Wali Khan

!ہمارے یہ قوم پرست رہنما

تحریر: محمد عاصم علی جان

حیران رہ جاتا ہوں جب آج کل چیئرمین ماوٴ، لینن، سٹالن وغیرہ جیسے جمہوریت مخالف لوگوں کے نظریاتی اور سیاسی وارثوں اپنے مقامی قوم پرستوں کو جمہوریت پہ لیکچر دیتے دیکھتا ہوں بیچارے افغان کٹھ پتلی صدر اشرف غنی کی ڈولتی جمہوری کشتی میں سوار ہیں، دامے درمے سخنے اس پہلے سے ٹوٹی ہوئی کشتی کو بچانے کی نہ صرف اپنی سی ناکام کوشش کر رہے ہیں بلکہ افغان قبائلی معاشرے کے بنیادی رسم و رواج، تہذیب و ثقافت اور مذہبی اقدار سے بے پروا ہو کر اس مسلط کردہ نظام حکومت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر آ تے ہیں۔  یہ سیاسی یتیم دنیا کی وہ واحد مخلوق ہے جو ابھی تک ایک متروک سیاسی فلسفے کو اس امید پہ سینے سے لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید پھر سے بہار آ جائے، کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کے نظریاتی اکابر کے ہاں تو لفظ جمہوریت ہی کفر تھا وہ تو جدید دور کے ایسے سفاک آمر ہو گزرے ہیں کہ چنگیز و ہلاکو کی ارواح بھی پناہ مانگے لیکن حالات کا جبر دیکھیئے کہ اپنے ڈرائینگ رومز کو کارل مارکس اور چی گویرا کی تصاویر سے سجانے والے، اُن کے افکار اور سیاسی فلسفے کا دم بھرنے والے ہمارے یہ قوم پرست پاکستان جیسے ممالک میں جمہوریت میں ہی اپنی پناہ اس لئے ڈھونڈتے ہیں کہ ایک مذہبی معاشرے میں یہ لوگ اپنے افکار اور سیاسی سوچ  کا کھل کر اظہار نہیں کر سکتے سو سادہ لوح عوام کو جھوٹی سچی باتیں بتا کر اُن کا اعتماد حاصل کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں، ابھی تک یہ طبقہ کم از کم خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اسی طرح کی لسانی تقسیم کو ہوا دے کر ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہوتا رہا لیکن جیسے جیسے عوام باشعور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے یہ جماعتیں بھی سکڑتی جا رہی ہیں۔

میرا خیال تو یہی تھا کہ پاکستان کی سکڑتی ہوئی قوم پرست جماعتوں نے ماضی سے سیکھ لیا ہو گا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے اگر افغانستان کے حالات سے اپنے آپ کو الگ کر کے عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے پہ توجہ دیتے تو شاید آنے والے الیکشن میں کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے اور دھاندلی کا شور نہ مچاتے لیکن گزشتہ انتخابات میں اپنے آبائی علاقوں سے بوریا بستر گول ہونے کے باوجود بھی میں نہ مانوں والی اپنی ضد پہ اڑے ہیں، پتہ نہیں کہ افغانستان کی اندرونی سیاست میں ایسا کیا ہے جو ان لوگوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا یا شاید ہم جو ہندوستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا یہاں بھی وہی معاملہ کارفرما ہے کہ پاکستان میں رہنے، سیاست کرنے اور پوری مراعات لینے کے باوجود بھی یہ لوگ ابھی تک دل سے پاکستانی نہیں ہوئے لیکن پاکستان کی سالمیت پہ وار کرنے کے جو تیر ان کے ترکش میں تھے ماضی میں وہ سب آزمائے جا چکے سب سازشیں، سب تدبیریں، سب تمنائیں، سب امیدیں، وقتاً فوقتاً ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں حتی کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے یہ قوم پرست عناصر وقت کے ساتھ ساتھ خود اتنے کمزور ہوتے گئے کہ اب ان کو پارلیمان میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جیسے کہ فرمایا گیا ہے کہ ہر گروہ اور قوم کے لئے وقت مقرر ہے پاکستان کے وہ علاقے جہاں پہ کبھی ان قوم پرستوں کا طوطی بولتا تھا اب اُن کے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ پاکستان میں قوم پرست جماعتیں اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں اور صوبوں میں مذہبی اور وفاقی بنیادوں پہ سیاست کرنے والی جماعتیں تیزی سے اُن کی جگہ لے رہی ہیں۔

