Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, April 20, 2024

افغانستان کے حالات اور پاک افغان تجارت

یہ بات اور عزم خوش آئند ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اور بار بار نہ صرف یقین دہانیوں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے بھی یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کی قربت میں مزید اضافہ ہوگا۔

گزشتہ دس روز کے دوران افغانستان بدترین دو طرفہ حملوں کی زد میں رہا۔ اطلاعات کے مطابق ان دس دنوں میں افغانستان کے 41 علاقوں بشمول کابل پر 492 حملے کیے گئے جن کے باعث افغان فورسز اور پولیس کے 416 اہلکاروں سمیت00 9 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ حملے نہ صرف طالبان کی جانب سے کیے گئے بلکہ افغان فورسز نے بھی کیے جن میں ہلمند کے علاقے سنگین کا وہ افسوس ناک حملہ یا واقع بھی شامل ہے جہاں افغان فورسز کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں درجنوں عام شہری نشانہ بنے جن میں سات بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف انٹرا افغان ڈائیلاگ کا راستہ دوحا معاہدے کے اس اعلان کے باوجود ہموار نہیں ہو رہا جس میں کہا گیا تھا کہ 10 مارچ 2020 کو اس کا آغاز ہوگا اس ضمن میں ہفتہ ہفتہ کے دوران پھر سے رابطہ کاری اور ملاقاتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل نے بعض دوسرے ممالک کے علاوہ گذشتہ روز پاکستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ قریشی سے ملاقاتیں کیں۔ امریکی سفارتخانے نے اپنے بیان میں ان ملاقاتوں کو جہاں مفید قرار دیا وہاں پاکستان کے کردار کو مثبت اور اہم قرار دے کر اس کی ستائش بھی کی۔ اگلے روز وہ قطر گئے جہاں عبدالغنی برادر کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں قیدیوں کی رہائی اور سیزفائر کے مسئلے کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہو سکی کیونکہ طالبان کا موقف اس حوالے سے سخت ہے۔ اسی ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی غنی برادر سے رابطہ کیا جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی نے لوگر میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران طالبان کو حقیقت قرار دے کر ان سے سیز فائر کا مطالبہ کرتے وقت یہ بھی کہا کہ بہت جلد قطر میں انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ آزاد سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی مہینے کوئی خبر اور اعلان متوقع ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا ماحول تیزی سے بہتر ہو رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف افغان امن کے لیے متحرک ہے بلکہ ہفتہ رفتہ کے دوران اس نے افغانستان کے مطالبے پر طورخم اور چمن کے سرحدیں تجارت کے لیے کھول دی ہیں جبکہ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی صادق خان نے اعلان کیا ہے کہ بہت جلد خرلاچی اور انگور اڈ ہ (جنوبی وزیرستان) کی بارڈر کھول دی جائینگی۔ اس سے قبل شمالی وزیرستان کی غلام خان سرحد بھی گزشتہ ہفتے کئی ماہ کی بندش کے بعد کھول دی گئی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں افغانستان کے سفیر عاطف مشال نے گزشتہ روز طورخم کا دورہ کیا جہاں انہوں نے دونوں اطراف کے متعلق حکام اور تاجروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور ساتھ میں یہ اعلان بھی کیا کہ بہت جلد کابل میں باہمی تجارت کے فروغ کے لیے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جائے گا جس میں تاجروں اور کاروباری طبقے کے علاوہ دونوں ممالک کے حکام بھی شرکت کریں گے تاکہ تعلقات اور تجارت کو فروغ دیا جائے ۔

دیکھا جائے تو یہ اعلانات اور اقدامات دونوں ممالک کے تعلقات اور تجارت کے فروغ کے علاوہ خطے کے معاشی استحکام اور اعتماد سازی کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اگر ان پر عمل کیا گیا تو اس سے خیبر پختونخوا کی معاشی ترقی کا راستہ بھی ہموار ہو جائے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ تجارت کو نہ صرف یہ کہ قانونی بنا کر بعض مافیاز کو اس پورے عمل سے باہر کیا جائے بلکہ سیاسی حالات اور روایتی کشیدگی سے تجارت کے عمل کو بچا کر رکھا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket