہ کی وجہ بنتا ہے۔ یہ تکہ خاص طور پر قبائلی علاقوں کی ایجاد ہے لیکن مقامی سطح پر اسے ‘خشک تکہ’ بھی کہا جاتا ہے۔ اور پشاور کی مشہور نمک منڈی میں باآسانی مل جاتا ہے۔ یہاں تکوں کے لیے ایک خاص دکان انتہائی مشہور ہے اور اس کا نام بھی شہر کی دوسری پہچان بن گیا ہے۔

‘چرسی’ تکہ شاپ کے مالک نثار چرسی نے اس نام کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ ‘آج سے کوئی پچاس سال پہلے میرے والد نے یہ کام شروع کیا تھا اور انھیں لوگ چرسی کہتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ دکان چرسی کے تکوں کے نام سے مشہور ہوئی ۔

“اس میں نہ تو کوئی چرس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ خود چرس استعمال کرتے ہیں”.

نثار نے بتایا کہ ان تکوں کے لیے دنبے کا ایسے گوشت کا انتخاب کیا جاتا ہے جس پر چربی بہت زیادہ نہ ہو اور وہ گوشت نرم بھی ہو۔
ان کے ہاں آنے والے افراد عموماً فی کس ایک کلو گوشت کے تکے کھا جاتے ہیں جنھیں ہضم کرنے کے لیے پشاوری قہوہ کام آتا ہے۔

پشاوری قہوہ:
ایسی خوراک کھانے کے بعد اسکو ہضم کرنے کے لیے یہاں کے لوگ قہوہ سے مدد لیتے ہیں۔
لفظ قہوہ کا اصل مطلب شراب تھا، اور صوفی درویش اسے ذکرِالٰہی کرتے وقت توجہ مرکوز رکھنے اور روحانی سرور حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
گرین ٹی یا قہوہ پوری دنیا میں کثرت سے پیا جاتا ہے لیکن پشاور کا یہ روایتی مشروب ہے جسے مہمانوں کی آمد پر اور انکو پیش کیا جاتا ہے۔
اسکو خوبصورت چینکوں اور پیالیوں میں پیش کیا جاتا ہے۔جدید دور میں پیالیوں کی جگہ اب کپ نے لے لی ہے لیکن پشاور شہر میں جگہ جگہ قہوہ کی دکانوں میں اب بھی پیالیوں اور رنگ برنگی چینکیں نظر آتی ہیں جو اندرون شہر ڈیمانڈ پر ہر دکان تک پہنچائے جاتے ہیں۔

چوک یادگار قلفی:
نمک منڈی کے گوشت اور قہوے کے بعد کچھ ٹھنڈا کھانے کا دل کرے تو پشاور کی چوک یادگار کی قلفی ضرور کھائیے گا۔ جہاں پر واقع سڑک کے کنارے فالودے کی معروف دکان ہے۔
قلفی کو دودھ اور کھوئے سے تیار کیا جاتا ہے اور اسے پھیکی سفید سوئیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ پورے سال کے علاوہ رمضان میں افطاری کے بعد لوگ فیملی کیساتھ قلفی ، کھیر اور دیگر اجزاء سے تیار فالودہ کھانے کیلئے یہاں آتے ہیں اور یہ رش سحری تک لگا رہتا ہے ۔

اسکے علاوہ میوہ چنا پلاؤ پشاور سے، گوشت کڑاھی نمک منڈی سے، پیڑے مردان سے، بیف پلاؤ بنوں سے، غٹ اوریجے چارسدہ سےضرور کھائیں اور مجھے دعائیں دیں لیکن تھوڑا ہاتھ روک کے کیونکہ موٹاپے کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔۔۔۔

Khyber Pass - Khyber Pakhtunkhwa

Khyber Pakhtunkhwa – a land of historical mysteries

Khyber Pakhtunkhwa is full of historical places as the area has remained a bastion of ancient civilizations. It is said that Aryans were the first ones who invaded this place about four thousand years ago. Later on, the Persians invaded this area around 500 BC. After Persians, this area remained under Greeks, Mauryans, Huns, Guptas and then under Muslims. The province has diverse traditions, architect and culture as it has been part of many ancient kingdoms. In the recent history, Khyber Pakhtunkhwa has remained part of the Mughal dynasty and later on ruled by Britishers. All these civilizations have left their impression in Khyber Pakhtunkhwa through their traditional architect, some of which still remains to this date etched with ancient memories.

Khyber Pakhtunkhwa government has taken various initiatives to preserve these historical sites, however, young generation is generally unaware of these sites due to various reasons. The region has mostly remained neglected or no-go area due to terrorism. However, the situation has considerably improved in the province and Khyber Pakhtunkhwa government is taking various steps to attract tourists to historical destinations of Khyber Pakhtunkhwa. Some of the famous historical sites of Khyber Pakhtunkhwa are in tribal areas. Khyber district is one of the tribal districts which has numerous historical sites and can be an attractive tourists site.

Khyber Pass
Khyber Pass is a mountain pass in the northwest of Pakistan, on the border with Afghanistan. It connects the town of Landi Kotal to the Valley of Peshawar at Jamrud by traversing part of the Spin Ghar mountains. Khyber Pass was the route used by many invaders to conquer India, starting from Alexander, the Great to the Mughals and then Afghans. Throughout the history, it has remained an important trade route between Central Asia and the Indian subcontinent. Due to its geographical importance British government has made many military pickets to oversee the Pass. The Pass is still used for trade between Pakistan and Afghanistan.

Khyber Pass - Khyber Pakhtunkhwa

Khyber Rifle Mess
During the period of British rule, it was one of the eight “Frontier Corps” or paramilitary units recruited from the tribesmen of the North West Frontier, serving as auxiliaries for the regular British Indian Army. The Khyber Rifles were recruited from Afridi tribesmen with British commanders. The headquarters of the Khyber Rifles was at Landi Kotal. Its prime role was to guard the Khyber Pass. After independence the paramilitary force was absorbed in Pakistan forces. The Khyber Rifle Mess built by Britishers is a well-kept historical site which has many historical antiques of the past century. The Mess has been visited by various world famous leaders and personalities. The walls of Khyber Rifle Mess are adorned with photographs of these dignitaries which includes Queen Elizabeth of England, Princess Anne, the Shah of Iran, Margret Thatcher, Jaqueline Kennedy and Lady Diana. Among Pakistani dignitaries, starting from the founder of the nation Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah and Fatima Jinnah, perhaps every president and prime minister has been to this historic place.

Khyber Rifle Mess - Khyber Pakhtunkhwa

The Landi Kotal Cantonment has also a very strange but interesting tree which to this day remains in chains and bears a board “I AM UNDER ARREST”. In 1898, British army officer James Squid saw an old banyan tree lurch towards him. In a state of drunkenness, he ordered a soldier to arrest the tree immediately. To this day, it stands fettered and forlorn in the Landi Kotal army cantonment area which is a symbol of draconian British Frontier Crimes Regulation Laws.

Chained tree at Khyber Rifles mess - Khyber Pakhtunkhwa

Shagai Fort
Shagai Fort is the traditional guardian of the Khyber Pass. It is located 13 kilometers from Jamrud in Khyber Agency. It was built in 1927 by the British forces to oversee the Khyber Pass. The Fort is currently manned by Pakistani military and paramilitary troops serving as headquarters for the Khyber Rifles. The Fort is an attractive British Era structure and is worth visiting place.

Shagai Fort

Ali Masjid Fort
Khyber district has a historical mosque called “Ali Masjid” named in memory of Hazrat Ali (RA), the cousin of Prophet Muhammad (PBUH). Ali Masjid is the narrowest point of the Khyber Pass. In 1837 Afghan amir, Dōst Mohammad Khān built a fortress near the mosque called Ali Masjid Fort. However, it was destroyed and reconstructed numerous times in various historical battles. Ali Masjid has witnessed intense battles between the British and tribals both in the first Afghan war in 1842 and the second Afghan war in 1879. In the late 19th century, like other historical places, Ali Masjid fort was reconstructed by British government to oversee Khyber Pass.

Ali Masjid Fort

The fort is divided into an old colonial block and a newer block. There is also a hospital nearby, which is carved inside mountain. The top of the fort gives such a commanding view of the surrounds that in a conflict, it can become impossible for the opponents to evade unharmed from the area.

Tale of Train
The Khyber Railways was originally planned by the British in the late 19th century as a strategic project to counter suspected Russian invasion of the sub-continent via Afghanistan in the era of ‘The Great Game’. Queen Victoria’s government in a bid to fight it out in the barren lands of Afghanistan constructed this track. However, in 1907, both sides signed an agreement to remain restricted to their borders. The Khyber Railways was still commissioned as an efficient way of moving troops at short notice.

In 2010, Pakistan Railways began a feasibility study to rebuild the Khyber Pass railway and to possibly extend it further west to Jalalabad, Afghanistan. However, work has been stalled due to the security situation in Afghanistan. In 2016, the Afghan Ministry of Public Works began a survey of the railway line from the Pakistan border to Jalalabad. Afghanistan has also put forth proposals and requests to further extend the railway to Kabul. The efforts to revive the project shows that the railway track is still very significant and is maintaining its relevancy through the ages.

Khyber Railways - Khyber Pakhtunkhwa

The number of tourists visiting tribal districts has increased gradually since the restoration of peace in the region. Tourism has emerged as an important sector that can serve as an engine for mustering sustainable economic growth in the most underdeveloped areas of Pakistan i.e tribal districts.

While talking to one tourist Aleena Mahsud who has recently visited the area, claimed that “I did not believe that I will be able to witness such a crowd in the area, which was considered a no-go zone a year ago. KP government needs to take concrete steps to change perception of Tribal Districts to attract national and international tourists. This will not only project a softer image of KP but also help locals earn livelihood from tourism industry.

the poeple of Khyber Pakhtunkhwa and moon sighting issueخیبرپختونخوا کے لوگوں کے سامنے سوال رکھا کہ وہ مفتی منیب الرحمٰن کو مانتے ہیں یا شہاب الدین پوپلزئی کو؟ او

روزہ رکھنے اور عید کرنے کے معاملے میں مفتی منیب الرحمان کی سنیں یا مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی؟

خیبر پختونخوا کے لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔آئیے جانتے ہیں۔

میں نے خیبرپختونخوا کے لوگوں کے سامنے سوال رکھا کہ وہ مفتی منیب الرحمٰن کو مانتے ہیں یا شہاب الدین پوپلزئی کو اور اسکی وجہ کیا ہے؟

اس کا نتیجہ مختلف آراء اور نہایت دلچسپ جوابات جو کہ میں آپ کے پیش نظر کر رہی ہوں۔

پہلے تو وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مفتی منیب کو تو چاند کبھی نظر نہیں آتا۔۔ ہمارے علاقے جیسا کہ کرک، بنوں اور دیگر اضلاع کا ماحول صاف ہے ہمیں چاند نظر آ جاتا ہے لیکن وہ شہادتیں وصول نہیں کرتا۔۔۔پوری دنیا میں روزہ ہے ایک پاکستان میں ہی نہیں۔۔۔ سعودیہ عرب صرف دو گھنٹے ہم سے آگے ہے تو پھر روزہ کیوں 24 گھنٹے کے فرق سے رکھے ۔۔۔ آج پہلے روزے کی افطاری کے بعد ہمیں چاند نظر آیا۔۔۔ تو کل مفتی منیب کو دوربین میں نظر آنا چاہیے تھا۔۔۔۔ اور پوپلزئی غیر سیاسی بندہ ہے اور انکی کمیٹی 1884 میں بنائی گئی تھی یہی اعلان کرتے تھے اور آباؤ اجدد انہی کو مانتے ہیں انہیں تجربہ ہے جبکے مفتی منیب گورنمنٹ کا بندہ ہے ۔۔۔۔