جدید دنیا میں جہاں کثیر النسلی اور ملٹی کلچرل سوسائٹیز کا تصور فروغ پا رہا ہے وہاں لسانی بنیاد پہ سیاست کرنے والی قوتیں اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں گو کہ یہ اپنی تئیں ایک نظریاتی سیاست کے امین ہیں (جس سے میرا اور آپ کا متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں) لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا نظریہ اور سیاست اتنی فرسودہ ہو چکی ہے کہ یہ نئی نسل کو اپنے طرف متوجہ کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اس پہ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کو اس نقصان کا ادراک بھی نہیں، ریت تیزی سے ان کی مٹھی سے پھسلتی جا رہی ہے لیکن یہ لوگ پاکستان کی بجائے افغانستان میں اپنے (نظریاتی سرمایے) کو بچانے کی فکر میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔

ہم نے تو دیکھا تھا کہ اپنے وقت میں سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریات سے متاثر اقوام اور ممالک اس حد تک دھن کے پکے تھے کہ جہاں پہ وہ برسراقتدار نہیں بھی تھے تب بھی سوویت قیادت میں صرف نظریے کی وجہ سے ہمیشہ ایک پیج پہ نظر آتے، ان سب کے دوست اور دشمن مشترک ہوتے لیکن پاکستان میں جہاں خالص چیزوں کا ملنا مشکل ہے وہاں اشتراکی نظریات سے متاثر ان لوگوں کی نظریاتی بنیاد بھی اتنی ہی ناخالص اور کھوکھلی ہے کہ ایک طرف افغانستان میں جن طالبان کی حکومت میں آنے کی یہ لوگ مخالفت کر رہے ہیں انہی طالبان کے اساتذہ کے ساتھ یہ لوگ پاکستان میں اتحاد بنائے بیٹھے ہیں، پاکستان میں سیاست کرتے ہیں، مراعات لیتے ہیں لیکن جب بات پاکستان اور افغانستان کی آتی ہے تو مجال ہے کہ ان لوگوں نے کبھی پاکستان کے لئے کلمہ خیر کہا ہو بلکہ الٹا ان کی نظر میں افغانستان کے سارے مسائل کا ذمہ دار پاکستان ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ لوگ اپنی سیاست سے یا تو مایوس یا اس حد تک بے پروا ہو چکے ہیں کہ نئے دور کے سیاسی میدان میں ناکامی اور اپنی سکڑتی ہوئی پونجی بچانے کے لئے ان کی طرف سے ماضی قریب میں کوئی ایک ایسی مخلصانہ کوشش بھی کم از کم میری نظر سے نہیں گزری جس سے لگے کہ قوم پرستوں نے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوئی سنجیدہ سعی کی ہو ایسی کوئی تگ و دو نہ کرنا شاید ایک طرح سے ان عناصر کی طرف سے اس حقیقت کا اعتراف بھی ہے کہ موجودہ پاکستان میں ہم اپنی اسی طرز سیاست کے ساتھ مزید سروائیو نہیں کر سکتے لیکن متبادل کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب یہ قوتیں ابھی تک دینے سے قاصر ہیں، بدقسمتی سے ان لوگوں کی سیاست اس حد تک بانجھ ہے کہ اپنی تمام تر (نظریاتی سیاست) میں یہ لوگ رہنمائی کے لئے نہ صرف سوویت یونین کو دیکھتے بلکہ سوویت عینک سے دنیا کو بھی دیکھتے رہے ہیں اب صرف تبدیلی اتنی سی ہوئی ہے کہ ماسکو کے بجائے واشنگٹن کو اپنا قبلہ بنا بیٹھے ہیں ان لوگوں کی مثال برگد کے اُس گھنے درخت کے نیچے اُگے ہوئے اُن چھوٹے چھوٹے پودوں کی سی ہے جن کی برگد کی وجہ سے نشونما نہیں ہو پاتی اور وہ بونے رہ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام تر نظریاتی سیاست کے شور و غوغا کے باوجود ان سب قوم پرستوں میں ایسی کوئی ایک بھی شخصیت نہیں ہے جو ان لوگوں کو ایسی کوئی  نئی سیاسی سوچ، نیا فلسفہ، یا نیا نظریہ دے سکے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہو ان کے مقابلے میں جو وفاقی یا مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں وہ سب کے سب اپنے نظریات رکھتے ہیں کوئی دائیں طرف تو کوئی ہلکے سے بائیں طرف کوئی مذہبی تو کوئی معتدل مزاج رکھنے والی سینٹر کی جماعتیں ہیں جن سے ہم اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن نہ تو ان میں کوئی نظریاتی انتشار ہے نہ ہی پاکستان کے حوالے سے ان کی کوئی دوسری رائے ہے اور نہ ہی وہ افغانستان کو پاکستان پر مقدم رکھتے ہیں۔

بہتر تو یہ ہوتا کہ ان سو سو سال کی تاریخ رکھنی والی جماعتوں کی آواز قومی سطح پہ اتنی توانا اور موثر ہوتی کہ افغانستان کی محبت میں کم از کم افغانستان کے حوالے سے کوئی پالیسی مرتب کرتے وقت ان لوگوں کے جذبات کا خیال رکھا جاتا لیکن کیا کرے جو لوگ اپنے گھر میں ہی اپنی وقعت کھو دیں تو باہر کے لوگ بھی منہ پھیر لیتے ہیں ۔ پھر بھی منافقت کی انتہا دیکھئیے کہ افغانستان کے معاملے میں بھی یہ لوگ نظریاتی تعصب کا شکار نظر آتے ہیں اگر ان کے دوست افغان سیکولر عناصر سوویت یونین یا امریکہ کی مدد سے برسراقتدار آتے ہیں تو ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن اگر کابل میں مذہبی افغان عناصر کی حکومت بنتی ہے تو ان لوگوں کی آنکھوں میں نہ صرف وہ حکومت کھٹکتی ہے بلکہ یہ اُس کا زمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ اب اگر حالات کا ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو افغانستان کے سیکولر عناصرکی پاکستان سے دشمنی اور ہندوستان سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں جبکہ پاکستان میں بھی یہی وہ سیکولر طبقہ ہے جو ہندوستان کے بارے بالکل افغان سیکولرز ہی کی طرح کے خیالات رکھتا ہیں گزشتہ بیس سالوں میں ان ہی لوگوں کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کے سرحدوں کے قریب انڈیا کے قونصل خانے پاکستان خاص کر بلوچستان میں حالات خراب کرنے کے لئے کھولے گئے تھے تو ان میں سے کسی نے بھی اس پر صدائے احتجاج بلند نہیں کی کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکا جائے بلکہ ان ہی علاقوں سے پاکستان میں حملے ہوتے رہے ہمارے لوگ شہید ہوتے رہے لیکن انسانی حقوق کے یہ چمپیئن خاموش رہے اب اگر ایک ایسے دشمن افغانستان کی جگہ جہاں سے پاکستان کو مسلسل مسائل کا سامنا ہو ایک پاکستان دوست حکومت بنتی ہے اور پاکستان اس کی حمایت نہ کرے تو پاکستان سے بڑا بیوقوف شاید ہی کوئی اور ملک ہو یہ موقع جب روس کو ملا اور کابل میں اپنی پسند کی حکومت بنائی تو پاکستان میں یہی قوم پرست پاکستانی سرحدوں پہ روس کے استقبال کے دن گننے لگے تھے یہی موقع جب امریکہ کو ملا تو یہی لوگ کابل جا جا کر امریکی کٹھ پتلی حامد کرزئی کی مہمانداری سے لطف اندوز ہوتے رہے اور تو اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی ڈھنکے کے چوٹ پہ حمایت بھی کرتے رہے۔ افغان حکومت اگر کلین شیوڈ ہوں تو ان کو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر داڑھی اور پگڑی والے افغان آ جائیں تو پھر نہ وہ افغان ہیں نہ ہی انسان۔

ہماری قوم پرست جماعتیں سو سال گزرنے کے باوجود بھی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائیں کہ پشتون معاشرے کی اکثریت انتہائی مذہب پرست ہے سو سال تک سیکولرازم کا چورن بیچنے کے باوجود بھی وہ ان قدامت پرست مذہبی لوگوں کو اپنے پسند کے قالب میں ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں جہاں تک عملی جدوجہد اور اپنے مقصد کے لئے قربانی دینے کی بات ہے تو اُس میدان میں بھی پشتون مذہبی لوگ ان نام نہاد سیکولر لوگوں سے کہیں آگے ہیں وہ یہ بات سوویت یونین کے خلاف جنگ میں ثابت کر چکے ہیں اور حال ہی میں امریکہ اور نیٹو کے خلاف بھی قربانیوں کی لازوال داستان رقم کرکے اُن کو پسپائی پہ مجبور کر چکے ہیں ان حالات میں اگر پاکستانی قوم پرست افغانستان کے معاملات میں مداخلت کر کے ایسے پرعزم مذہبی نظریاتی لوگوں کی مخالفت کریں گے یا اُن کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے تو شاید پاکستان کے یہ قوم پرست سیاستدان پھر قلعہ بند ہو کے صرف سوشل میڈیا پہ ہی اپنے فالورز سے جی بہلانے تک محدود ہو جائیں۔

Talibannn

طالبان اور مستحکم افغانستان

تحریر: محمد عاصم علی

مجھے اچھی طرح یاد ہے ابھی سابق امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سنھبالے کچھ ہی ہفتے ہوئے تھے کہ  افواج کے سربراہوں کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے موصوف نہایت متکبرانہ اور رعونت آمیز لہجے میں کہہ رہے تھے “امریکی افواج دنیا کی بہترین افواج ہیں مجھ سے پہلے جو لوگ وائٹ ہاؤس میں مقیم تھے وہ افغان جنگ کے بارے میں یکسو نہیں تھے لیکن اب ایسا نہیں ہو گا طالبان دہشتگرد ہیں اور اُن سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی یا وہ یا تو سرنڈر کریں یا امریکی غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں”۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی تاریخ میں ایک غیر روایتی صدر رہے ہیں بہت سے لوگ اُن کے اہم فیصلے اور بیانات ٹویٹر کے ذریعے جاری کرنے کی وجہ سے اُن کو امریکہ کا ٹویٹر صدر بھی کہتے رہے بہرحال شروع کے دنوں میں افغانستان کے بارے میں اُن کے عزائم سے یہی لگ رہا تھا کہ طالبان کے ساتھ جنگ میں مزید شدت آئیگی اور شاید اُن کا یہ دور افغان جنگ کا فیصلہ کن دور ثابت ہو لیکن Mother of all Bombs جیسے ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود بھی جب مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو اُن کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جس مہم کو وہ محض فوجی طاقت سے سر کرنا چاہتے تھے وہ ناممکن ہے امریکی جنرلز پہ برستے ہوئے اُن کو کہنا پڑا کہ “جب روس، انڈیا اور پاکستان وہاں پہ ہیں تو ہم جو ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے ہیں ہم وہاں کیا کر رہے ہیں امریکی جنرلز کو میں نے اربوں ڈالرز دئیے لیکن اس کا نتیجہ صفر نکلا” دوسرے الفاظ میں یہ طالبان کے خلاف نہ صرف اس مہم میں امریکی شکست کا باضابطہ اعتراف تھا بلکہ افغانستان پہ مسلط کی گئی کٹھ پتلی حکومت کو بھی آئینہ دکھایا گیا تھا۔

جہاں تک موجودہ امریکی انخلا کا تعلق ہے بہتر ہوتا کہ اس سے پہلے وہ افغان مسئلے کا کوئی قابل قبول تصفیہ کر جاتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا ہے جس کے بعد افغانستان میں ایک اور خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی انتخابات میں ہار پہ جہاں بہت سے لوگوں نے سکون کا سانس لیا وہاں یہ افغان طالبان کے لئے زیادہ اچھی خبر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ اپنے پیش روؤں کے برعکس صدر ٹرمپ دنیا میں مستحکم حکومتیں دیکھنا چاہتے تھے اپنے انتخابی مہم میں وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو لیبیا، عراق اور شام جیسے ممالک میں سیکولر حکومتیں گرا کے وہاں بنیاد پرستوں کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے لیکن افغان طالبان کے اثر و رسوخ اور عزم کو دیکھتے ہوئے وہ اس خیال کے حامی ہو چکے تھے۔

