TTPPP

کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ،افغان طالبان کا کردار

تحریر حیات اللہ محسود

 15اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستانی حکام نے مطلوب ترین شدت پسندوں کی ایک فہرست طالبان قیادت کے حوالے کی اور ان کو  پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے اس مطالبے پر طالبان قیادت کی طرف سے ایک تجویز دی گئی کہ پاکستانی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ دیگر گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ مذاکرات میں افغان طالبان نے ثالث کا کردار ادا کرنے کی تجویز بھی دی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے پاکستان حکومت نے باقاعدہ طور پر مذاکرات کا عمل شروع کر دیا اور افغان طالبان کو مذاکرات کے عمل میں ثالث کے کردار ادا کرنےپر اتفاق کیا ۔اب تک مذاکرات کے عمل میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی  اور زرائع کے مطابق اس حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان کئی نشستیں ہوئی اور بالاخر حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے گزشتہ دنوں باقاعدہ طور پر اس بات کی تصدیق کی گئی  ۔

وفاقی وزیر  فواد چوہدری نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات قانون اور آئین کے دائرے میں ہوںگے  اورحکومت کسی کے ساتھ بھی دائمی جنگ نہیں چاہتی ہے ۔اس جنگ میں سب سے ذیادہ زخم پاک آرمی نے کھائے اور قبائلی عوام کو بھی اس جنگ کی وجہ سے کافی نقصان کا سامنا رہا ۔مذاکرات کے عمل میں مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا ہے

جبکہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان خراسانی نے بھی گزشتہ دنوں  نامعلوم مقام سے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان چونکہ پاکستانی قوم سے ہی بنی ایک اسلامی جہادی تحریک ہے، اس لیئے وہ ہمیشہ دیگر اہم مسائل کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھتی ہے ـ یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسکا انکار نہیں کرسکتی، لہذا تحریک طالبان پاکستان ایسے مذاکرات کیلئے تیار ہے جس سے ملک بھر میں دیرپا امن قائم ہوسکے اور ہمارے پاکستانیوں کو ایک طرف امن کی بہاریں میسر ہوں اور دوسری طرف پاکستان کے حصول کا مقصد بھی حاصل ہوسکے  ۔اعلامیہ میں انھوں نے مذاکرات کے نکات کو بھی واضح کیا تھا جس میں انھوں نے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے ایک ماہ کے لیے فائربندی کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور ضرورت پڑھنے پر فائربندی کے عمل کو مزید بڑھانے کا اعلان بھی کیا ۔خراسانی کے مطابق مذاکرات میں امارت اسلامی افغانستان ثالث کا کر دادر ادا کررہا ہے ۔

جبکہ دوسری جانب پاکستان پیلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹوں زرداری نے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ہم ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیسے کر سکتے ہے جنہوں نے ہمارے آرمی کے جوانوں اور بچوں کو شہید کیا اور ہمارے عوامی لیڈر کو شہید کیا ۔بلاول بھٹو کی اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل سے ناخوش ہیں کیونکہ انکی والدہ پیپلز پارٹی کی چیرمین بے نظیر بھٹو پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

 بے نظیر قتل کیس کاذکر  باقاعدہ طور پر کالعدم تحریک طالبان کے امیر مفتی نورولی نے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا جس میں حملے کی منصوبہ بندی سمیت حملے میں ملوث اہلکاروں کے ناموں کا ذکر بھی کیا تھا ۔شاید یہی وجہ ہو کہ بلاول بھٹو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حامی نہ ہوں  ۔مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت نے بھی اور کالعدم تحریک طالبان نے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ کالعدم تحریک طالبان کے امیر مفتی نور ولی نے باقاعدہ طور پر اپنے جنگجووں کو فائربندی کا حکم نامہ بھی جاری کر دیا جو کہ سوشل میڈیاپر بھی گردش کر رہا ہے ۔ زرائع کیمطابق کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والے جماعت الاحرار سمیت دیگر کئی تنظیموں کے ذمہ داران مذاکرات کے اس عمل سے خوش دیکھائی نہیں دے رہے اور کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔اسی طرح داعش بھی کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے جس کی ایک کڑی گزشتہ دنوں باجوڑ میں پولیس فورس پر حملہ  ہے جس میں دو پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی ۔

مذاکرات کی باتیں میڈیا پر آنے کے بعد قبائلی اضلاع اور بالخصوص جنوبی وزیرستان جو کہ اپریشن سے پہلے ٹی ٹی پی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا یہاں پر بھی مختلف رائے سامنے آ رہی ہے کچھ لوگ مذاکرات کی کامیابی کے خواہاں ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ اگر امریکہ افغان طالبانوں کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے تو پاکستان پاکستانی طالبانوں کے ساتھ اگر مذاکرات کریں تو ان میں کیا حرج ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ کچھ لوگ مذاکرات پر یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ اگر حکومت نے مذاکرات کرنے تھے تو یہ پہلے کیوں نہیں کئے اگر پہلے کرتے تو اتنے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنا ان تمام قربانیوں اور نقصانات پر پانی پھیرنا ہے جوکہ ٹی ٹی پی کیخلاف جنگ میں حکومت اور قبائلی عوام نے دی ہیں ۔

 مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے افغان طالبان کیا کردار ادا کریں گے آیا وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان سے ملک بدر کرینگے یا پھر انکی پشت پر کھڑے ہوکر پاکستان کے ساتھ دشمنی مول لیں گے  اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن کابل میں موجود پاکستانی سفیر نے اس حوالے سے  دعویٰ کیا تھا کہ اگر حکومت پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے تو مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے افغان طالبان ان کے خلاف آپریشن کریں گے لیکن دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کی تردید کی ۔اسکے ساتھ ساتھ طالبان زرائع کا دعویٰ ہے کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان طالبان نے اس شرط پر مذاکرات کے لیے راضی کیا کہ اگر پاکستانی حکومت نے مذاکرات کے عمل میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑے ہونگے ۔

