آُص

شہید کی نہیں بلکہ شہداء کی ماں: عندلیب آفتاب

تحریر: محمد عاصم صدیقی

ملک افراد اور اُن کی قربانیوں سے بنتا ہے۔ کچھ قربانیاں تو منظر عام پر آ جاتی ہیں لیکن ایسی ہزاروں قربانیاں، درد اور مشکلات لوگوں کی آنکھوں سے اُوجھل رہتی ہیں۔ پھولوں کا شہر پشاور جس کے سینے میں لاکھوں شہدا کا خون سینچا ہے اور ان میں سے چند ایسے شہید بھی ہیں جنہوں نے علم حاصل کرتے ہوئے جامہ شہدات نوش کیا۔ آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہر شخص کے لئے قیامت خیز منظر تھا لیکن ان قربانیوں کے درمیان ایک باہمت خاتون نے زندگی کے تلخ حقائق کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ یہ ہے عندلیب آفتاب کی کہانی جو کہ ایک شہید کی نہیں بلکہ ایک سو بائیس شہداء بچوں کی ماں ہیں۔
عندلیب آفتاب کا تعلق پشاور سے ہے اور آرمی پبلک سکول میں ایک معلمہ کی حشیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ سولہ دسمبر کے اندوہناک واقع میں عندلیب آفتاب نے اپنے فرزند حذیفہ کو شہادت کا درجہ حاصل کرتے دیکھا۔ ایک ماں کے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہی اپنی اولاد ہوتی ہے اور عندلیب آفتاب بھی حذیفہ پر جان چھرکتی تھیں۔ اُن کے لئے اپنے بیٹے کی آخری ملاقات بیان کرنا بھی نہ ختم ہونے والے درد جیسا تھا۔


سولہ دسمبر کے روز آرمی پبلک سکول میں سیکنڈ ائیر کے پیپرز ہو رہے تھے عندلیب آفتاب اپنی ڈیوٹی ختم کرکے باہر آئیں تو حذیفہ کو دیگر بچوں کے ہمراہ آڈیٹوریم کی جانب لے جایا جا رہا تھا۔ حذیفہ اپنی والدہ کی طرف دیکھ کرمسکرا دیا۔ تھوڑی دیر بعد حذیفہ اپنی والدہ ( عندلیب آفتاب) کے پاس آکر کھانے کے لئے کچھ پیسے مانگنے لگا۔ عندلیب آفتاب نے حذیفہ سے بات کی اور اُس کو آڈیٹوریم کی جانب راونہ کر دیا۔ یہ وہی لمحہ تھا کہ جب آڈیٹوریم میں دہشت گرد داخل ہوگئے۔ اور آج بھی عندلیب آفتاب کی یہ بات دل چیر کر رکھ دیتی ہے کہ “میں نہیں جانتی تھی کہ میں حذیفہ کو شہادت کے لئے خود تیار کر رہی ہوں ”
اس دل سوز واقع نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ پورے عالم نے سکول یونیفارم میں ملبوس بچوں کے جنازے اُٹھتے دیکھے ہیں۔ لیکن اس باہمت خاتون نے ہار نہیں مانی۔ شہدا کی اس ماں نے بھی کافی زخم سہے۔ اور اس اذیت کے بعد بھی بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سکول کھلتے ساتھ ہی بچوں کی آنکھیں نم تھیں کیونکہ اُن کے درمیان اُن کے ساتھی موجود نہیں تھے۔ لیکن اس باہمت خاتون نے یہ سکھایا کہ جانے والوں کا ہم پر کیا حق ہے۔ بے شک ہمیں اُن کے لئے دعا کرنی ہے اور اُن کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرنی ہے۔
عندلیب آفتاب اکثر کہا کرتی ہیں کہ اللہ نے ہم سے شہیدوں کی خدمت کا کام لے لیا اور بے شک یہ میرے رب کا وعدہ ہے کہ اُن شہیدوں کو لازمی سلام پیش کیا گیا ہوگا۔
اپنے لخت جگر کو سکول کی راہداریوں میں کھونا اور پھر اُنہی راہداریوں میں قوم کے مستقبل کو پڑھانا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن عندلیب آفتاب نے اپنے پیشے سے وفا کرتے ہوئے بچوں کو دوبارہ جینا سکھایا اُن کو علم سے محبت کرنا سکھایا۔ لیکن زندگی کی مشکلات کا سامنا اُن کے لئے ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول میں شدید زخمی ہونے کے بعد عندلیب آفتاب کو کینسر جیسے مرض کا سامنا کرنا پڑا۔ مشکلات کا یہ سفر اس باہمت خاتون کے لئے آسان نہیں تھا۔ لیکن پیغمبری پیشے سے منسلک اس خاتون نے کینسر جیسے موزی مرض کو بھی ایک طویل مدت میں شکست دے دی۔
لفظ ہمشہ کہانی بتانے اور درد بانٹنے کے لئے سازگار ثابت ہوتے ہیں لیکن اس کہانی کو ریکارڈ کرتے وقت اور تحریر کرتے وقت الفاظ نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ کہنے کو تو یہ صرف ایک سانحہ تھا جو ایک بھیانک خواب کی طرح آیا اور تلخ حقیقت بن کر گُزر گیا لیکن اس سانحہ نے لوگوں کی زندگی کو اُجاڑکر رکھ دیا۔ عندلیب آفتاب اور حذیفہ کو کیا پتہ تھا کہ وہ اللہ کے گھر حاظری کی تیار میں مصروف تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ معصوم حذیفہ کو کیا خبر تھی کہ وہ اللہ کے گھر کی زیارت نہیں بلکہ اللہ کی جنت کی زیارت کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ اور عندلیب آفتاب کو کیا خبر تھی کہ اس سانحہ کے بعد لوگ اُن کو شہداء کی ماں کا لقب دے دیں گے۔ نفرت کے خلاف اس جنگ میں عندلیب آفتاب آج بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور علم اور تعلیم کا پرچار کرکے پاکستانی قوم کے ہونہار بچوں کو تیار کر رہی ہیں تاکہ اس قوم کو پھر اس قسم کے سانحوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