اگر افغانستان میں کوئی ایک گروپ مستحکم حکومت قائم کر سکتی ہے تو وہ طالبان ہی ہیں لہذا ان کو سہولتیں دیکر ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں اگر مناسب ضمانتیں لیکر کوئی مستحکم حکومت قائم ہو جاتی ہے تو سب کے فائدے میں ہو گی اسی لئے ان سے مزاکرات شروع کئے گئے اور کابل حکومت کے احتجاج اور خواہش کے باوجود اُن کو ان مزاکرات سے دور رکھا گیا جو واقفان حال ہیں ان کے مطابق طالبان کی حالیہ پیش قدمی پہ امریکی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ پس پردہ مزاکرات میں جو ڈیل ہوئی ہے اس کے مطابق امریکی انخلا کے بعد طالبان کے کابل اور پھر پورے افغانستان پہ قبضے کو زیادہ ایشو نہیں بنایا جائے گا لیکن اس معاملے میں طالبان سے جو ضمانتیں لی گئی ہیں شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ طالبان کا رویہ ماضی کے برعکس اپنے مفتوحہ علاقوں میں عوام اور سرنڈر کرنے والی افغان افواج کے ساتھ  نہایت دوستانہ ہے ایسا کر کے طالبان نہ صرف اس معاہدے کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ دکھا رہے ہیں بلکہ با الفاظ دگر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پابندی کی جائے تو افغانستان میں القاعدہ اور دیگر تنظیموں کے حوالے سے کئے گئے معاہدوں پہ بھی عالمی برادری کے اطمینان کے مطابق من و عن عمل کیا جائے گا۔ یہ تحریک طالبان کی سوچ اور اپروچ میں ایک مثبت تبدیلی کا اشارہ اور بین الاقوامی برادری کے لئے بھی اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی خواہش کا اظہار ہے۔

امریکی انخلا کے فیصلے کے بعد اشرف غنی کی حکومت ابھی تک سکتے کی عالم میں ہے طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور اپنی افواج کی ناکامی پہ بوکھلاہٹ کے شکار افغان صدر نے ملک کے وزیر دفاع اور فوجی سربراہ کو بھی تبدیل کر دیا ہے اپنے حالیہ امریکی دورے میں موصوف نے مختلف سینیٹرز، اعلی فوجی حکام اور امریکی صدر سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اشرف غنی صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ “وہ امریکہ سے محض فوجی شراکت داری نہیں بلکہ باہمی مفادات کے نئے باب میں داخل ہو رہے ہیں” پتہ نہیں اب فوجی شراکت داری اور باہمی مفادات کی یہ معصومانہ سی خواہش کرتے وقت جناب صدر کے پیش نظر عجلت میں کیا گیا امریکی انخلا کا فیصلہ کیوں نہیں تھا، کیا اُن کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ امریکہ اب اس جنگ سے اکتا چکا ہے یا صدر صاحب اور اُن کی حکومت ابھی تک افغانستان کے حوالے سے خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئی؟

بہتر تو یہ ہوتا کہ جب امریکیوں نے طالبان سے مزاکرات کے دوران اُن کی حکومت کو درخور اعتناء نہیں سمجھا تو وہ باعزت طریقے سے مستعفی ہو جاتے شاید اس طرح تاریخ میں یاد رکھے جاتے کہ اصولوں پہ سمجھوتہ نہیں کیا لیکن شاید قدرت کو جناب صدر صاحب کے بارے میں کچھ اور ہی منظور ہو ویسے تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی کے افغان صدور کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا اللہ نہ کرے کہ اشرف غنی صاحب بھی ویسی کسی صورتحال سے دوچار ہوں بہرحال امریکی صدر جوبائیڈن نے نہایت Polite طریقے افغان صدر کی اس خواہش کو رد کر کے معاشی اور فوجی مدد کا (وعدہ) کر کے افغان قیادت کو اپنے مسائل خود حل کرنے پر زور دیا۔

