D

ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل جاری

ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل جاری

عقیل یوسفزئی

خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی کے مسائل اور چیلنجز کے باوجود ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل کامیابی سے جاری ہے اور متعلقہ ادارے اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ اس اہم پراسیس کے دوران عوام کو اعتماد میں لیکر زیادہ سے زیادہ شہریوں کے اندراج کو ممکن بنایا جائے. اس عمل کو پرامن بنانے کے لیے کے پی پولیس نے اس کے باوجود ہزاروں کی اپنی نفری مردم شماری ٹیموں کی حفاظت کے لیے تعینات کی کہ صوبے کو امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے.
خوش آیند بات یہ ہے کہ ایک واقعے کے بغیر تاحال اس تمام پراسیس کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور عوام بھی کافی تعاون کررہے ہیں. خیبر پختون خوا بالخصوص اس کے قبائلی اضلاع کے لیے اس عمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے. اس سے قبل یہ علاقے چونکہ حالت جنگ میں رہے اور لاکھوں افراد گزشتہ مردم شماری سے بدامنی اور نقل مکانی کے باعث محروم رہ گئے تھے اس لیے ان علاقوں پر موجودہ مردم شماری کے دوران خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے.
اس سلسلے میں مختلف پارٹیوں پر مشتمل ایک گروپ متعدد بار پریس کانفرنسوں اور مظاہروں کے دوران یہ اعلانات بھی کرچکا ہے کہ اگر قبائلی علاقوں میں پرانی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کرائے گئے تو عوام اس کا بائیکاٹ کریں گے. اس گروپ کے مطابق قبائلی اضلاع کی آبادی موجودہ ڈیٹا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور نئے انتخابات جاری مردم شماری ہی کی بنیاد کئے جائیں. ان کا یہ موقف بالکل درست ہے اور متعلقہ اداروں کو اس موقف اور مطالبے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے.
اس اہم پراسیس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے لازمی ہے کہ شہریوں کے علاوہ اساتذہ، علماء، سوشل ورکرز اور سیاسی قیادت بھی عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ اندراج کو یقینی بنایا جاسکے اور صوبے کے پارلیمانی اور اقتصادی حقوق، حصہ داری کو ممکن بنایا جائے.

آرمی چیف کا دورہ وزیرستان اور فورسز کی کارروائیاں

آرمی چیف کا دورہ وزیرستان اور فورسز کی کارروائیاں

عقیل یوسفزئی

آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا جہاں کور کمانڈر پشاور اور دیگر اعلیٰ حکام نے ان کو علاقے کی سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی اور ساتھ میں ان ترقیاتی منصوبوں سے بھی آگاہ کیا جو کہ فانا مرجر کے بعد مختلف علاقوں میں جاری ہیں۔ فوج کے ادارہ برائے تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف نے امن وامان کے قیام میں کامیابی پر فورسز کی قربانیوں اور کردار کو سراہتے ہوئے عوام کی قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش کی اور یقین دلایا کہ علاقے میں مستقل امن کے لئے عوام کے تعاون سے تمام اقدامات کئے جائیں گے۔
آرمی چیف کے مطابق کسی کو بھی امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس ضمن میں پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے بلکہ فورسز قربانیاں بھی دے رہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کشیدگی اور بدامنی سے دوچار علاقوں کی تعمیر نو اور ترقی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جارہی ہے۔
اس سے قبل آرمی چیف بلوچستان کے علاقے گوادر بھی گئے تھے جو کہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل پریکٹس ہے کہ یہ علاقے بوجوہ نہ صرف شورش کا شکار رہے ہیں بلکہ اب بھی بعض اندرونی اور بیرونی قوتوں کی کوشش ہے کہ انتہائی اہمیت کے حامل ان علاقوں کو بے چینی اور بدامنی سے دوچار کیا جائے۔
آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے ایسے دوروں سے عوام کو تحفظ کا احساس ہوجاتا ہے اور ان کو یہ یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ ریاست ان کے مسائل اور معاملات سے بے خبر یا لاتعلق نہیں ہے۔
جس روز آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور وزیرستان گئے اسی روز فورسز نے ایک کارروائی کے دوران 8 حملہ آوروں کو نشانہ بنایا جبکہ اس سے قبل بھی متعدد مطلوب افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا جن میں ایک اہم کمانڈر رشید کی ہلاکت بھی شامل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور ریاستی اداروں کو اندرونی اور بیرونی پروپیگنڈے کی پیچیدہ صورتحال سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے تاہم ان تمام معاملات سے نمٹنے اور نکلنے کے لیے تمام اداروں، سیاسی قوتوں اور عوام کو متحد ہونا پڑے گا کیونکہ چیلنجز کی نوعیت بہت پیچیدہ اور حساس ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے دوران بعض سیاسی قوتیں دباؤ ڈالنے کے لیے نہ صرف قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہیں بلکہ وہ پاکستان کی فوج اور حساس اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا بھی کرتی آرہی ہیں جو کہ ایک نامناسب طرز عمل ہے۔جاری جنگ خطرے کے مخصوص حالات کے تناظر میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے لازمی ہے کہ منفی پروپیگنڈا اور ریاست مخالف بیانیہ سے گریز کیا جائے۔

