Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

وفاقی بجٹ کا ایک تقابلی جائزہ

سیاسی صحافی اور عوامی حلقوں کے علاوہ سرکاری حلقوں میں بھی وفاقی بجٹ پر مختلف قسم کے تبصرے جاری ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے حسب توقع اس بجٹ کو ملازم دشمن اور عوام دشمن قرار دے دیا ہے تاہم ایسا کہتے وقت اس اہم مسئلے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا کہ حالیہ بجٹ کن حالات میں تیار کیا گیا اور دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کو کن مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بجٹ کو کسی طور پر مثالی نہیں کہا جا سکتا تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ بدترین قرضوں اور اقتصادی مشکلات میں جکڑے پاکستان میں کوئی مثالی یا فلاحی بجٹ کیسے پیش کیا جا سکتا تھا؟ زیادہ تر اعتراضات دو تین شعبوں میں اعلانات پر سامنے آ رہے ہیں ۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ نہیں کیا گیا ۔یہ نکتہ اہم ضرور ہے مگر اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے کہ کرو نا بحران کے نتیجے میں کیا ایسا کرنا ممکن تھا اور یہ کہ کیا کرو نہ سے پیدا شدہ مسائل میں سرکاری ملازمین کیا وہ طبقہ نہیں ہے جو کہ دوسروں کے مقابلے میں مالی طور پر زیادہ فائدے میں اور محفوظ بھی رہا ۔ رہی بات سرکاری ملازمین کی اجتماعی کارکردگی کی تو یہ بات سب کو مان لینی چاہیے کہ اگر آج پاکستان کی اتنی بری حالت ہے تو اس میں ان ملازمین کی کارکردگی کا بھی بنیادی ہاتھ ہے ورنہ پرائیویٹ سیکٹر کی کامیابی کا تناسب دیکھا جائے۔

بجٹ پر دوسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے کم جبکہ دفاع کے لئے زیادہ رقم رکھی گئی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ دفاع اور باقی دو شعبوں کی اہمیت اور نوعیت بالکل الگ اور مختلف ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت اور تعلیم وفاق کی بجائے صوبوں کے پاس ہیں اور صوبے اپنے اپنے بجٹ میں ان شعبوں کے لیے فنڈز مختص کریں گے جبکہ دفاع مرکز کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے ان تینوں کا موازنہ کرنا ہی غلط ہے۔ دفاعی بجٹ میں غالباً 11 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ خطے کی خطرناک سیکیورٹی صورتحال میں وقت اور حالات کی ضرورت تھی تاہم معترضین نے یہ نقطہ نظر انداز کیا کہ متعدد دوسرے شعبوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا گیا ہے۔ مگر فوج کی مخالفت میں اعتراض اٹھانے والوں نے متعدد دوسرے سِول اداروں کے بجٹ میں ہونے والے اضافے کا فوجی بجٹ سے موازنہ گوارا نہیں کیا۔

معترضین کو دفاع کیلئے ساڑھے بارہ کھرب تو نظر آ رہے ہیں مگر ان کو 36 ہزار ارب کے وہ قرضے نظر نہیں آرہے ہیں جوکہ سابقہ حکومتوں نے لئے اور اب موجودہ بجٹ میں سود اور ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے 32 ارب کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنی رقم فوجی دفاع کے لیے رکھی گئی ہے اتنی ہی رقم یعنی 12 کھرب روپے کورونا ریلیف پیکیج اور طبی آلات کے لیے رکھی گئی ہے۔

بجٹ میں وفاقی محکموں کے اخراجات میں کمی لائی گئی ہے جبکہ نامسائد حالات کے باوجود اس بات سے قطع نظر کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجرا ءنہیں ہوا ہے صوبوں کے حصے یا شیئرز میں تقریباً 10 سے 13 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

اس مد میں صوبہ پختونخوا کو این ایف سی کے سلسلے میں 478 ارب روپے ملیں گے جبکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لئے 56 عر ب کی خطیر رقم رکھی گئی ہے ایسے میں اگر صوبہ پختونخوا حسب سابق بدانتظامی کے باعث خرچ نہیں کرتا تو اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی حالانکہ یہ مسئلہ ان سرکاری ملازمین اور بیوروکریٹس کی سستی اور نا اہلی کے باعث بار بار سامنے آتا رہتا ہے جن کو شکوہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں ان کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئی ہیں۔ اس دوران یہ فیصلہ بھی سامنے آیا ہے کہ آٹھ غیر فعال ادارے ختم کیے جائیں گے جبکہ 45 کی نجکاری کی جائے گی اور 35 مزید کو دوسرے اداروں یا محکموں میں ضم کیا جائے گا ۔ اگر اس فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ پہلے کرنا چاہیے تھا کیونکہ درجنوں ادارے یا تو بالکل کام نہیں کر رہے ہیں یا بعض کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے اور ایسا کرنے سے قومی خزانے پر بوجھ اور دباؤ کم ہو جائے گا ۔45 اداروں کی نجکاری کی جو تجویز سامنے آئی ہے وہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ایسا کرنے سے مزید سول اداروں کی نجکاری کے حوالے سے عملی تجربہ ہو سکے گا کیونکہ سرکاری اداروں کی مجموعی کارکردگی اور صلاحیت کو کسی بھی طور پر مثالی نہیں کہا جا سکتا ۔

حالیہ وفاقی بجٹ میں افغانستان کی بحالی میں مدد کے لیے دو ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ بہت اچھا پیغام اور قابل ستائش اقدام ہے۔ اس سے قبل پاک افغان اکنامک کوریڈور کے لیے 25 یا 35 ارب کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونگے ۔پاکستان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے وسائل کم ہیں۔ اصل مسئلہ وسائل کے درست استعمال، بیڈ گورننس اور کرپشن کا ہے اگر حکومت نے ان مسائل پر قابو پا لیا اور گورننس کے نظام کو بہتر بنایا تو بہت سے مسائل خود بخود کم یا ختم ہو جائیں مگر ہنوز دہلی دوراست۔۔۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket