Senior journalist Hafiz Sanaullah passes away

استاد محترم ہم شر مندہ ہیں

Senior journalist Hafiz Sanaullah passes away

محترم استا د جنا ب حا فظ ثنا اء للہ صا حب جبکہ آپ اس دار فا نی سے رحلت کر چکے ہیں تو لو گ آپ کی بحیثیت صحا فی اور استا د خد ما ت عظمت، شرافت اور معیا ری صحا فت کے قصیدے پڑھتے تھکتے نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سیا سی جما عتو ں کے رہنما وٗں نے آپ کی وفا ت پر تعزیتی آخبا ری بیا نات بھی دئیے ہو ں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ جن اخبا ری تنظیمو ں کے رکن تھے وہ کسی اور مقصد کیلئے بلا ئے گئے اپنے کسی اجلا س میں آپ کی روح کے ایصا ل ثواب کیلئے فا تح خوا نی بھی کر یں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی صحا فتی تنظیم یا ادارے کی جا نب سے آپ کی یا د میں کسی تعزیتی ریفرنس کا بھی اہتمام ہو جہا ں لو گ آپ کی خد مت، شرافت، عظمت خوداری اور قا بلیت کے گُن گا ئیں گے لیکن میر ے نز دیک آپ ایک نا کام صحا فی، نا کا م استا د اور نا کا م والد تھے۔
جہا ں 1988 تک اس صوبے کے طلباء صحا فت کی تعلیم حا صل کر نے کے لئے لا ہو ر اور ڈیرہ اسما عیل خان جا تے تھے تو آج بھی جا تے۔ آپ کو جا معہ پشاور میں شعبہ صحا فت قا ئم کر نے کی کیا ضرورت تھی اور وہ بھی گو رنر جنر ل فضل حق کی منت سما جت کر کے پھر شعبہ صحا فت کے قیا م کے سلسلے میں آپ نے جو تکا لیف اور مشکلا ت بر داشت کیں آپ کو کیا ضرورت تھی ایک بے حس قوم کے لئے اتنی مشکلا ت اپنے سر لینے کی؟
مجھے آج بھی یا د ہے کہ آپ کو انگلش ڈیپا رٹمنٹ سے متصل دو کمر ے دئیے گئے تھے جہا ں آپ پڑھا نے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحا فت کے دفتری اُمو ر نمٹا نے کے لئے بھی مصروف عمل رہتے۔ مجھے وہ دن بھی یا د ہے جب ہم میں سے ہر ایک طا لبلعلم یو نیو رسٹی کے ایڈ منسٹر یشن بلا ک سے ایک ایک کر سی اُٹھا کر شعبہ صحا فت لا یا تھا مجھے یہ بھی یا د ہے کہ ہما ری ایک کلا س انگلش ڈیپا رٹمنٹ سے متصل کمر ے میں تو دوسری کلا س شعبہ آرکیا لو جی میں ہو تی تھی۔ میں وہ بھی نہیں بھو لا کہ آپ کیسے لو گو ں کی منت سما جت کر کے ہمیں پڑھا نے کیلئے مجبو ر کر تے، مجھے یہ بھی یا د ہے کہ آپ کی کو ئی تنخواہ نہیں تھی اور آپ نے ایک جذبے کے تحت اس صوبے کے لو گو ں کو صحا فت کی تعلیم دلا نے کیلئے شعبہ صحا فت کی بنیا د رکھی تھی۔
مجھے یہ بھی یا د ہے کہ شروع شروع میں نصا ب کا خا کہ اور نصا بی کتب نہ ہو نے کے با وجو د کس طر ح اپنے ذاتی تجر بے کی بنیا د پر عملی صحا فت سے روشنا س کرایا۔ میں نے بحیثیت اُستا د بحیثیت صحا فی اور بحیثیت ایک انسا ن آپ کوبہت قریب سے دیکھا کیو نکہ یو نیو رسٹی میں آپ نے پڑھا یا، سکھا یا پھر روزنا مہ دی پا کستان ٹا ئمز میں قریبا ایک سال صحا فت کی عملی تربیت بھی آپ سے حا صل کی اور پھر کچھ بر سوں تک عملی صحا فت سے وابسطہ رہا جہا ں مسلسل آپ سے ملنے کے مواقع ملتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ کس طرح ہماری تربیت کرتے تھے، کس طرح سمجھاتے تھے،مجھے آج بھی آپ کی کہی ہوئی ایک ایک بات یاد ہے آپ کہتے تھے کہ صحافی کی صرف ایک بھی ازم ہوتی ہے اور وہ ہے جرنلزم یعنی اصل صحا فی ہر قسم کی سیاسی، لسانی یا گروہی وابستگی سے بالاتر ہوتا ہے، مجھے یہ بھی یاد ہے جب ہم ہفتہ وارچھٹی پر گھر جاتے تو آپ ہمیں بتاتے کہ صحافی کی چھٹی نہیں ہوتی اور اگر کہیں آتے جاتے ہوئے اگر لوگوں کا ہجوم نظر آئے تو ہمیں گاڑی سے اتر کر دیکھنا چاہیے اور کسی حادثے یا واقعہ کی صورت میں معلومات اکٹھی کر کے گھر سے خبر دیا کریں۔ مجھے یہ بھی یا د ہے کہ آپ ہمیں سمجھا تے تھے کہ کسی بھی پر یس کانفرنس یا بریفنگ کے بعد کھا نے پینے کیلئے رکنے والے صحافیوں کی خبر تا خیر کا شکار ہوسکتی ہے لہذا خبرلے کر فوراً دفتر آنا چاہیے۔