قبائلی اضلاع کے عوام کا جایز مطالبہ اور مردم شماری

قبائلی اضلاع کے عوام کا جایز مطالبہ اور مردم شماری

عقیل یوسفزئی

مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین نے پشاور اور اسلام آباد میں پریس کانفرنسیں کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ نئے انتخابات جاری مردم شماری کی بنیاد پر کیے جائیں اور قبائلی علاقوں میں اس بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جائیں.
ان کے مطابق قبائلی اضلاع کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے تاہم گزشتہ مردم شماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں یہ 40 یا 50 لاکھ دکھائی گئی. جس کے باعث قومی اور صوبائی اسمبلی کے بہت کم حلقے ہمارے حصے میں آئے.
سچی بات تو یہ ہے کہ ماضی میں ان جنگ ذدہ علاقوں کے ساتھ جہاں دوسرے شعبوں میں ذیادتی ہوتی رہی وہاں ان کی آبادی کو کم دکھاکر ان کی نمائندگی کم کی گئی اور یہ رویہ انضمام کے بعد بھی جاری رہا.
گزشتہ مردم شماریوں کے دوران ان علاقوں میں دہشت گردی اور اس دوران نقل مکانی جیسے مسائل کے باعث لاکھوں لوگ رجسٹرڈ نہیں ہوسکے. اب چونکہ حالات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اس لیے ان کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کا ازالہ کیا جائے.
نہ صرف یہ کہ ان علاقوں میں ساتویں مردم شماری کے تحت نئے حلقوں کی تشکیل کی جائے بلکہ حلقوں کی تعداد بڑھانے پر بھی توجہ دی جائے. ساتھ میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ان شورش زدہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز جاری کرکے ترقیاتی منصوبوں کا عمل تیز کیا جائے تاکہ جن مقاصد کی حصول کیلئے فاٹا مرجر کا تاریخی اقدام اٹھایا گیا تھا وہ مقاصد پورے ہوں.

نئے انتخابات واقعی بحران کا حل؟

نئے انتخابات واقعی بحران کا حل؟

عقیل یوسفزئی

پی ڈی ایم نے خیبر پختون خوا سے قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر اعلان کردہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا ہے. پیپلزپارٹی اور اے این پی اگر چہ اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں مگر ان پارٹیوں نے بھی ایسا ہی ایک فیصلہ کیا ہوا ہے. دوسری طرف تحریک انصاف نہ صرف عام انتخابات کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے بلکہ اس کا موقف ہے کہ پاکستان میں جب تک نئے الیکشن نہیں ہوتے اس کی مزاحمت اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا. عمران خان نے متعدد بار یہ بھی کہا ہے کہ اگر اب کے بار ان کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوتی یا باالفاظ دیگر ان کو یہ نہیں دلوائی جاتی تو وہ سادھا اکثریت والے نتائج کی بنیاد پر اقتدار نہیں سنبھالیں گے.
عوام اور سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ عمران خان نے پختون خوا اور پنجاب کی اسمبلیاں اور اپنی حکومتیں توڑ کر نہ صرف یہ کہ اپنے پاوں پر خود کلہاڑی ماری ہے بلکہ پریشر ڈالنے کے لئے انہوں نے سیکیورٹی چیلنجز کو نظرانداز کرکے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.
حساس اداروں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں جاری بدامنی اور چیلنجز کی بنیاد پر تجویز پیش کی ہے کہ صورتحال نارمل ہونے تک الیکشن کرانے سے گریز کیا جائے دوسری طرف کے پی پولیس کا بھی کہنا ہے کہ اسے تقریباً 50 ہزار کی مزید نفری درکار ہوگی. سیاسی جماعتوں کے اس موقف کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ اگر نتائج عمران خان کی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں نکلتے تو وہ انہیں تسلیم کرکے آرام سے بیٹھ جائیں گے.؟
وہ تو ہر قیمت پر اقتدار چاہتے ہیں اوران کو یہ گمان یا غلط فہمی ہے کہ وہ نہ صرف جیت سکتے ہیں بلکہ ان کے بغیر کسی اور کو سیاست اور حکومت کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے. یہاں سیکیورٹی کے چیلنجز کے تناظر میں اگر اعلیٰ عسکری قیادت کے اس فیصلے کا جائزہ لیا جائے کہ ملٹری سیاسی معاملات سے الگ رہے گی تو ایسے میں جہاں یہ فیصلہ قابل ستائش ہے وہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگر فوج الیکشن پراسیس کا سیکیورٹی کی حد تک حصہ بنتی ہے تو اس کے خلاف مسلسل الزامات لگانے اور پروپیگنڈہ کرنے والی تحریک انصاف کو منفی پروپیگنڈہ کا ایک اور موقع کیوں فراہم کیا جائے؟
اگرچہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز بعض حلقوں پر اپریل کے آخر میں ہونے والے انتخابات بھی بوجوہ ملتوی کردیئے ہیں تاہم یہ بات کافی تشویشناک ہے کہ تحریک انصاف عدالتوں کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر آرام سے بھیٹنے والی نہیں ہے اور وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے جس کی ظاہر ہے کہ اجازت نہیں دی جاسکتی.
سب سے بڑا مسئلہ اور سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا الیکشن ہی مسائل کا حل ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے. پاکستان کے مسائل اس قدر شدید شکل اختیار کرچکے ہیں اور اسی عمران خان نے ایک ایسا بحران پیدا کیا ہے کہ کوئی ایک پارٹی ملک کو ان مسائل سے نکالنے کی صلاحیت اور قوت نہیں رکھتی. جس انداز میں عمران خان اپنی سیاست اور مزاحمت کو آگے بڑھارہے ہیں اس طریقے کو وسیع تر تناظر میں کسی طور نہ تو مناسب قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس طرزِ سیاست کو برداشت کیا جاسکتا ہے.

Fq3Eb8xWcAA1vOX

معاشرے میں تشدد کا بڑھتا رحجان اور اس کے اثرات

معاشرے میں تشدد کا بڑھتا رحجان اور اس کے اثرات

عقیل یوسفزئی

ملک میں جاری سیاسی کشیدگی نے سماجی اور ذہنی طور پر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سطح پر تشدد کے واقعات اور منفی رویوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے. پشاور یونیورسٹی میں گارڈز کے ہاتھوں ایک استاد اور سیکیورٹی سپروائزر کی اموات اور اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں فائرنگ سےممتاز قانون دان لطیف آفریدی کی موت اس ضمن میں تازہ مثالیں ہیں.

گزشتہ روز لطیف آفریدی کی یاد میں منعقد ہونے والی ریفرنس میں متعدد اہم قایدین نے سماجی مسائل اور تشدد کے واقعات میں اضافے کو سیاسی کشیدگی اور بے چینی کا نتیجہ قرار دے کر اس پر تشویش کا اظہار کیا.
اس سے قبل پشاور کے ایک نجی سکول میں ایک پرچہ میں شامل مواد کے معاملے پر سینکڑوں سٹوڈنٹس نے جو توڑ پھوڑ کی وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا تاہم کسی نے بھی اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا اور اس وقت حالت یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی ایک ہفتے سے بند پڑی ہوئی ہے اور ہزاروں سٹوڈنٹس نہ صرف احتجاج اور بائیکاٹ پر ہے بلکہ ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہورہا ہے. بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو ہمارے رویوں نے عدم تحفظ کی بدترین صورتحال سے دوچار کردیا ہے اور کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے.
ایک مقبول پارٹی کے سربراہ نے ملک کی سیاست کو تلخی اور کشیدگی کی جس نہج پر ڈال دیا ہے اس کے اثرات بہت منفی انداز میں پورے ملک پر مرتب ہورہے ہیں اور اس تمام معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس سے ہماری نئی نسل ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے جو کہ پالیسی ساز اداروں، والدین اور اساتذہ کے لیے اب ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے.
سیاسی کشیدگی، بد امنی اور اقتصادی بدحالی نے سب کو پریشان کرکے رکھدیا ہے اس لیے لازمی ہے کہ تمام قایدین سیاسی اور گروہی مفادات سے ہٹ کر معاشرے کی تعمیر پر توجہ دیں اور ایندہ کی اپنی نسلوں کو مذید متاثر ہونے سے بچانے کی کوشش کی جائے.

babr

پاک افغان تعلقات، چند خدشات چند امکانات

پاک افغان تعلقات، چند خدشات چند امکانات

عقیل یوسفزئی

اسلام آباد میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز پیپس (PIPS) کے زیرانتظام پاک افغان تعلقات، دہشت گردی کی جاری لہر اور خطے کو درپیش چیلنجز، حالات پر بحث کے لیے ایک راونڈ ٹیبل کانفرنس یا مباحثہ کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان اور افغانستان کے اہم ترین متعلقہ افراد نے شرکت کرکے جاری صورتحال پر اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں.
جن متعلقہ صاحب الرائے افراد نے اس ایونٹ میں شرکت کی ان میں سابق سیکریٹری خارجہ ریاض احمد خان، نیشنل سیکورٹی کے سابق مشیر ناصر جنجوعہ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، افغانستان کے سابق سفیر اور وزیر عمر زاخیل وال، سابق افغان پارلیمینٹرین میرویس یاسینی، پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر، ممتاز قوم پرست لیڈر سینٹر افراسیاب خٹک، بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ، سابق پاکستانی سفیر منصور احمد خان، دفاعی تجزیہ کار انعام الحق، وحید ارشد کے علاوہ ممتاز ماہرین اور تجزیہ کاروں امتیاز گل، طاہر خان، شہزادہ ذوالفقار، حسن خان، ہارون الرشید، افتخار فردوس، سمیع یوسفزئی، رفعت اورکزئی، احسان ٹیپو اور عصمت قانع شامل تھے.
ڈائریکٹر پیپس اور ممتاز تجزیہ کار محمد عامر رانا نے تمہید باندھتے ہوئے خطے کو درپیش چیلنجز اور امکانات، خدشات پر بحث کو حالیہ واقعات کے تناظر میں لازمی قرار دیا اور کہا کہ اس صورت حال کی مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ مستقبل کے حالات کا جائزہ لیا جاسکے.
فرحت اللہ بابر کے مطابق پاکستان کی افغان پالیسی کو دونوں ممالک کے عوام کے علاوہ ان ریاستوں کے منتخب نمائندوں اور فورمز کے ذریعے طے کرنا چاہیے تاکہ بداعتمادی کو کم کیا جائے اور ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے. افراسیاب خٹک کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان موجود بد اعتمادی کا ایک لمبا پس منظر موجود ہے اور ہم نے افغانستان کے عوام اور منتخب اداروں کی بجائے افراد اور گروہوں پر انحصار کرکے نہ صرف عوام کو بددل کیا بلکہ خطے میں کشیدگی اور بدامنی کی بنیاد بھی رکھی. عمر زاخیل وال نے ایونٹ میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2002 کے بعد کوشش کی گئی کہ پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی کے علاوہ اکانومی اور انتظامی سطح پر بہتر تعلقات کا آغاز کیا جاسکے مگر یہ کوششیں بعض رکاوٹوں اور نان ایشوز کے باعث کامیاب نہ ہوسکیں.
ڈاکٹر قبلہ ایاز کے مطابق دونوں ممالک کے علماء نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف باجرات موقف لیکر ریاستوں کے درمیان بعض مسائل اور غلط فہمیوں کے خاتمے کیلئے اہم کردار ادا کیا اور اب اس پراسیس میں قبائلی عمائدین اور مشران کو بھی شامل کیا جارہا ہے.
ناصر جنجوعہ نے کہا کہ 20 سالہ جنگ، دہشت گردی اور عالمی طاقتوں کی ٹکراو سے جو مسائل پیدا ہوگئے ہیں ان کو مہینوں میں ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم پالیسیوں میں ابہام نہیں ہونا چاہیے اور عوام کی آراء کو اہمیت دینی چاہیے.

ریاض احمد خان نے اس موقع پر کہا کہ خطے کو دہشت گردی سمیت مختلف دیگر چیلنجز کا سامنا ہے جس کے باعث کروڑوں عوام متاثر ہورہے ہیں اس لیے نئے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے. میجر جنرل (ر) انعام الحق کے مطابق ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی دونوں ممالک کے درمیان مشکلات پیدا کررہی ہے پاکستان جاری دہشت گردی پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ افغانستان کی حکومت حملہ آوروں کو لگام دینے کے لیے اقدامات کر پائے گی. منصور احمد خان کے مطابق ہماری افغان پالیسی عوام دوست ہونی چاہیے تاکہ عوام کو قریب لاکر بدامنی اور بداعتمادی کو کم کیا جاسکے اور اس مقصد کیلئے تجارت اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے.
ڈاکٹر اسحاق بلوچ نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پاکستان بالخصوص بلوچستان کے حالات پر ہر وقت اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور اب کے بار بھی نہ صرف یہی کچھ ہوا بلکہ بدامنی میں اضافے کے پیچھے بھی یہی فیکٹر کارفرما ہے.سمیع یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان کسی کی رائے، تعاون یا تحفظات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور پاکستان نے بھی ان سے غیر ضروری توقعات وابستہ کیں. امتیاز گل نے بتایا کہ پالیسیوں میں نہ صرف تسلسل ہونا چاہیے بلکہ ان کی سمت بھی واضح ہو ورنہ نہ صرف بدامنی بلکہ بداعتمادی میں بھی اضافہ ہوگا.

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بلوچستان میں تحریک طالبان پاکستان اور بعض مزاحمتی بلوچ گروپوں میں مشترکات اوران کی بنیاد پر مشترکہ کارروائیوں کے شواہد ملے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج بن رہا ہے. افتخار فردوس نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش اور بعض دیگر گروپ بھی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اگر جاری صورتحال کا نوٹس نہیں لیا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے. رفعت اورکزئی کے مطابق پاکستان بدترین حملوں کی ذد میں ہے، پختون خوا پولیس بہادری سے ڈٹی ہوئی ہے اور فورسز کی کارروائیاں بھی جاری ہیں تاہم افغانستان کی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیے. طاہر خان نے ویزہ پراسیس کی سستی اور طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں پاکستان کو دیگر اقدامات کے علاوہ ویزہ پالیسی کو بھی آسان بنانے پر توجہ دینی چاہیے. حسن خان کے مطابق موجودہ حالات دونوں ممالک کے ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہے سب کو بدلتے حالات کے تناظر میں نئے امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ حالات اور بد اعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا. لیفٹیننٹ جنرل (ر) وحید ارشد نے ماضی کے تلخ واقعات اور تجربات پر بحث کی بجائے نئے اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات سب کی ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے اس لیے آگے بڑھ کر اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیکر اقدامات کئے جائیں تاکہ خطے کو پرامن بنانے کا راستہ ہموار ہو اور پراکسیز کا سدباب بھی ممکن ہوسکے.
تمام شرکاء نے اس ایونٹ میں دونوں ممالک کے درمیان تعمیری تعلقات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل اور بیانات سے اجتناب کیا جائے اور عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ مشترکہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور بدامنی کا راستہ روکا جاسکے.