ھاےاتتت

افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی اور درپیش چیلنجز

تحریر: حیات اللہ محسود

طالبان کا افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نورولی محسود نے بھی افغان طالبان کے ساتھ از سر نو دوبارہ بیعت کرنے کا اعلان کر دیا ۔کالعدم ٹی ٹی پی ا س سے پہلے بھی اسلامی امارت کی بیعت کے دائرے میں کام کرتے رہے تھے لیکن اسلامی امارت کے چند رہنماوں کے ساتھ اختلافات کے باعث انکو اسلامی امارت کی جانب سے کئی مشکلات کا سامنا رہا ہے بلکہ اپریشن راہ نجات کے بعد افغانستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پزیر رہے ہیں ۔کالعدم تحریک طالبان کے مفتی نورولی کی جانب سے افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اور انکے دیگر رہنماوں سمیت افغان طالبان کے نام افغانستان میں امریکہ کو شکست دینے پر مبارکباد سمیت انکے ساتھ تجدید بیعت کے اعلان سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک ہیں ۔لیکن افغان طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی کے اعلان پر تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
زرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی نے اپنے جنگجوں کو یہ حکم جاری کردیا کہ آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے تک وہ پاکستان میں کاروائی کرنے سے گریز کریں اب وہ آگے کا کیا لائحہ عمل تیار کررہے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ دوحا مذاکرات میں افغان طالبان نے اس معاہدے پر دستخط کیا تھا کہ وہ اپنی زمین کو کسی کیخلاف استعمال ہونے نہیں دینگے اب اگر افغان طالبان اس مذاکرات کی خلاف ورزی کریں پھر تو یہ انکے کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ چند سو پر مشتمل جنگجوں کے لیے وہ افغانستان کا مستقبل خطرے میں ڈالے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکے ساتھ بیعت شدہ کالعدم تحریک طالبان کو وہ پاکستان میں تخریب کاری سے باز رکھیں گے یا پھر ان سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے اگر افغان طالبان پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں تو وہ کسی بھی صورت کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کرینگےبلکہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو اس بات کا پابند کریں گے کہ وہ پاکستان میں تخریب کاری نہ کریں ایسا کرنے کی صورت میں پاکستان میں اور بالخصوص قبائلی اضلاع میں پائیدار امن قائیم ہوجائے گا ۔
لیکن کالعدم تحریک طالبان کوافغان طالبان اس بات کا پابند بنائیں گے کہ وہ پاکستان میں تخریب کاری نہ کریں تو اسکے لیے کالعدم ٹی ٹی پی تو تیار ہے لیکن وہ بھی انکے سامنے شرائط رکھیں گے ۔زرائع کے مطابق افغان طالبان نے جب کالعدم ٹی ٹی پی کو علاقے سے نکلنے کے لیے ایک خط بھیجا تھا جس میں یہ واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ افغان سرزمین سے فوری طورپر نکل جائے نہ نکلنے کی صورت میں وہ پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے سے باز رہنے سمیت دیگر شرائط بھی اس خط میں لکھی گئی تھیں جسکا جواب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیرنے ایک شاعرانا نظم کے زریعے دیا تھا جس میں انھوں نے افغان طالبان کو وہ دور یاد دلایا تھا جب وہ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئے تھے اور وہاں پر کالعدم ٹی ٹی پی نے انھیں پناہ دی تھی ۔
اسکے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کے حلقوں میں یہ بات زیر گردش تھی کہ افغان طالبان نے پاکستان کے کہنے پر ہمیں یہ خط ارسال کیا ہے اس خط کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے اکثر جنگجوں افغان سرزمین کو چھوڑ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے ۔لیکن افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد آہستہ آہستہ ان جنگجوں نے افغانستان کا رخ کیا۔ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اہم ثبوت یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سابقہ نائب امیر فقیر محمد کی افغان جیل سے رہائی کے بعد افغانستان کی سرزمین پر کالعدم ٹی ٹی پی نے انکا بھرپور استقبال کیا جسکی باقاعدہ ویڈیوز ٹی ٹی پی نے اپنے میڈیا سیل عمر میڈیا سے شئیر کیں ۔ویڈیومیں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی ایک بڑی تعداد فقیر محمد کی رہائی کے استقبال میں موجود ہے لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں افغان طالبان کے رہنما سے کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے صحافی کے سوال پر افغان طالبان رہنما نے کالعدم ٹی ٹی پی کے افغانستان میں موجودگی سے انکار کردیا ۔
افغان طالبان کے رہنما نے کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے انکار کس مصلحت کے تحت کیا یہ تو وہ بہتر جانتے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی ایک بڑی تعدا ذمہ دار رہنما کے ساتھ افغانستان میں موجود ہے جبکہ زرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ دنوں کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی کابل میں موجود تھے جہاں پر انھوں نے افغان طالبان کے اہم رہنماوں سے ملاقات بھی کی مفتی نورولی کے ہمراہ ٹی ٹی پی کے دیگر اہم کمانڈر بھی موجود تھے ۔کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک جنگجوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ سے ایک تحریر شئیر کی تھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ٹی ٹی پی کا وفد افغانستان میں افغان طالبان کو مبارکباد دینے کے لیے گیا جس پر افغان طالبان نے نہ صرف انکا بھرپور استقبال کیا بلکہ انکے جھنڈے اور ماتھے کو بھی چوماتھا اور افغانستان فتح میں انکی قربانیوں کی تعریف بھی کی تھی ۔ایک زرائع نے یہ بھی دعوہ کیا کہ افغان طالبان نے پکتیکا کے گورنر کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کریں جسکے لیے باقاعدہ ایک دو نشست بھی ہوئے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے کوئی ٹھوس حل نکالتا ہے یا پھر اسی طرح انکی افغانستان میں موجودگی سے انکار کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

Spinkaaai

کیڈٹ کالج سپنکئی تعلیم کی فراہمی کے ساتھ وزیرستان میں فلاحی کاموں کا مرکز

دہشت گردی کی جنگ سے سب سے ذیادہ متاثرہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں دو کیڈٹ کالج بنائے گئے اور یہ اعزاز صرف قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کو حاصل ہے کہ جہاں ایک ضلع میں دو کیڈٹ کالج موجود ہیں جس میں ایک کیڈٹ کالج وانا میں تعمیر کیا گیا جبکہ دوسرا کیڈٹ کالج سپنکئی رغزائی میں تعمیر کیا گیا ۔سپنکئی رغزائی کیڈٹ کالج تاحال تعمیراتی مراحل میں ہے لیکن تعمیراتی مرحلہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کیڈٹ کالج سپنکئی نے جنوبی وزیرستان کی سرزمین کو علم کے پانی سے ایسا سیراب کیا کہ اس زمین نے بے شمار ایسے سپوت پیدا کیے جوکہ مختلف شعبوں میں احسن طریقے سے ملک کے لیے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔

کیڈٹ کالج سپنکئی کا قیام سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز اشفاق کیانی کے دست مبارک سے اپریل 2012 میں عمل میں لایا گیا ۔ کالج کی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت نے ایک ارب تیس کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔عسکری قیادت کے بھرپور تعاون سے کالج کی تعمیر وترقی کا کام تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کیڈٹ کالج سپنکئی کے قیام کا بنیادی مقصدبالعموم پاکستان کے نوجوانوں کو اور بالخصوص  جنوبی وزیرستان  کی نوجوان نسل کو  معیاری اور جدید تعلیم سے روشناس کرانا، اعلیٰ تعلیم و تربیت سے ان کی کردار سازی کرنااور پاکستان کو اعلیٰ با کردار اور مخلص قیادت فراہم کرنا ہے۔کالج نے انتہائی کم وقت میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ کالج سے فارغ التحصیل کیڈٹس پاکستان آرمی ، پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس میں بطورآفیسر کمیشن لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کیڈٹ کالج سپنکئی کے کیڈٹس پاکستان کے اعلیٰ اور بہترین اداروں جیسےکہ: میڈیکل یونیورسٹی  ، انجینئر نگ یونیورسٹی ، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی اورلاء کالج وغیرہ میں زیر تعلیم ہیں۔

 کالج میں محسود قبائل کو تعلیمی میدان میں آگے لانے کےلئے کوٹہ مختص کیا گیا ہے ۔ لیکن اِس کوٹے میں بھی اُن کیڈٹس کو ترجیح دی جاتی ہےجو وزیرستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ کراچی ، پشاور ، اسلام آباد اور بڑے شہروں میں رہنے والے قبائل کو تمام تر تعلیمی سہولیات میسر ہوتی ہیں جبکہ وزیرستان میں پڑھنے والابچہ اِن جدید تعلیمی سہولیات سے نا آشنا ہوتا ہے اسی لیے مقامی طلباء کو اولین بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے اسکی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ کالج انتظامیہ ان تمام اُمور کو متوازن رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

 کالج انتظامیہ نے ذہین اور مستحق کیڈٹس کے لئے خصوصی وظائف (سکالر شپ)دینے کا سلسلہ شروع کیا  ہےجس کا مقصد ذہین اور مستحق کیڈٹس کی مالی معاونت کرنا ہےتاکہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بلا تعطل جاری رکھ سکیں ۔اس سلسلے میں مخیر حضرات نے کالج انتظامیہ کو بھر پور مدد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

 کرنل محمد طارق سہیل کی بطور پرنسپل کیڈٹ کالج تعیناتی کے بعد کیڈٹ کالج سپنکئی رغزائی ان دنوں نہ صرف تعلیم کی فراہمی کا فریضہ سر انجام دے رہاہے بالکہ کیڈٹ کالج سپنکئی رغزائی مقامی عوام کے لیے ایک ایسی حثیت اختیار کر گیا کہ وہ اپنے مسائل کے حل اور انکو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے عوامی نمائندوں کے دروازے پر دستک دینے کی بجائے کیڈٹ کالج کے دروازے پر دستک دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ کالج انتظامیہ نے پہلی مرتبہ کیڈٹ کالج کے لیے بنائے گئے ایک چھوٹے سے ہسپتال تک مقامی لوگوں کو رسائی دی ۔اس ہسپتال تک مقامی لوگوں کو رسائی دینے کے بعد مقامی لوگ طبعی علاج کے لیے اس ہسپتال کو ترجیح دیتے ہیں ۔کیونکہ ہسپتال صرف کیڈٹ کالج کے سٹاف اور طلباء کو علاج معالجے کے عرض سے بنایا گیا تھا اسی لیی کم وسائل کے باعث ذیادہ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے ہیں ۔حکومت اگر اس چھوٹے سے ہسپتال کو سہولیات فراہم کرے تو یہ چھوٹے سے ہسپتال سے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے ذیادہ مریض مستفید ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ہسپتال ایک منظم نظام کے تحت چل رہا ہے ۔کیڈٹ کالج سپنکئی راغزائی کے پرنسپل کرنل طارق سہیل نےگزشتہ دنوں مقامی صحافیوں کو کیڈٹ کالج کے دورے کے دوران غیر رسمی گفتگوں کے دوران بتایا  کہ ہماری  کوشش ہے کہ ہم  محض کالج کی چار دیواری کے اندرمحدودنہ رہیں بلکہ کالج کی چار دیواری سے باہر بھی ہم جنوبی وزیرستان  اور خصوصاً سپنکئی کے لوگوں کی مختلف شعبوں میں مدد کریں ۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم مقامی لوگوں کو  جدید تعلیم کی فراہمی ، صحت کےشعبے میں ممکنہ سہولیات کی فراہمی  اور معاشی طور پرمقامی لوگوں کو ہر ممکن  مدد  فراہم کریں ۔

جدید تعلیم کا حصول وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تعلیم کےمیدان میں مقامی سکولوں کو جدید تعلیمی تقاضوں سےروشناس کرانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے محکمہ تعلیم کی وساطت سے دومقامی بوائز سکولز اور دو گرلز سکول  کو منظم کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ان سکولز میں طلباء و طالبات کی کل تعد اد 400 سے زائد ہے۔ ان سکولوں کے اساتذہ کے لئے ابتدائی طور پر تعلیمی ورکشاپ کا انعقاد ، تعلیمی خامیوں کی نشاندہی جبکہ طلباء کے لئے کتابیں ، یونیفارم  وغیرہ کا بندوبست شامل ہے۔

پرنسپل کرنل محمد طارق سہیل نے واضح کیا ہے کہ مقامی لوگوں کی طبی سہولیات کے لئے کالج کا ہسپتال اور طبی عملہ ہر وقت تیارہے ۔ ابتدائی طبی امدادکے لئے مقامی لوگ کسی بھی وقت کالج آسکتے ہیں اور میڈیکل سہولیات سےفائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سپنکئی  کے مقامی لوگ اس سہولت سے استفادہ بھی  حاصل کر  چکے ہیں۔ پرنسپل کیڈٹ کالج سپنکئی نے بتایا کہ اس سے ہمارے کیڈٹس کے طبی اُمور پر کوئی فرق نہیں پڑےگا ہم بیک وقت کیڈٹس اور مقامی لوگوں کو  طبی امدا د دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسکو مسلسل جاری رکھ سکتے ہیں

مقامی لوگوں کے لئےجو سب سے اہم بات پرنسپل کرنل محمد طارق سہیل نے بتائی وہ یہاں کے مقامی لوگوں کی معیشت میں مدد فراہم کرنا ہے۔ کالج انتظامیہ کی اولین کوشش ہےکہ کالج میں مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے ۔ یہی وجہ ہےکہ کالج میں کلاس فور سے لیکر اعلیٰ افسر تک مقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیاہے۔ تاکہ یہاں کےلوگ زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں ۔ اس کے علاوہ کالج انتظامیہ کوشش کر رہی ہےکہ جنوبی وزیرستان کے لوگ بڑے شہروں کے بجائے مقامی مارکیٹ اور اپنےلوگوں کو سپورٹ کریں تاکہ مقامی مارکیٹ اور مقامی کاروبار آگے بڑے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں اب یہ شعور اجا گر ہورہاہے ۔ یہاں کے لوگ مقامی مارکیٹ اور کاروبار کو سپورٹ کررہے ہیں  ۔ لوگوں کا پیسہ اور کاروبار اپنی مارکیٹ میں گردش کرنے لگا ہے ۔ جس سے یہاں کے لوگوں کوخاطر خواہ فائدہ مل رہا ہے۔ کالج انتظامیہ نے جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی معاشی شعور کی بیداری میں اپنا بھر پور تعاون کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیاہے۔پرنسپل کرنل محمد طارق سہیل نے بتا یا کہ عسکری قیادت اور حکومت جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی بہتر زندگی کے لئے کوشاں ہیں ۔پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح جنوبی وزیرستان بھی بہت جلد جدید سہولیات سے آراستہ ہوگا۔ عسکری قیادت اس حوالے سے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔

کیڈٹ کالج کے پرنسل کرنل طارق کی گفتگو سے یہ اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جنوبی وزیرستان کے طلباء کو بہترین تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یہاں کے رہائشیوں کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں ۔ اگر کیڈٹ کالج انتظامیہ  عوام کے لیے وہ فرائض بھی سرانجام دی رہی ہے جوکہ ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے تو اب مقامی کاروباری ،سیاسی، سماجی اور مخیر حضرات کا فرض بنتاہے کہ وہ کیڈٹ کالج انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدامات کو عوامی سطح پر سراکر نہ صرف کالج انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کریں بالکہ ان عوامی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑکر حصہ لے ۔محکمہ صحت کو بھی چائیے ہیں کہ وہ کیڈٹ کالج کے چھوٹے سے ہسپتال کو وہ تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی تاکہ عوام بہتر انداز میں کالج انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ کیے بغیر اس سے مستفید ہوسکیں ۔محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کو بھی چائیے کہ وہ کریڈٹ کی بیماری سے باہر آکر کالج انتظامیہ سے بھر پور تعاون کریں اور جو چار سکول کالج انتظامیہ نے اپنی نگرانی میں لیئے ہیں اس میں کالج انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ کالج انتظامیہ مزید سکولوں کو بھی اپنی نگرانی میں لینے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرے جسکی وجہ سے سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بہتری کی جانب گامزن ہوگا

لعاد لاند

لینڈ مائنز کے واقعات،اسکاحل قصوروارکون ؟

جنگ زدہ علاقوں میں امن کی بحالی کے بعد سب سے اہم مسلہ لینڈ مائنز ہوتا ہے۔لینڈ مائنز ایک ایسا خفیہ دشمن ہے جو نقصان دینے کے بعد ہی نمودار ہوتا ہے۔ وزیرستان میں ایک طویل اپریشن کے بعد یہاں پر بھی لینڈ مائنز کا مسلہ ایک سنگین مسلہ بن چکا ہے سیکیورٹی ادارے دہشت گردی پر قابوں پانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ابھی تک لینڈ مائنز کے واقعات پر قابوں پانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق اب تک 179لینڈ مائنز کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں 200 کے قریب  افرادلینڈ مائنز کا شکار ہوچکے ہیں اس میں ذیادہ تر تعداد بچوں کی ہے لینڈ مائنز کے شکار ہونے والے افراد میں خواتین بھی شامل ہیں ۔انسانوں کے علاوہ لاتعداد جانور بھی لینڈ مائنز کا شکار ہوچکے ہیں ۔

سیکیورٹی اداروں  کو لینڈ مائنز پر قابوں پانے میں اب تک کیوں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی اس کی  کئی وجوہات ہیں کیونکہ اپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز  نے جہاں پر لینڈ مائینز لگائے تھے انکا اعداد وشمار اور جگہ تو معلوم ہے ان علاقوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ انکا صفایا بھی کیا گیا لیکن سب سے بڑا مسلہ دہشت گردوں کی جانب سے لگائے گئے لینڈ مائنز ہیں کیونکہ انکے نہ تو کوئی اعداد وشمار موجود ہیں اور نہ ان مقامات کی معلومات ہیں کہ کہاں پر لینڈ مائنز لگائی گئی ہیں۔ اسکے علاوہ دوسرا  بڑا مسلہ یہ ہے کہ جن دنوں وزیرستان میں ٹی ٹی پی عروج پر تھی تو ان دنوں ٹی ٹی پی کی شکل میں مستقبل میں تباہی کے عرض سے کئی ایسے غیر ملکی افراد نے بہت رازداری کے ساتھ مختلف علاقوں میں جس میں ذیادہ تر پہاڑی علاقے اور ندی نالے شامل ہیں  میں کھیلونے نما اور دیگر اقسام کے بموں کی پیوند کاری کی جسکے کئی شواہد سامنے آئے ہیں کیونکہ کئی واقعات میں لینڈ مائنز پھٹنے کے بعد جب چھان بین کی گئی تو وہ روسی ساختہ اور افغانستان میں استعمال کیے گئے کھلونا نما بموں سے مشابہت رکھتی تھیں اور یہ تاریخی لحاظ سے بھی اپریشن سے پہلے تک استعمال ہونے والے  ساخت کی بارودی سرنگیں تھیں ۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گناونا جرم جس نے بھی کیا اسکا مقصد دہشت گردوں یا سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانا مقصد نہیں تھا بلکہ اپریشن کے خاتمے کے بعد علاقے میں واپس آنے والے عام عوام کو نشانہ بنانا مقصد تھا ۔اس کا ان کو کیا فائدہ ہوگا تو یہ ایک الگ بحث ہے ۔