افغان حکومت شاید فوجی مدد والے رسمی وعدے پر ہی خوش ہو لیکن ابھی کچھ دن پہلے سینٹکام کے کمانڈر جنرل میکنزی نے ایک انٹرویو میں پوری بات الم نشرح کر دی تھی کہ امریکی فوج انخلا کے بعد افغان فوج کی کوئی مدد نہیں کرے گی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کاغذی معاہدے کے علاوہ کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ امریکی حکومت شاید کابل انتظامیہ کی نکمے پن سے اس حد تنگ آ چکی ہے کہ اپنے اعلان کردہ گیارہ ستمبر کے انخلا کی تاریخ سے بھی پہلے افغانستان سے نکل جائے اور جنرل میکنزی کی افغان فوج کی مدد نہ کرنے کی بات شاید طالبان کے لئے اشارہ ہے کہ ہمارے جانے کے بعد کابل حکومت کے ساتھ جو چاہو کرو۔
امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ اپنا نظام جمہوریت اور نظام حکومت دنیا کے دوسرے قدرے کمزور ممالک پہ بزور مسلط کرنا چاہتے ہیں حالانکہ مغربی طرز جمہوریت مغرب میں تو کامیاب ہو سکتی ہے لیکن دنیا کے دیگر خطوں میں ایسا بالکل بھی نہیں کیونکہ ہر قوم اور ملک کے لوگوں کا اپنا مزاج، معاشرہ، رہن سہن، طور طریقے، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت اور سب سے بڑھ کر مذہب اور پھر مذہب سے وابستگی ایسے عوامل ہیں کہ جن کو  نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اب افغانستان کے قدامت پرست اور قبائلی معاشرے میں جمہوریت پہ لکچر دینا بھلا تو لگے گا لیکن جب تک اس ںظام کے لئے رائے عامہ ہموار نہیں کی جاتی تب تک یہ خواب رہے گا، گزشتہ بیس سال میں کی گئی امریکی کوشش کے نتیجے میں ایک چھوٹا سا ایسا جمہوریت پسند گروپ تو وجود میں آ چکا ہے لیکن اس کی جمہوریت پسندی اس حد تک کھوکھلی ہے کہ اس کا تلخ تجربہ گزشتہ بیس سال سے افغان عوام بھگت رہی ہے۔

ایک ایسا ملک جو چار دہائیوں سے جنگ کا شکار ہو جہاں پہ لاقانونیت کا راج ہو جہاں گھر گھر خطرناک آتشیں اسلحے کے ڈھیر لگے ہوں، علاقے مختلف وار لارڈز میں تقسیم ہوں معذرت کے ساتھ لیکن ایسے معاشرے اور قوم کو پہلے ایک قانون اور ضابطے کے تحت لانا ہو گا جو جمہوری رویوں سے ممکن نہیں اس حوالے سے موجودہ نظام حکومت کی بیس سالہ کاکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو مایوسی کے علاوہ اس میں کچھ نہیں ملے گا بلکہ ان لوگوں کی موجودگی میں افغان معاشرے میں لاقانونیت اور افراتفری میں اضافہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ افغان عوام کے سامنے اس جمہوریت کے جو فضائل بیان کئے گئے تھے اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔  افغان مسئلے کا حل افغانستان میں ایک ایسے مضبوط حکومت کے قیام ہی سے ممکن ہے جو سختی سے قانون کی عملداری یقینی بنائے جبکہ بین الاقوامی برادری بھی اب یہ جان چکی ہے کہ اس رستے زخم کا علاج صرف طالبان ہی کے پاس ہے۔

جدید دنیا میں لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے چین میں ون پارٹی رول ہے، رشیا میں جمہوریت کے نام پہ پوٹن کا تماشہ ہے، عرب ممالک میں آمرانہ بادشاہتیں قائم ہیں، سنٹرل ایشیا کے ممالک میں صدارتی جمہوریت کے نام پہ عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے، شمالی کوریا میں کم جانگ ان کی فرعونیت ہے، ترکی میں جمہوریت کے نام پہ صدارتی آمریت، ایران میں قدامت پسندوں کی آمریت نما جمہوریت جبکہ پاکستان میں جمہوریت کا حال ہم سب کے سامنے ہے اب جب ایک طرف دنیا ان سب ممالک میں ایسی حکومتیں برداشت کر رہی ہے جو ان کے معیار کے طرز جمہوریت پہ پوری نہیں اترتی اور دوسری طرف افغانستان کے استحکام کے لئے طالبان کے علاوہ باقی سب تجربے بھی ناکام ہو چکے ہیں تو اس قبائلی معاشرے کو ایک قانون اور ضابطے کا پابند کرنے کے لئے نئے دور کے نئے طالبان کو آزمانے میں آخرحرج ہی کیا ہے؟