Digital Census Pakistan 2023

ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری اور پختون خوا کے لیے اس کی اہمیت

ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری اور پختون خوا کے لیے اس کی اہمیت
عقیل یوسفزئی
پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میں ساتویں مردم شماری کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے. یہ ڈیجیٹل بنیاد پر ساوتھ ایشیا میں مردم شماری کرانے کا پہلا تجربہ ہے تاہم اس کی اہمیت دوسرے صوبوں کے بر عکس خیبر پختون خوا کے لیے اس حوالے سے بہت زیادہ ہے کہ ایک تو اس کا انعقاد کافی برسوں بعد ہورہا ہے اور دوسرا یہ کہ پچھلی مردم شماری میں بدامنی کے باعث ضم اضلاع کی بہت بڑی آبادی مردم شماری سے محروم رہ گئی تھی.
صوبائی حکومت نے نامساعد حالات کے باوجود اس پراسیس کو کامیاب بنانے کے لیے کافی موثر اقدامات کئے ہیں اور پولیس کے ہزاروں نوجوان اس عمل کو پرامن بنانے کے لیے تعینات کئے گئے ہیں.
دوسری طرف وفاقی حکومت نے 12 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے جس سے انتظامات کی مد میں بہت مدد ملے گی.
ماہرین کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران خیبر پختون خوا کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اس تناظر میں اگر عوام نے قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عمل میں حصہ لیا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کا راستہ ہموار ہوگا بلکہ این ایف سی ایوارڈ اور دیگر متعلقہ فورمز میں صوبے کے حصے میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوگا. کیونکہ صوبوں اور وفاق کے درمیان مردم شماری ہی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم اور دیگر اقتصادی اور انتظامی معاملات کی تقسیم کے فارمولے طے کئے جاتے ہیں.
سب سے اہم بات قبائلی اضلاع کی درست اور موثر مردم شماری کرانے کی ضرورت کی ہے جس پر حکومت، عوام اور سیاسی قیادت کو غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے.

کشیدگی کے باوجود سیاسی، ادبی اور علمی سرگرمیاں جاری

کشیدگی کے باوجود سیاسی، ادبی اور علمی سرگرمیاں جاری

عقیل یوسفزئی

اس میں کوئی شک نہیں کہ بوجوہ ہمارا ملک گزشتہ کچھ برسوں سے سیاسی کشیدگی کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث معاشی بحران بھی پیدا ہوگیا ہے اور عوام کو بے چینی کا بھی سامنا ہے تاہم یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ تمام مشکلات اور مسائل کے باوجود پختون خوا سمیت ملک کے ہر علاقے اور صوبے میں سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں جاری ہیں اور ساتھ میں سیکیورٹی کے حالات کو بہتر بنانے کے اقدامات بھی کئے جارہے ہیں.
ایک رپورٹ کے مطابق ماہ فروری میں کاونٹر ٹیررازم نے صوبہ پختون خوا کے تقریباً 14 اضلاع میں کارروائیاں کرتے ہوئے فورسز کو مختلف قسم کے حملوں میں مطلوب تقریباً 42 افراد کو ہلاک جبکہ 25 کو گرفتار کرلیا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فورسز کو عوام کے تحفظ کی مد میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور اپیکس کمیٹیوں نے پشاور حملے کے بعد اپنے دو اہم ترین اجلاسوں میں جو فیصلے کئے تھے ان پر عمل جاری ہے.
اگر چہ فروری میں بھی ایک کالعدم تنظیم کے حملے جاری رہے اور پختون خوا ہی زیادہ تر ان حملوں کا نشانہ بنتا رہا تاہم متعدد مجوزہ حملے ناکام بنانے میں متعلقہ ادارے کامیاب رہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں عوام امن کے حق میں مختلف ریلیوں اور اجتماعات کی شکل میں آواز اٹھاتے رہے وہاں صوبے میں مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا.
اس ضمن میں گذشتہ دنوں پشاور میں دوستی لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جو کہ تین چار دن تک جاری رہا. اس فیسٹیول میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، دانشوروں، صحافیوں اور فنکاروں نے شرکت کی جبکہ اس میں تعلیمی اداروں کے سینکڑوں سٹوڈنٹس شریک ہوئے. سب سے اچھی بات یہ رہی کہ ہر ایونٹ میں جہاں ماہرین نے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے وہاں ہر جگہ بک سٹالز بھی لگائے گئے. اس سے قبل مختلف طلباء تنظیموں نے بھی ایونٹس کا انعقاد کرتے ہوئے بک سٹالز لگادیے جو کہ انتہائی خوش آیند بات ہے. ممتاز دانشوروں اور لکھاریوں خورشید ندیم، ڈاکٹر گلزار جلال اور سکندر خان تنگی نے اس حوالے سے رابطے پر بتایا کہ پشاور لٹریچر فیسٹیول میں موضوعات کا انتخاب اور اس میں چار روز تک سٹوڈنٹس کی بھر پور شرکت اور دلچسپی ان کے لیے حیران کن تھی کیونکہ ان کے بقول جاری حالات میں اس طرح کے رسپانس کی توقع کم ہی کی جارہی تھی. ان ماہرین کے مطابق جن موضوعات پر باتیں کی گئیں وہ بہت منفرد ہونے کے علاوہ وقت کے تقاضوں اور چیلنجز سے متعلق موضوعات تھے.
دوسری طرف مختلف علاقوں خصوصاً قبائلی اضلاع میں درجن بھر کلچرل اور سپورٹس ایونٹس کا انعقاد کیا گیا جبکہ مالم جبہ سوات میں بھی سنو فال کے حوالے سے ایک منفرد ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں عوام اور سیاحوں کے علاوہ کور کمانڈر پشاور بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے. کور کمانڈر نے قبائلی اضلاع میں منعقدہ بعض جرگوں میں بھی اس دوران شرکت کی.
گزشتہ ہفتے امریکی سفیر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پشاور کا 3 روزہ دورہ کرکے جہاں امریکی اور عالمی اداروں کی جانب سے پختون خوا کے عوام خصوصاً نوجوانوں اور سٹوڈنٹس کے لیے اہم پیکجز کے اعلانات کئے وہاں انہوں نے مختلف ایونٹس میں شرکت کرکے عوام اور مختلف طبقات سے براہ راست بات چیت بھی کی اور متعدد مقامات کی سیر بھی کی. یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ پشاور اور صوبے کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے اور یہ کہ نا مساعد حالات اور سیکیورٹی مسائل کے باوجود نہ صرف زندگی رواں دواں ہے بلکہ معاشرہ آگے بھی بڑھ رہا ہے.
یہ بات قابل ستائش ہے کہ اگر ایک طرف امن و امان کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور سب کو سیاسی سرگرمیوں کی کھلی اجازت دیکر تحفظ فراہم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف صوبے میں سماجی، علمی، تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے. یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عوام میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہے بس ان کو مواقع ملنے چاہئیں.

22eac989-50a1-4d0e-b036-cbed2b2359c9

فورسز کی کارروائیاں، پروپیگنڈا مہم اور فتویٰ جواب فتویٰ

فورسز کی کارروائیاں، پروپیگنڈا مہم اور فتویٰ جواب فتویٰ

عقیل یوسفزئی

خیبر پختون خوا سمیت ملک کے بعض دیگر علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے اور ہفتہ رفتہ کے دوران بعض مبینہ خودکش حملہ آوروں سمیت متعدد دیگر مطلوب افراد کی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا جاچکا ہے.
لکی مروت، بنوں، وزیرستان، پشاور اور خیبر کے علاوہ راولپنڈی اسلام آباد میں نہ صرف کامیاب کارروائیاں کی گئی ہیں بلکہ خودکش حملوں کی تیاریاں کرنے والے بھی یا تو مارے گئے یا کارروائی سے قبل پکڑے گئے.