 اس صورتحال میں  لینڈ مائنز پر جلد قابوں پانا سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے دوسری طرف ہم عوام بھی اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح غافل ہیں ہم لینڈ مائنز کو ریاست کی ذمہ داری سمجھتے ہیں جوکہ ایک حقیقت ہے لیکن لینڈ مائنز کے حوالے سے آگاہی حاصل کرنے اور اس کو آگے منتقل کرنے کو بھی ہم نے ریاست پر چھوڑ دیا ہے یا پھر یہ ذمہ داری غیر سرکاری تنظمیوں کے کھاتے میں ڈالی ہے جنھوں نے  لینڈ مائنز کی آگاہی کے نام پر کروڑوں روپے کے پراجیکٹ تو حاصل کیے لیکن کارکردگی صرف فوٹوسیشن تک محدود رہی ۔اگر دیکھا جائے تو اکثر لینڈ مائنز کے واقعات بچوں کے کھیلونا نما بموں کے ساتھ کھیلنے یا پھر عام افراد کی جانب سے بموں کو خود ناکارہ بنانے کی کوشش کے دوران رونما ہوئے اس لیے اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ اکثر واقعات آگاہی نہ ہونے کے باعث ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ایسی صورتحال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا پر لینڈ مائنز کے واقعے کے بعد ہم جو واویلا مچاتے ہیں  اگر وہی واویلا لینڈ مائنز کی آگاہی کے حوالے سے مچائیں تو اسکی وجہ سے کئی معصوم بچوں کی جانیں بچ سکتی ہیں ۔

 اب تو یہ واویلا صرف سوشل میڈیا تک بھی محدود نہیں رہا بالکہ لینڈ مائنز کے شکار ہونے والے بچوں کی لاشوں کو احتجاجی طور پر رکھ کر حکومت سے لینڈ مائنز کی صفائی کے مطالبات کیے جارہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان احتجاجوں میں شامل ہونے والے لمبی لمبی تقریریں جھاڑنے والوں نے لینڈ مائنز سے آگاہی اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ایک بات بھی کی ہو۔

لینڈ مائنز کے متاثرہ افراد کے لیے حکومت جو پیکج دے رہی ہے وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اس پیکج کے حصول کے لیے جو طریقہ کار بنایا گیا ہے وہ لینڈ مائنز کے متاثرہ افراد کو امداد ملنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ لینڈ مائنز کے حوالے سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وقتا فوقتا لینڈ مائینز کے حوالے سے آگاہی مہم چلائے جس میں مقامی لوگوں سمیت لینڈ مائنز کے متاثرہ افراد  کو شامل کیا جائے کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جب بھی آگاہی کمپین چلائی گئی تو اس سال ان واقعات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے لیکن جب اسے نظر انداز کیا گیا یا یہ کہہ کر بند تو لوگ بھی اس خطرناک چھپے دشمن کو بھول جاتے ہیں اور جب لینڈ مائنز کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو کچھ دنوں کے لیے تو احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ  پھر انکو بھلا دیا جاتا ہے ۔

 لینڈ مائنز کی صفائی پر کام تیز کیا جائے مقامی نوجوانوں کو لینڈ مائنز کی صفائی کے لیے بھرتی کیا جائے  اسے ٹریننگ دی جائے ہر تحصیل سطح پر ٹیمیں بنائی جائیں ۔لینڈ مائنز سے متاثرہ افراد کی تعلیم وتربیت اور انکے لیئے فوری طور پر نوکری کا بندوبست سمیت ان افراد میں تکینکی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے خصوصی مراکز بنائے جائیں ۔لینڈ مائنز کے متاثرہ افراد کو معاوضے دینے کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے ۔

پولیس

وزیرستان کی سیکیورٹی پولیس کے حوالے کرنے کا مطالبہ ، پی ٹی ایم کی ایک اور چال

 کچھ عرصے پہلے پی ٹی ایم نے وانا میں جلسہ کرکے کورونا ایس او پی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بے شمار افراد کی زندگی داو پر لگائی ۔لیکن اس اقدام سے بھی پی ٹی ایم قیادت کا کلیجہ ٹھنڈہ نہیں ہوا ہے کیونکہ پی ٹی ایم شروع سے ہی لاشوں کی سیاست کرتی چلی آرہی ہیں اور بہت وقت گزرا  انکو سیاست کرنے کے لیے لاش نہیں ملی تو وانا جلسے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ اب پی ٹی ایم کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں  لاشوں کی ضرورت پڑےگئی ۔پی ٹی ایم کے ایم این اے محسن داوڑنے وانا جلسے میں  حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ ایف سی اور فوج کو فوری طور پر وزیرستان سے نکالا جائے اور وزیرستان کی سیکیورٹی پولیس کے حوالے کی جائے۔وانا جلسے کے بعد یہ مطالبہ وقتا فوقتا سوشل میڈیا اور مقامی سطح پر ہونے والے پروگرامات میں پی ٹی ایم اور انکے ہم خیال لوگوں کی طرف سے دہرایا جا رہا ہے ۔

محسن داوڑ کے اس مطالبے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ وزیرستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیل کر لاشوں کی سیاست کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے ۔کیونکہ ایسے پولیس کو وزیرستان کے امن کی ذمہ داری حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا جو ابھی تبدیلی اور زمہ داریاں سنبھالنے کے عمل سے گزر رہی ہے اور جس کو  عدالتی احکامات کے باوجود یہاں ایک صحافی کے گھر کو قومی لشکر سے مسمار کرنے سے روکنے   میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا وہ پورے وزیرستان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری کیسی لے سکتی ہے ۔حالیہ دنوں میں وزیر اور دوتانی قوم کے درمیان جاری کرکنڑہ تنازعہ میں چھوٹے اور بڑے اسلحہ کے آذانہ استعمال اور اس مسئلے کو حل کرنے میں تاخیر جیسے واقعات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

 فی الحال پولیس کی تربیت جاری ہے اور  بیشتر اوقات امن و امان کے لیئے آرمی اور ایف سی سے فوری طور پر مدد طلب کی  جاتی ہے جیسا کہ کرکنڑہ تنازعہ میں ہوا ۔کرکنڑہ تنازعہ میں ڈپٹی کمشنر کے ڈی پی اور کو سیکیورٹی کنٹرول کرنے کے لیے کئی خطوط ارسال کئے جس پر ڈی پی او صاحب کا کہنا تھا کہ غیر تربیت یافتہ پولیس فورس کی وجہ سے تا حال ہم اس قابل نہیں ہے کہ ہم حالات کو کنٹرول کر سکیں اس کے لیے ہم نے ایف سی اور آرمی سے مدد طلب کی ہے

ایسے  میں پولیس کو وزیرستان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری حوالے کرنا وزیرستان کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنا نہیں ہے تو کیا ہے ؟۔گزشتہ کئی دنوں سے مختلف حلقوں میں یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وزیرستان کے امن کی ذمہ داری پولیس کے حوالے کی جائے گی اگر یہ بات درست ہے تو یہ وزیرستان کے عوام کے ساتھ بہت نا انصافی ہوگی یہ فیصلہ ان قبائلی خاندانوں اور فوجی خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کردار ادا کرے گا جھنوں نے امن کے قیام کے لیے  قربانیاں دیں کسی نے بیٹے کی قربانی دی کسی نے بھائی کی قربانی دی،کسی نے شوہر کی قربانی دی  جبکہ کسی نے باپ جیسے عظیم رشتے کو جنوبی  وزیرستان کے امن کے خاطر قربان کیا۔

اگر وزیرستان کا امن غیر تربیت یافتہ پولیس کے حوالیا کیا گیا یا انکے لیے تربیت یافتہ پولیس بھی تعینات کی گئی تو اسکے نتائج بہت ہی خطرناک ہونگے ۔ اسی لیے حکومت کو چائیے ہیں کہ ایک ایسا ٹولہ جس کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے وقتا فوقتا لاشوں کی ضرورت پڑتی ہے ایسے ٹولے کے مطالبات کو تسلیم کرنا انکی سیاست کے لیے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔حکومت کو وزیرستان کے سیکیورٹی معاملات کو پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے  کراچی میں رینجرز کی طرز پر وزیرستان میں بھی ایف سی اور آرمی کو اختیارات دینے کی ضرورت ہے تب جاکر وزیرستان میں امن کا قیام اور مقامی سطح پر قبائلوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے ۔

بندوق کلچر سے قلم وکتاب کلچر تک

بندوق کلچر سے قلم وکتاب کلچر تک

تحریر: حیات اللہ محسود

ایک وقت تھا کہ قبائل اپنے بچوں  کو لڑاکو بنانے کے لیے انکی مختلف طریقوں سے تربیت کرتے انکو مختلف جنگجوؤں اور علاقے کے لڑاکا افراد کے قصے اور کہانیاں سناتے۔بلکہ یہاں تک کہ ہماری موسیقی جو امن کی علامت سمجھی جاتی ہے وہ بھی اس پر مبنی تھی ۔ہوش سمبھالتے ہی بچے کو بندوق چلانے کا طریقہ سکھایا جاتا تھا۔بندوق سے نشانہ بازی اور بندوق کی صفائی سکھانا لازم تھا ۔

یہ رسم پورے قبائلی اضلاع اور بالخصوص جنوبی وزیرستان میں اپنی مثال آپ تھی ۔بندوق ہمارےرسم ورواج کا حصہ تھی ۔ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اچھی سے اچھی بندوق خریدے ۔جسکے پاس جتنا ذیادہ اسلحہ ہوتا تھا وہ سب سے خوش قسمت تصور کیا جاتا تھا ۔طالبانزیشن کے وجود میں آنے کے بعد اس کلچر کو مزید پروان چڑھایا گیا اور ساتھ میں اس کلچر میں جدت آتی گئی اور آخر کار بندوق کلچر جدید دور کے جدید اور بھاری اسلحہ رکھنے تک جا پہنچا ۔اپریشن راہ نجات کے بعد یہ کلچر آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا اپریشن کے خاتمے کے بعد قبائلی اضلاع کا انضمام بھی ہوا اسی طرح بچا کچھہ بندوق کلچر ے دم تھوڑنے لگا ۔

عسکری اپریشن کے باعث جہاں قبائلی اضلاع کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو وہیں ان قبائلی اضلاع کے عوام کو ترقی کی دوڑ میں دیگر اقوام کے ساتھ شریک ہونے کے لیے بے شمار مواقع بھی میسر ہوئے ۔جس میں سب سے بڑا موقع تعلیم کا حصول تھا ۔تعلیم کے حصول  کے میدان میں قبائلوں کی اترنے کی دیر تھی کہ پاک آرمی نے تعلیم کے ساتھ قبائلوں کی محبت کو دیکھتے ہوئے قبائلی اضلاع میں کیڈٹ کالج اے پی ایس اور دیگر جدید طرز کی تعلیم فراہم کرنے والے تعلیمی اداروں کا جال بچھایا ۔ان تعلیمی اداروں کے قیام کے بعد  قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے غریب اور امیر دونوں والدین کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ انکا بچہ بہتر سے بہتر تعلیمی ادارے میں پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل سنوارے اور یوں بندوق کلچر سے بیزار ہوکر قلم کےکلچر کو فروغ دینے کی ایک لہر دوڑ گئی ۔

وہ والدین جو اس سے پہلے تعلیم یافتہ بچوں کو پنجابی وغیرہ کے نام سے یاد کرتے تھے وہی والدین اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کےلیے سرگرم ہوگئے ۔وہ والدین جو اس سے پہلے ہوش سمبھالتے ہی اپنے بچوں کو بندوق کی تربیت دیتے تھے وہ اپنے بچوں کو سکول جانے کی تربیت دینے لگے ۔اسکی بدولت 18 سال کے اس قلیل عرصے میں پاکستان سمیت بیرونی دنیا میں بہترین پوزیشن پر قبائلی نوجوانان فائز ہیں ۔بندوق کلچر کی  بجائے قلم کتاب کلچر نے قبائلی اضلاع میں ایک مقام بنا لیا ۔

قلم کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے یہاں کے مقامی تعلیم یافتہ طبقوں نے مختلف غیر سرکاری تنظیمں قائم کیں جس نے قلم وکتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے بہت محنت کی انہی غیر سرکاری تنظیموں کی بدولت آج گھر گھر تعلیم کی شمع روشن ہو رہی ہے ۔ جس طرح قبائلی اضلاع کے عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اور بندوق کلچر کو ختم کرکے قلم وکتاب کلچر کو فروغ دینے کے ریاست نے بہترین اقدامات اٹھا کر حقیقی ماں کا کردار ادا کیا اسی طرح اب یہ وقت کی ضرورت ہے کہ وہ ان غیر سرکاری تنظیموں کو سپورٹ کرنے کے لیےقدم بڑھا کر انکے حوصلے بڑھائے کیونکہ انہی غیر سرکاری تنظیموں کی بدولت آج ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں  قبائلی اضلاع کےغریب یتیم اور مستحق  طالبعلم اپنے علم کی پیاس بجھانے میں مصروف عمل ہیں ۔

جنوبی وزیرستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ماوا کی بدولت ترکی سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے وفد نے جنوبی وزیرستان کا دورہ کرکے وزیرستان میں  تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ۔ترکی کے اس وفد کی وزیرستان آمد اور یہاں پر تعلیمی ماحول کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کرنے کے اعلان کے بعد یہ وفد جب ترکی واپس تو وہ وزیرستان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہاں کے عوام کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کی بجائے تعلیم سے منسلک ہونے والی قوم کے طور پر یادکریگا۔

بندوق کلچر سے قلم وکتاب کے کلچر تک کے سفر میں کردار ادا کرنے والے قوم کے محسنوں کی حوصلہ افزائی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اگر دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو صدارتی ایوارڈ دیا جاسکتا ہے تو ان محسنوں کو بھی صدارتی ایواڑڈ دیتے  وقت یاد رکھنا چائیے  جنھوں نے بندوق کلچر کو قلم وکتاب کلچر میں تبدیل کرنے کے لیے مختلف مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اسکو فروغ دیا ۔

کیا پی ٹی ایم پشتونوں کو ایک اور جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے؟

کیا پی ٹی ایم پشتونوں کو ایک اور جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے؟

مولانا فضل الرحمن کا پی ٹی ایم کو دہشت گرد جماعت قرار دینا پختون قوم کو ایک نئی جنگ کی خبر تو نہیں ہے؟

گزشتہ دنوں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک لبیک کیخلاف لاہور میں یتیم خانہ چوک کو مسلسل کئی دنوں تک بند رکھنے پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیےحکومت کی جانب سے کاروائی کرنے کے حوالے سے  پریس کانفرنس کے دوران جاتے جاتے یہ بات کہہ دی کہ ‏اس ملک میں اگر پی ٹی ایم جیسی انتہا پسند قوم پرست اور دہشت گرد جماعت پنپ سکتی ہے تو مذہبی جماعتیں کیوں نہیں ؟

مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کے بعد پی ٹی ایم کے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ ،پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین ،افراسیاب خٹک اور محمود خان اچکزئی سمیت دیگر رہنماوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ابھی تک مولانا فضل ارحمن کےحمایت یافتہ  اور پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ افراد کے درمیان لفظوں کی شدید جنگ جاری ہے ۔

پی ٹی ایم اور مولانا فضل الرحمن کے بیان کے حمایتوں کے درمیان سوشل میڈیا کی اس جنگ میں ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی فضل الرحمن پر ڈالروں کی خاطر پشتون قوم کو جہاد کے نام پر جنگ میں دھکیلنے کے الزامات لگا رہا ہے تو کوئی پی ٹی ایم کو پشتون قوم کی نئی نسل کو کسی اور کے ایما پر لسانیت کی جنگ میں دھکیلنے سمیت ہم جنس پرستی کو فروغ دینے اور پاکستان دشمنوں کے ایما پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مشن پر عمل پیرا قرار دے رہا ہے ۔

سوشل میڈیا پر اپنی رائے کے اظہار میں کچھ افراد نے تو مولانا فضل الرحمن پر الزم عائد کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے  اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر یہ  الفاظ ادا کیے اور یہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اس تقریر کا رد عمل ہے جوکہ پی ٹی ایم کے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اسمبلی کے فلور پہ کی  تھی جس میں  محسن داوڑ نے کہا تھا کہ  طالبان دہشت گرد تھے دہشت گرد ہیں اور دہشت گرد رہینگے لیکن  طالبانوں کو بنانے والوں کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرکے ان سے وضاحت طلب کرنی چائیے ۔

اس ساری صورتحال میں کون برحق ہے اور کون الزامات کا سہارہ لے کر اپنےحقیقی چہرے کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اسکا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن مولانا فضل الرحمن کا پی ٹی ایم کو دہشت گرد جماعت کہنا بے مقصد نہیں ہے کیونکہ پختون بیلٹ اور افغان جنگ کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھنے والے مولانا شیرانی نے پی ٹی ایم کے وجود میں آنے کے چند ماہ بعد ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک مقامی صحافی سے گفتگو کے دوران یہ بات کہی تھی کہ پختون قوم کی ایک نسل جہاد کے نام پر مذہبی جنگ کی نظر ہوئی اور ان پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگ گیا جبکہ اب پی ٹی ایم ایک نسل کو قومیت کی بنیاد پر اسی راستے پر گامزن کرنے میں مصروف ہے ۔

مولانا شیرانی کے بعد مولانا فضل الرحمن کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا کہ پی ٹی ایم ایک دہشت گرد جماعت ہے پختون قوم کو وقت سے پہلے ایک نئی جنگ میں دھکیلنے کی خبر ہے ۔اس تمام صورتحال میں پختون قوم کے سیاسی رہنماوں سمیت علاقائی معززین اور معاشرے کے بااثر افراد کو وقت سے پہلے اس خطے کو نئی جنگ کی جانب دھکیلنے سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں بھی ان اقوام کا نقصان کم ہی ہوا جن اقوام کے مشران نے وقت سے پہلے اس جنگ سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرلی۔ وہ اقوام آج تک جنگ کی اس چکی میں پس رہی ہیں جن پر حکمت عملی بناتے وقت  ڈر اور خوف غالب آگیا تھا  ۔

کورونا اور وانا میں پی ٹی ایم جلسہ

کورونا اور وانا میں پی ٹی ایم جلسہ

دنیا بھر میں کورونا وبا کی تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے مختلف تدابیر پرعمل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس لہر سے بچنے کے لیے حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند کردیا ۔مسجد میں وضو پر پابندی سمیت باجماعت نماز ادا کرنے کے دوران آپس میں فاصلہ رکھنے کے لیے حکومت نے ایس او پیز جاری کردیں ۔

بین الصوبائی اور بین الضلاع ٹرانسپورٹ پر ہفتے اور اتوار کے دن مکمل طور پر پابندی لگائی گئی ۔شادی حال کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ مخصوص اوقات میں پروگرام کے انعقات کے لیے ایس او پیز جاری کر دی گئیں ۔لاک ڈاون کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہے اس حوالے سے مارکیٹوں کے لیے ایس او پیز اور کئی علاقوں میں ہفتے اور اتوار کو مارکیٹیں بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔سرکاری دفاتر میں سٹاف کی حاضری میں کمی کردی گئی ۔

حکومت کے جانب سے کورونا سے بچنے کے لیے  اٹھائے گئے اقدامات  کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو مختلف سزائی بھی دی جا رہی ہیں ۔کورونا کی اس شدید لہر کے باوجود پی ٹی ایم نے وانا میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس جلسے کے لیے کئی ہفتوں سے کمپین بھی چلائی گئی لیکن ضلعی انتظامیہ نے ایس او پیز کی پامالی کی وجہ سے نہ تو کسی کو کوئی سزا دی اور نہ جلسہ روکنے کی کوشش کی اور آخر کار گزشتہ دنوں پی ٹی ایم نے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں ایک جلسہ کیا جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف شرکت کی بالکہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں ۔

پختونوں کو ذندگی دینے کا نعرہ لگانے والوں نے پختونوں کو کتنی ذندگیاں دی ہیں اور کتنی ذندگیاں چھینی ہیں یہ تو سب کو پتا ہے لیکن ریاست کے کردار پر اس جلسے نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ۔ضلع انتظامیہ کی خاموشی اور اس جلسے کے حوالے سے تماشائی کے کردار نے ریاست کی ذمہ داریوں پر کئی سوالات کھڑے کر دئیے ۔اگر کوئی پرائیویٹ سکول کا پرنسپل بچوں کا مستقبل سنوارنے کی خاطر سکول کی بندش کے اعلان پر عمل کرنے کے بجائے سکول کھلا رکھتا ہے تو اسکو جرمانے کرنے کے ساتھ ساتھ ایف آئی آر کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔اگر کوئی ریڑھی والا اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسکو بھی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اگر کوئی ڈرائیور ہفتے یا اتوار کے دن اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے گاڑی کو سڑک پر نکالتا ہے تو اسکو ٹریفک پولیس ناقابل یقین چالان کے ساتھ ساتھ انکو حوالات کی سیر کرواتی ہے لیکن پی ٹی ایم نے سینکڑوں افراد کا مجمع جمع کرکے ضلعی انتظامیہ کے ناک تلے کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑایں مگر نہ تو کسی کو جرمانا کیا گیا اور کسی کو ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑا۔

کورونا ایس اوپیزکی خلاف ورزی کرنے والی پی ٹی ایم قیادت کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ خاموشی اختیار کرنے پر اس جرم میں برابر کی شریک ہے اسی لیے پی ٹی ایم قیادت کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ اگر کسی ریڑھی والے کورونا ایس او پیزکی خلاف ورزی  کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو اسکو یہ شکوہ نہ ہو کہ کورونا کی آڑ میں مجھے حلال رزق کمانے سے روکا جا رہا ہے ۔

قبائلی اضلاع میں تنازعات کا حل شفاف جرگہ نظام کے تحت ہی ممکن ہے

قبائلی اضلاع میں تنازعات کا حل شفاف جرگہ نظام کے تحت ہی ممکن ہے

تحریر حیات اللہ محسود

جرگہ قبائلی روایات کا حصہ ہے جرگے  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ انصاف کی فراہمی کا تیز ترین ذریعہ ہے کئی ایسے مسائل جنکوں حل کرنے پر عدالتوں میں سالوں سال لگ جاتے ہے وہی مسائل جرگے کے زریعے یا تو چند گھنٹوں میں حل ہوجاتے ہے یا پھر چند دنوں میں حل ہوجاتے ہیں ۔

جرگے کے زریعے فریقین کے درمیان فیصلے کرنے والے افراد کو مقامی زبان میں مرکزن کہتے ہیں جبکہ دوسرے الفاظ میں انکو ثالثین کہتے ہیں ۔قبائلی روایات میں ثالثین کا کردار ان افراد کو دیا جاتا تھا جن کی معاشرے میں دیانت داری ایمانتداری اور صاف گوئی کے حوالے سے ایک پہچان ہوتی تھی ۔قبائلی اضلاع میں طالبانائزیشن کے وجود میں آنے کے بعد دیگر رسم ورواج کی طرح جرگہ بھی مثاثر ہوا ۔ جرگے میں جو رہے سہے مثبت اثرات باقی تھے اسکا جنازہ عسکری آپریشن کے بعد یہاں کے چند نام نہاد مقامی سرکاری ملکان نے نکال دیا۔آہستہ آہستہ قبائلی رسم رواج کے اس اہم پہلو کو کاروبار میں تبدیل کر دیا گیا۔ جرگے میں نئی نئی رسومات کا اضافہ کرکے جرگے کو انصاف کی فراہمی کی بجائے کمائی کے زریعے میں تبدیل کردیا گیا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا جسکی وجہ سے آج وہ جرگہ جسکو ایک زمانے میں انصاف کی فراہمی کا آسان ترین اور تیز ترین زریعہ تصور کیا جاتا تھا وہ لوٹ کھسوٹ،انصاف کی فراہم کی بجائے نا انصافی اور صلح کی بجائے لڑائی کا زریعہ تصور کیا جاتا ہے ۔

آج بھی کئی جرگے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے لیکن جرگے کو اتنا بدنام کیا گیا کہ انصاف کی خاطر ہونے والے جرگوں پر بھی کسی کو اعتماد نہیں ہوتا ۔لالچی ثالثین اور سول انتظامیہ کے ٹاوٹ نما نام نہاد ملکان کے ہاتھوں مسلسل کئی سالوں تک جرگہ نظام کی یرغمالی کی وجہ سے جرگے میں ایسی رسومات کو شامل کر دیا گیا جو کہ قبائلی جرگہ کا حصہ نہ تھیں ۔ان سرکاری ملکان نے سول انتظامیہ کے ساتھ ملکر اپنے چند روپے کی لالچ کی خاطر جرگے کے اس بہترین نظام کو خراب کر دیا جو یہاں کے رسم وراج کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے لیے انصاف کا ایک سستا اور تیز ترین زریعہ سمجھا جاتا تھا ۔

جہاں لالچ کی آمد ہوتی ہے وہاں سے انصاف چلاجات ہے اور یوں جرگہ نظام کے ساتھ بھی یہی ہوا۔نام نہاد ملکان نے جرگہ نظام میں لالچ کو بلا کر یہاں سے انصاف کا جنازہ ہی نکال دیا ۔خالوت، مزدوری اور نہ جانے کن کن ناموں کے زریعے جرگے کو کمائی کا ایک زریعہ بنادیا اور اپنی چند روپے کی لالچ کے خاطر قبائلی جرگےمیں ایسی رسومات کو شامل کر دیں کہ انصاف کا یہ آسان ترین زریعہ نا انصافیوں کے ساتھ ساتھ لالچ اور پیسہ کمانے کا زریعہ بن گیا ۔ہر معاشرہ میں لالچی افراد کی کمی نہیں ہوتی اسی طرح قبائلی اور بالخصوص جنوبی وزیرستان میں موجود وہ لوگ جنکی کمائی کا کوئی زریعہ نہیں تھا انھوں نے روایتی پگڑیاں خرید کر خود کو ثالثان کہلانے لگے ان لالچی افراد جن میں زندگی کے ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے نے جرگے کا رہا سہا ڈھانچہ بھی بگاڑ دیا ۔ آہستہ آہستہ ان لوگوں نے جرگے میں شامل ہونے سے کنارہ کشی اختیار کرلی جو لوگ اللہ کی رضا اور فریقین کے انصاف پر مبنی صلح کی نیت سے اکثر جرگوں کا حصہ ہوتے تھے۔

ہمارے روایتی جرگے کا یہ ایک اصول تھا کہ جن فریقین کے درمیان تنازعہ ہوتا تھا وہ دونوں فریقین تب تک ثالثان کا کردار ادا کرنے والے افراد کے لیئے باری باری  قیام وطعام کا بدوبست کرتے تھے جب تک وہ فیصلہ نہ سناتے  اور خالات اس وقت دیاجاتا تھا جب ثالثین فیصلہ سنادیتے وہ بھی فریقین اپنی استطاعت کے مطابق جتنا خالوت دیتے ثالثین اسکو بخوشی قبول کر لیتے ۔جن فیصلوں میں ثالثان کو یہ ڈر ہوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فریقین دوران جرگہ کوئی غلط قدم اٹھائیں یا پھر فیصلہ سناتے وقت فیصلہ ماننے سے انکار کریں تو وہ فریقین سے جرگہ شروع کرنے سے پہلے ضمانت لیتے جسکو مقامی زبان میں شوینائی یا برآمتا کہا جاتا تھاضمانت کے طور پر بندوق جمع کرتے تھے اور جرگہ ختم ہونے کے بعد جب فیصلہ ہوجاتا تو یہ ضمانت متعلقہ افراد کو واپس کر دی جاتی تھی۔ جرگے میں شامل افراد ہر ممکن کوشش کرتے کہ تنازعہ کافیصلہ انصاف پر کرالیتے کیونکہ اگر ثالثین جرگہ ناانصافی پر کرتے تو علاقے میں ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی اور لوگ انکو برے الفاظوں میں یاد کرتے اور انکی ناانصافیوں کی مثالیں ہرجرگے میں دی جاتیں تھیں جسکی  وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں یہ بات زبان عام ہوجاتی ۔

اسکے علاوہ اگر  ثالثین کو دو فریقین کے درمیان جرگے کرنے کے زریعے صلح کرانے میں ناکامی کا سامنا ہوجاتا تو یہ بھی ان ثالثین کے لیے بڑی عیب کی بات ہوتی اور خدا ناخواستہ اگر اس تنازعہ  کے باعث فریقین کے درمیان کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجاتا تو معاشرے میں اسکی ذمہ داری بھی جرگے میں شامل ثالثان پر ڈال دی جاتی اور انکو اس ناخوشگوار واقعے کا قصور وار ٹھہراتے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت انصاف پسند اور چیدہ چیدہ لوگ اس عمل سے وابستہ تھے اسکا مقصد صرف اللہ کی رضا اور علاقے میں اپنی بہترین ساکھ کو قائم رکھنا مقصود ہوتا تھا باقی اسکو کسی قسم کا لالچ نہیں ہوتا تھا کیونکہ دوران جرگہ انکے مختلف نخرے برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی لوگ انکو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور لوگ انکی باتوں پر اعتماد کیا کرتے تھے ۔

ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں سے ہمارا وزیرستان میں زمین کے ایک ٹکڑے پر تنازعہ چلا آرہا ہے پچاس لاکھ سے زائد خرچہ ہونے کے بعد اب تک تنازعہ کا حل تو دور کی بات اس تنازعہ کے فیصلے کے لیے ایک قدم تک بھی نہیں اٹھایا گیا دریافت کرنے پر انکا مزید کہنا تھا کہ پہلے ضمانت کے نام پر ہم سے ایک ایک لاکھ روپے لیے اسکے بعد پہلے جو ثالثین ضلعی انتظامیہ نے دئیے وہ آجاتے اور مہلت دیکر خالوت لے کر چلے جاتے یہ سلسلہ کئی مہنوں تک جاری رہا اور آخر کار لاکھوں روپے سمیٹنے کے بعد انھوں نے موقف اپنایا کہ یہ فیصلہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ہم تکیہ لیتے ہیں اور آپ لوگوں کے فیصلے کے لیے مزید تگڑے ثالثان کا انتخاب کرتے ہیں ۔اور یوں اس نے تکیہ لیا اور نئے ثالثان نے ہمارے ساتھ وہی کیا جو انھوں نے کیا آخر میں انکا بھی یہی جواب آیا کہ کہ ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہورپارہا اس لیے شریعت کے رو سے ہی اس تنازعہ کا فیصلہ ممکن ہے ہم تکیہ لیتے ہیں آپ کا فیصلہ فلانے قاضی اور اسکے ساتھ دو وزیر ہونگے وہی کرینگے ۔قاضی جوکہ مدرسے سے قاضی کی ڈگری حاصل کرنے ساتھ ساتھ وہ مقامی روایات کو بھی جانتا ہو وہی قضاوت کرسکتا ہے جو کہ چیدہ چیدہ لوگ ہوتے ہیں ۔قاضی صاحبان کے نخرے اور انکے خرچے برداشت کرنے کے بعد آخر ایک فریق نے اٹھ کر اس پر اعتراض کر دیا اور فیصلہ کرنے سے پہلے ہی انکو معزول کر دیا یوں لاکھوں روپے اور ایک لمبہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے آغاز کیا تھا۔

 ۔نوجوان کی داستان سننے کے بعد مجھے کئی ایسی باتیں سننے کوملیں جو کہ ہمارے روایتی جرگے کا ماضی میں حصہ نہیں تھیں اور لالچی ثالثین نے اپنے جیب گرم کرنے کے لیے انکو جرگے کا حصہ بنا دیا۔ پہلا تو ضمانت کے طور پر پیسوں کا جمع کرنا کیونکہ ہماری روایات میں یہ بات شامل تھی کہ ضمانت کے طور پر فریقین سے بندوق کو بطور ضمانت لیا جاتا اسکی وجہ یہ تھی کہ بندوق ہمیں ہر چیز سے ذیادہ عزیز اور قیمتی ہوتی تھی بندوق کو ضمانت میں اس لیے جمع کیا جاتا کہ فریق کسی بھی صورت انصاف پر مبنی فیصلہ ماننے سے انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر اسکی بندوق ضبط ہوجاتی تو یہ اسکے لیے مرجانے کے مترادف ہوتا اسی لیے بندوق کو بطور ضمانت دینے والا شخص ضمانت دیتے ہی ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوجاتا کہ فیصلہ چاہے میرے حق میں ہو یا میرے خلاف بس اب میں نے فیصلہ ہی کرنا ہے۔ جب کوئی انسان ذہنی طور پر صلح کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو وہ صلح آسانی سے ہوسکتی ہے اور بندوق کو بطور ضمانت جمع کرنا ہی فریق کو ذہنی طور پر صلح کرنے کے لیے تیار کرنا ہوتا تھا ۔ اب اس ضمانت کو پیسوں میں تبدیل کرنا صرف ایک روایت کو بنیاد بناکر پیسے بٹورنے کا زریعہ تو ہے مگر مسلے کے حل میں انکا کوئی کردار نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ پیسے آنی جانی چیزہیں اور پیسے انسان کماتا ہی اپنی عزت بچانے کے لیے ہے اسی لیے اگر بطور ضمانت جمع شدہ رقم ضبط بھی ہوجائے تو یہ کسی بھی فریق کے لیے کوئی عیب کی بات نہیں ہو گی۔ البتہ وہ اپنے پیسوں کو بچانے کے لیے مختلف حربے استعمال کریگا ناکہ صلح کے لیے ۔اب چونکہ وہ بندوقوں کا زمانہ نہیں رہا لیکن بندوق کے متبادل اور کوئی ایسی چیز اگر بطور ضمانت جمع کی جائے جس سے فریق ذہنی طور پر فیصلے کے لیے راضی ہوسکیں تو یہ بندوق کا بہترین متبادل ہوگا ناکہ پیسے جمع کرنا۔ ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ جس فیصلے میں ضمانت جمع ہوجاتی ہے وہ فیصلہ آدھا ہوجاتا ہے ۔

دوسری بات جو اس نواجوان کی داستان میں سننے کو ملی وہ تھی تکیہ کیونکہ تکیہ کی ہمارے قبائلی جرگے میں اس سے پہلے کوئی حثیت نہیں تھی اور نہ تکیہ قبائلی جرگوں کا حصہ تھا ۔تکیہ کے معلومات کرنے پر معلوم ہوا کہ تکیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو ثالثین فیصلہ کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور وہ جرگے کے لیے نئے ثالثان کا انتخاب کرتے ہے تو نئے ثالثان کو خالوت کی شکل میں جتنی بھی رقم ادا کی جائے گی اتنی ہی رقم تکیہ اختیار کرنے والوں کو بھی دی جائے گی۔ ۔خالوت قبائلی جرگوں میں فیصلہ سنانے کے وقت دیاجاتا تھا لیکن اب لالچی ثالثان کی بدولت جب بھی نشست ہوتی ہے تب خالوت دیا جاتا ہے ۔

جرگوں میں یہ بگاڑ پیدا ہونے کے باوجود بھی آج بھی بے شمار ایسے لوگ ہیں جو کہ قبائلی اضلاع میں عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی جرگوں کے زرئعیے  فیصلہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔جرگہ نظام مہنگا ضرور ہوا ہے لیکن آج بھی لوگ اس نظام پر اعتماد کرتے ہیں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جرگے کے اس بگڑے ہوئے نظام کے باوجود بھی کئی ایسے فیصلے جو ہمارے یہاں کی عدالتیں نہ کر سکی اسکا فیصلہ جرگے کے زریعے ممکن ہوا ہے ۔جرگہ نظام میں بے شمار بگاڑ پیدا ہونے کے باوجود حکومت کو اگر آج بھی کوئی ایسا مسلہ درپیش ہوجاتا ہے جسکو حل کرنا چیلنج بن جاتا ہے تو حکومت بھی جرگہ کا سہارہ لیتی ہے ۔

جرگے نظام کو قبائلی اضلاع میں اگر فعال بنایاجائے تو یہاں پر بے شمار تنازعات جو کہ خونی تصادم میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ جرگہ نظام کو فعال بنانےکے بعد لالچی اور روایتی ملکان کو اسے دور رکھنے کی صورت میں ہی اس جرگے کے زریعے نہ صرف یہاں کے عوام کے مسائل حل ہونگے بالکہ لالچی اور مخصوص سرکاری ملکان کے کردار کے باعث جرگے کے نظام میں پیدا ہونے والا بگاڑ کا خاتمہ ہوسکے گا اور عوام کا اس پر اعتماد بحال ہو گا ۔جرگے نظام کو موثر بنانے کے لیے جرگے کو طاقتور بنانے کی ضرورت ہوگی اگر کوئی جرگہ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے تو اسکے خلاف کاروائی کرنے کے اختیارات اگر جرگہ کرنے والوں کے پاس ہوں تو انکے دیرپا مثبت نتائج ہوگے اور اگر جرگہ کٹھ پتلی اور بے اختیار ہوگا تو اسکے منفی نتائج ہونگے ۔جرگے کا جدید شکل ڈی آر سی ہے۔ بہترین اوصاف رکھنے والے اور جرگے نظام سے واقف افراد پر مشتمل اگر ڈی آر سی تشکیل دی جائے تو اسکے باعث کئی مسائل پر باآسانی قابو پایا جا سکے گا۔ ڈی آر سی کی تشکیل اور اسکو فعال بنانے کے لیے صوبائی حکومت اور بالخصوص آئی جی پولیس کو اس میں ذاتی دلچسپی لینی ہوگی۔العرض فعال ،بہترین اوصاف امیج رکھنے والے افراد پر مشتمل ڈی آر سی کے قیام میں ہی یہاں کے کئی مسائل اور بالخصوص زمینی تنازعات کا حل مزمر ہے ۔

وزیرستان میں سیاحت کا فروغ معاشی انقلاب کا ضامن

دہشت گردی کی وجہ سے آئے روز خبروں کی شہ سرخیاں بننے کی وجہ سے شہرت یافتہ وزیرستان کا شفاف منفرد اور خوبصورت چہرہ جو کہ دہشت گردی کے دھویں میں مکمل طور پر دھندلا ہوگیا تھا اور ہر کسی کے نظر سے اوجھل تھا آرمی کے کامیاب اپریشن کے باعث وہ دنیا کے سامنے نمودار ہوا ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ جو وزیرستان دہشت گردی کے خبروں کی وجہ سے شہ سرخیوں کا حصہ رہتا تھا وہ خوبصورت قدرتی نظاروں اور جنت نظیر وادیوں کی وجہ سے سیاحت کے حوالے سے شہ سرخیوں کا حصہ بنتا گیا سوشل میڈیا اور مین۔سٹریم میڈیا سمیت دیگر فورمز کے زریعے وقتا فوقتا ان خوبصورت نظاروں کی تصاویر ویڈیوز اور تعریفیں ہونے لگی جس کو دیکھتے ہوئے سیاحت کے شوقین افراد جو قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے دیگر مقامات جایا کرتے تھے ان کا رخ دیرے دیرے وزیرستان کی جانب ہونے لگا اور اس سلسلے میں جس تسلسل اور تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا وہ ناقابل یقین ہے اس سلسلے کو شروع کرنے کے لیے مقامی میڈیا ورکر سوشل ایکٹیویسٹ مقامی نوجوانوں نے بہترین اور مثبت کردار ادا کیا ۔پاک آرمی نے سیاحت کی طرف توجہ مبزول کرانے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا مقامی مشران نوجوان صحافی سوشل ایکٹیویسٹ کو بہترین انداز میں موٹیویٹ کیا اس موٹیویشن میں جنوبی وزیرستان میں تعینات ہونے والے دونوں آئی جی ایف سی سیز جس میں میجر جنرل عابد لطیف اور میجر جنرل اظہر اقبال عباسی شامل ہے اسکے ساتھ ساتھ ایف سی سیکٹر ہیڈ کوارٹر ٹانککے سکٹر کمانڈرز جس میں بریگیڈیر امتیاز اور بریگیڈئیر نیک نام شامل ہے نے جس انداز سے محسود قبائل کے دیگر مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ سیاحت کو فروغ دینے کےلیے محسود قبائل کی اس طرف توجہ مبزول کرائی وہ بھی بہترین اہمیت کی حامل رہی جسکے بدولت ٹانک ڈیرہ اسمعیل اور دیگر ملحقہ شہروں سمیت سندھ پنجاب اور بلوچستان سے بھی سیاحوں کا وزیرستان آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس سلسلے میں اتنی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا کہ اس عیدالضحی کے دنوں میں شوال مکین رزمک اور دیگر خوبصورت مقامات پر سیاحت کے عرض سے آنے والےلاتعداد افراد کی وجہ سے کئی کئی کلومیٹر تک ٹریفک جام رہا ایک محتاط اندازے کے مطابق اور نیم درج شدہ سرکاری اعدا و شمار کے مطابق صرف مکین اور شوال کے لیے آنے والے سیاح 25 سے 30ہزار گاڑیوں پر مشتمل تھی یہی وجہ تھی کہ کئی کئی کلومیٹر تک ٹریفک جام رہا کیونکہ اسے پہلے کبھی بھی اتنی کثیر تعداد میں وزیرستان میں گاڑیوں کا داخلہ نہیں ہوا ہے اس تعداد سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں پر سیاحوں کے لیے رہنے کی بدوبست معیاری ہوٹل اور تفریحی مقامات پر جدید سہولیات نہ ہو پھر بھی اتنی کثیر تعداد میں لوگ وہاں آتے ہیں تو اگر وہی پر یہ سارے انتظامات مہیا کیے جائے تو پھر یہ تعداد کہا تک پہنچ سکتی ۔باہر سے آنے والے ان سیاحوں کو دیکھتے ہوئے مقامی لوگوں نے اب مختلف مقامات پر رہائش کے لیے ٹوٹی پھوٹی ریسٹورینٹ سمیت کھانے پینے کے ہوٹلز کے بندوبست کئے لیکن اب بھی سیاحوں کو وہ سہولیات میسر نہیں ہے جو کہ دیگر سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو میسر ہوتے ہیں ۔اگر مقامی افراد کی سیاحت کی طرف توجہ مبزول کرانے اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مختلف طبقات ذندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو موٹیویٹ کا کرنا کایہ سلسلہ اسی طرح جاری رہااور ساتھ میں سیاحوں کو بھی سہولیات مہیاں کرنے کے ساتھ ساتھ تفریحی مقامات کو جدید طرز کے طور پر استوار کیا گیا تو جنوبی وزیرستان کی سیاحت نہ صرف وزیرستان بالکہ پورے قبائلی خطے میں معاشی انقلاب لانے کا زریعہ بن سکتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے پھر بھی غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح پاک آرمی نے اس شعبوں کو فروغ دینے کے لیے اب تک جو کردار ادا کیا اسی طرح اور اسی انداز میں سیول حکومت بھی اپنا کردار ادا کریں تو اسکے بھی اسے ذیادہ مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