حافظ صاحب مجھے آپ کی ایک ایک بات یاد ہے کچھ بھی نہیں بھولا مجھے آپ کے سارے قصے کہانیاں بھی یاد ہیں اور آپ کی خوداری کی داستانیں بھی یاد ہیں۔مجھے آپ کا بتایا ہوا یہ واقعہ آج بھی یاد ہے کہ وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے دوران جب سارے صحافی وزیراعظم کی تعظیم میں کھڑے ہوئے تھے تو آپ واحد صحافی تھے جو اپنی نشست پر بیٹھے رہے اور اس گستاخی کی پاداش میں آپ کو حوالات میں بند کر دیا گیا تھا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پاکستان ٹائمز کے ختم ہونے کے بعد آپ نے انگریزی کا اخبار فرنٹیئر سٹار نکالا اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ نے اخبار کیسے اور کیوں نکالا؟
جب آپ حیا ت تھے تب بھی میں دوستوں کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہو ئے کہتا تھا کہ حافظ صاحب ایک شریف النفس انسان ہے لیکن ایک کامیاب صحافی نہیں اور آج جب آپ اس دنیا میں موجود نہیں تو میں اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ ایک شریف النفس انسان ضرور تھے لیکن آپ ایک کامیاب صحافی، کامیاب استاد اور کامیاب والد بالکل ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ جنرل فضل حق سے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے قیام کی جگہ اپنے لئے کسی رہائشی پلاٹ یا پھر کا روبا ر کا مطا لبہ کر تے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ بھی دوسرے صحافیوں کی طرح وزیراعظم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے اور جیل نہ جاتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ کے ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل شاگرد آج آپ کے اخبار کے لئے لکھتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آپ بھی دوسرے اخباری مالکان کی طرح روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں ایک بار محکمہ اطلا عات کا چکر لگاتے اور اگر ضعیف العمری کے باعث خو د آنے سے لاچار ہوتے تو کم از کم اپنے بیٹوں سلمان اور نعمان کو محکمہ اطلاعات میں شعبہ اشتہارات کے افسران و عملے کے حضو ر حاضری لگانے کی تربیت ضروردیتے۔ اگر آپ ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آج آپ کے دونوں بیٹے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار نہ ہوتے، اگر آپ ایک کامیاب والد ہوتے تو آج آپ کے بیٹے دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل ہوتے اور اگر آپ واقعی ایک کامیاب صحافی ہوتے تو آج آپ کا اخبار سسکیاں لے کر صرف برائے نام اخبار نہیں بلکہ ایک کامیاب اخبار ہوتا۔ استا د محترم آپ کئی عشرو ں تک صحا فت اور درس و تد ریس سے منسلک رہے لیکن آپ کے پسماندگان آج بھی کرائے کی ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں اور یہی بحیثیت استا د، صحا فی اور والدآپ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میں بھی آپ کے ان ہزاروں شاگردوں میں سے ایک ہوں جو آج کئی صحافتی تدریسی، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، آپ کے یہی شاگرد مختلف اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ سوشل میڈیا کے لئے لکھتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے کبھی کسی کو آپ کے اخبار کیلئے لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
آپ کے بہت سارے شاگرد ایسے عہدوں پر فا ئیز ہیں کہ ان کے ایک اشارے سے آپ کے بے روزگار بیٹے رزق حلال کمانے کے قابل ہو سکتے تھے۔
آپ کے درجنوں شاگر د محکمہ اطلاعات میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور اگر وہ چاہتے تو کم از کم آپ کے اخبار کو اتنے اشتہارات تو ضرور ملتے جس سے آپ کے گھر کا چو لہاجلتا۔
میں نہیں جانتا کہ آپ کے اور شا گرد آپ کے با رے میں کیا احسا سا ت رکھتے ہیں لیکن کم از کم میں بہت شرمندہ ہوں کہ ہم سب آپ کے شاگر د آپ کے رفقا ئے کا ر، سیاستدان، معا شرہ اور ریاست آپ کو ایک ناکام صحافی، استاد اور ایک ناکام والد ثابت کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