دوسری طرف پختون خوا حکومت نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے زمان پارک اور بنی گالہ میں تعینات 110 پولیس اہلکاروں سمیت ان سینکڑوں اہلکاروں کی واپسی کی ہدایات جاری کی ہیں جو کہ وی آئی پیز کی حفاظت اور پروٹوکول پر تھے. انسپکٹر جنرل پولیس کے مطابق ان کی تعداد 4500 بنتی ہے. یہ ایک اچھا اقدام ثابت ہوگا کیونکہ پشاور جیسے مرکزی شہر کو بھی پولیس کی کمی کا سامنا ہے.
دوسری طرف وزیرستان سمیت بعض دوسرے علاقوں سے تحریک طالبان پاکستان کے اندرونی اختلافات کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں جس کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر پاکستان میں حملوں کے معاملے پر فاصلے بڑھ گئے ہیں اور اس پر بحث جاری ہے کہ مفتی تقی عثمانی اور دیگر علماء کے فتووں کے بعد ان کارروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ان علماء نے قرار دیا ہے کہ پاکستان اپنے دستور اور نظام کے باعث ایک اسلامی ریاست ہے اس لیے یہاں جہاد یا قتال کی شرائط کے مطابق کارروائیوں کو جایز قرار نہیں دیا جاسکتا.
اس پیشرفت یا واضح موقف کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف اپنے سربراہ مفتی نور ولی محسود کا بیان جاری کیا بلکہ امارات اسلامیہ افغانستان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ کا ایک مبہم بیان بھی جاری کیا گیا جس کے بارے میں متعلقہ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کے اس زمانے کا ایک پرانا بیان ہے جب افغانستان میں امریکی فوج موجود تھی اور انہوں نے اسی پس منظر میں ایک موقف اختیار کیا تھا.
سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر تحریک طالبان پاکستان کے طریقہ کار اور تاثر کے مطابق یہ گروپ واقعی افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں تو قطر کے اس تحریری معاہدہ کی خلاف ورزی کا کیا جواز پیش کیا جاسکتا ہے جس کے مطابق افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی. اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ٹی ٹی پی اپنی بیعت یا حلف کی خلاف ورزی کررہی ہے. اس بحث اور فتووں نے ٹی ٹی پی کے بیانیہ کو جہادی حلقوں میں مشکوک بنادیا ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹی ٹی پی نہ صرف وضاحتیں پیش کررہی ہے بلکہ مورال بوسٹنگ کے لیے فورسز پر حملوں کی ایسی اطلاعات بھی جاری کرتی دکھائی دیتی ہے جن کا حقائق سے تعلق نہیں ہوتا. سرکاری ذرائع کے مطابق فورسز کی حالیہ کارروائیوں کے دوران جن مبینہ حملہ آوروں کو گرفتار یا مارا گیا ان کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک تو یہ سب بہت عمر تھے اور دوسرا یہ کہ یہ منشیات استعمال کرنے کے عادی ہوتے تھے. اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس یا تو جنگجوؤں کی قلت پڑ گئی ہے یا حالیہ بحث اور فتووں کے بعد اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ ان کا منشیات استعمال کرنے والے کم عمر لڑکوں پر انحصار بڑھ گیا ہے.

oth

نگران صوبائی کابینہ کی تشکیل اور چیلنجز

نگران صوبائی کابینہ کی تشکیل اور چیلنجز

عقیل یوسفزئی

خیبر پختون خوا کی 15 رکنی نگران کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ بہت جلد وزارتوں کی تقسیم کا مرحلہ بھی طے ہوجائے گا. اگر چہ تجزیہ کار کابینہ کی تعداد اور اس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی شمولیت پر اعتراضات اٹھارہے ہیں اور تحریک انصاف نے اسے پی ڈی ایم کی کابینہ کا نام دے رکھا ہے اس کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ کابینہ کی تکمیل کا کام کسی ڈیڈلاک کے بغیر انجام پا چکا ہے.
اب اس نگران حکومت نے ڈیلیور کرتے ہوئے صوبے کو درپیش چیلنجز خصوصاً سیکیورٹی معاملات، وفاق کے ذمے صوبے کی بقایا جات کی وصولی اور گورننس کے مسائل کا حل نکالنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے.
اگر چہ اس حکومت کا بنیادی کام وقت پر انتخابات کا انعقاد ہے تاہم صوبے کے مخصوص حالات کے تناظر میں مذکورہ بالا معاملات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا.
فوری طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلاکر سیکیورٹی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے اور فورسز کی پشت پر کھڑا ہوا جائے اور دوسرا کام یہ کیا جائے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیکر وفاقی حکومت سے فنڈز کی فوری فراہمی کا مطالبہ منوایا جائے.