کچھ اس قسم کے نظریات رکھنے والے خیبرپختونخوا کے لوگ شہاب الدین پوپلزئی کی پیروی کرتے ہیں انکے اعلان کے ساتھ روزہ رکھتے اور عید کرتے ہیں چاہے ڈھائی کروڑ کی آبادی کا فیصلہ چند شہادتوں پر کیا گیا ہو جن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ میں آسمان کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا اچانک مجھے چاند نظر آیا اور پھر غائب ہوگیا، چاند تھا یا مچھر جو آنکھوں کے سامنے اچانک غائب ہو گیا۔

اب آپ لوگوں کو لگے گا کہ لکھاری منیب الرحمٰن کی پیروی کرتے ہیں۔ نہیں ابھی انکو بھی ہم نے کٹہرے میں لانا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

اب باری آتی ہے ان لوگوں کی جو مفتی منیب کے فالورز ہیں انکے نظریات کچھ یہ ہیں کہ حاکم وقت چاہے جیسا بھی ہو اسکی اطاعت ہم پہ لازم ہے اور اس وقت پاکستانی ہونے کے ناطے ہم پر مفتی منیب الرحمان کی اطاعت لازم آتی ہے کیونکہ وہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس بارے میں وہ حدیث کا حوالہ دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ یہ جملہ بڑے فخر سے بولتے ہیں کہ اگر مفتی منیب غلط ہے تو پوپلزئی پارٹی عیدالاضحیٰ ہمارے ساتھ کیوں کرتی ہے۔۔۔ اسکے جواب میں پوپلزئی پارٹی کہتی ہے کہ عیدالاضحیٰ دراصل مفتی منیب ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔۔ پھر منیب پارٹی فرماتی ہے چھوٹی عید سعودیہ کے ساتھ کرتے ہو تو بڑی عید سعودیہ سے ایک دن بعد کیوں کرتے ہو ۔۔۔ میری عید میری مرضی۔۔۔ لاحاصل بحث ختم ہو جاتی ہے۔۔

منیب پارٹی سے ایک اور سوال میں نے کیا کہ چند سال پہلے مفتی منیب صاحب نے اعلان کیا تھا کہ چاند نظر نہیں آیا، اسی شام کو پاکستان کی ایک فلائٹ اتری اور اس میں موجود تمام لوگوں نے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد چاند دیکھا تھا، پھر ہنگامی سطح پر دوسرا اجلاس ہوا اور عید کی نوید سنا دی گئی۔۔ اسکے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اس نے اپنی غلطی ٹھیک کی، اب وہ ٹھیک ہے یا غلط گناہ اسکے سر پہ جائے گا ۔۔۔۔ شاہد اسی ڈر کی وجہ سے مفتی صاحب پاکستان کے چاروں صوبوں میں سے ایک صوبہ سے آئی ہوئی شہادتوں کو بر طرف رکھتے ہوئے ایک اور روزہ رکھوا لیتے ہیں تاکہ انکے کندھوں پر بیس کڑوڑ عوام کے روزہ کھانے کا گناہ نہ آئے۔۔۔۔۔

اگر میں انکی جگہ ہوتی تو اتنے بوجھ تلے شاہد میں بھی یہی فیصلہ کرتی کیونکہ مجھے لوگوں کے گناہ اپنے سر لینے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔

اب تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں مفتی منیب کے ساتھ اور عید پوپلزئی کے ساتھ کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اس صوبے میں رہتے ہوئے دونوں مفتیوں پہ گناہ کا بوجھ پھینک کر مزے کررہے ہیں۔۔۔۔ یہ بھی جرآت ازما کام ہے۔۔۔

چوتھی قسم خیبرپختونخوا میں ایسے لوگوں کی ہے جو ذہنی طور پر حاکم وقت یعنی مفتی منیب الرحمٰن کو ٹھیک سمجھتے ہیں لیکن اپنے علاقے کی مسجد میں رمضان کا اعلان ہوتے ہی روزہ رکھتے بھی ہیں اور عید بھی اسی حساب سے کرتے ہیں انکا کہنا ہے کہ اگر علاقے میں اعلان ہوجائے تو ہم پر روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے اور کانوں میں عید کا خطبہ سنائی دے تو روزہ بھی فاسق ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔

یہ سوال میں نے پچھلے سال محمد مفتی محمد اکمل سے پوچھا تھا کہ ہمارے علاقے میں عید کا اعلان ہو جاتا ہے اس صورت میں کیا کیا جائے، اس بار تو حالات یہ تھے کہ والد صاحب کی عید تھی اور والدہ کا روزہ۔۔۔

انکا جواب تھا کہ “پورے پاکستان کے ساتھ چلیں۔”

اب پانچویں قسم مجھ جیسے لوگوں کی ہے جنکو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا جائے۔ بییس سال سے زائد کا عرصہ پشاور میں گزارنے کے بعد ایک حتمی فیصلہ مجھے اور مجھ جیسے لوگوں کو کرنا چاہیے۔۔۔ جی ہاں، میں نے بھی میرا کی طرح +20 کہا۔۔۔ بھئی خاتون ہوں اپنی عمر کیوں بتاؤں میں۔۔۔

اب نظر ڈالتے ہیں سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے، اس رمضان کے چاند کی پیدائش جمعرات کی صبح سات بج کر چھبیس منٹ (7:26am) پر ہوئی۔ ماہر فلکیات کے مطابق چاند صرف اس وقت زمین پر دکھائی دیا جاسکتا ہے جب اسکی عمر ساڑھے انیس گھنٹے (19.5) سے زیادہ ہو جائے. اس اعتبار سے جمعرات کی شام چاند کی عمر صرف 12 گھنٹے تھی جو سائنسی اعتبار سے زمین پر نظر نہیں آسکتا۔

اب مجھے بھی یہ سجھ آگئی کہ مفتی منیب کو دوربین میں بھی چاند نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔۔

اور یہ بھی کہ باقی ممالک جو ہم سے کچھ گھنٹے پیچھے ہیں وہاں جب شام ہوئی تو اس وقت چاند اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ چکا تھا اسلئے نظر آگیا اور وہاں اعلان بھی ہوگیا۔
لیکن ہمارے لوگ سائنسی باتوں کے بارے میں پتہ ہے کیا کہتے ہیں “زہ مڑہ دہ سا گپ دے “

یہی وجہ ہے کہ اس مسلئے پر میں نے اسلامی نقطئہ نظر کو جانچنے کی کوشش کی اور چند مستند احادیث حوالہ جات کے ساتھ اکٹھی کی۔ تاکہ اس مسلئے کو اسلامی رو سے بھی دیکھا جائے…

اب کچھ مستند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں۔
ابو حریرہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے “جس نے میری اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللّٰہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ “۔
صحیح بخاری۔۔۔۔۔7144
صحیح مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔1835
ایک اور حدیث اسی حوالے سے

إسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشی کأن رأسہ زبیبۃ.(بخاری،رقم ۶۶۰۹)

 

”تم (اپنے حکمران کی بات) سنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے جیسا ہو”
اب سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت چاند دیکھنے کے معاملے میں امیر وقت کون ہے؟

پوپلزئی پارٹی کا یہ کہنا ہے کہ مسجد قاسم علی خان پاکستان بننے سے پہلے 1842سے قائم ہے اور اس وقت سے یہ رمضان اور عید کا اعلان کرتی ہے اسلئے ہم اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف وہ اس بات کو برطرف کر دیتے ہیں کہ اب پاکستان بن چکا ہے، 1842میں رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت تھی آج کے دور میں یہ ذمہ داری مفتی منیب الرحمان کو سونپ دی گئی ہے.

اب حاکم وقت کی اطاعت ہم پہ لازم آتی ہے ورنہ دو عیدیں دو رمضان کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔

اب سب “زہ مڑہ ” کہہ کہ سب باتیں بھلا دیں گے۔ اور میری اس ساری ریسرچ کو ریسٹ ان پیس (RIP) کر دیں گے۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔
اب اگر ہم سجھتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے تو ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا اور اگر قبول نہیں کرتے تو پھر واقعی ہم خود جی ہاں بذاتِ خود، اپنے آپ کو الگ قوم تسلیم کرتے ہیں اور پھر گلا کرتے ہیں کہ ہم پٹھانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔

Challenges faced by women politicians in KP

Pakistani society is male dominated, where women face numerous challenges to pursue a professional career in any field including politics. In order to ensure equal opportunity and due representation, government has allocated specific seats for women in lower and upper house of parliament. In Khyber Pakhtunkhwa (KP) Assembly, 26 seats out of 114 are reserved for women. Similarly, in other provinces, seats are reserve for women according to their population. Other than reserve seats, women are also allowed to contest election on general seats. However, due to patriarchal society, women face numerous challenges to contest elections on general seats.

If we take a look at current assembly of KP, all women MPAs are on reserve seats except one female politician Samar Bilour. She belongs to famous Bilour family and is the widow of Haroon Bilour, killed alongwith 25 others in a suicide attack while campaigning for Elections 2018. ANP fielded Samar Bilour to contest from PK-78, the provincial assembly seat, where her husband was planning to contest. Samar Bilour won the seat in by-elections. Overall, lack of women politician on general seats indicates that our society has not evolved fully to accept women as their political representative. In entire electoral history of KP, only three women i.e Samar Bilour (ANP), Naseem Wali Khan (ANP) and Ghazal Habib Tanoli (QWP) have managed to win a general seat. The political parties are also reluctant to allocate general seats to women due to rural voters’ preference for male contestants and Pashtun cultural barriers.

When asked on the issue, Samar Bilour said that, “My main challenge was getting a ticket and accepted as a serious contender in this Pashtun society, as the mantra was that no one will vote for a woman in Peshawar contesting from the general seat.”

In order to address the issue and force parties to award tickets to women on general seats, Elections Act of 2017 was introduced to make it mandatory for all political parties to set aside at least five per cent tickets of general seats for women. Despite government efforts, due to cultural barriers and various challenges, very less women opted for general election seats.

When a sitting PTI MPA Sumaira Shams was asked to comment on the issue, she said that “I got a ticket from my party but society over here did not let me contest as they pressurized my widow mother to talk me out from contesting on general seat or conduct election campaign. Numerous Jirgas came to our house and demoralized me that nobody will vote for woman and you should not run for election on general seat. Finally, I had to leave that ticket without contesting due to extreme social pressure.”

Shagufta Malik, an MPA of KP Assembly, highlighting another challenge, said that “For running elections campaign, one needs to be financially strong and independent. Due to financial issues and dependence on male counterpart, mostly women cannot contest. Even if a woman manage to contest on general seat, the people do not vote for her due to social and cultural reasons.”

Besides these challenges, women politicians are also ignored in cabinet where their male counterparts are generally preferred for coveted ministries and appointments. If we see the current provincial assembly of KP, there is no female minister in the cabinet nor any female MPA advisor. This shows that, political parties generally prefer male candidates either due to their election on general seat or cultural and social preferences. In both cases, women MPAs are at disadvantage and set to lose more.

MPA Sumaira Shams drawing our attention to another issue said that, “We female get very less chance and time to speak in assembly, male is more dominant and they take more time to speak, even Speaker Assembly isn’t able to divide the time equally among both gender’’, she added that “mostly male colleagues try to suppress us if we raise any question or give some suggestions regarding any bill under discussion”. The same attitude highlighted by MPA Sumaira Shams was on display for entire country during a heated discussion between MNA Khwaja Asif (PMLN) and MNA Shireen Mazari (PTI) on an issue where the latter was targeted for her appearance. There have been other various such incidents in national and provincial assemblies where women MPA were targeted due to their gender.

Despite these challenges, women have come a long way and have reclaim a considerable space within political sphere. However, conscious effort is required from government, political parties and society to allow women to claim their rightful place within country politics. Women should also step up to carve their space and must not be discouraged by the challenges at hand.