Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, March 28, 2024

اداروں پر بے جا تنقید کن کی خواہشات کی تکمیل ہے؟

تحریر: شاہد خان

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے عدم اعتماد کی تحریک پاکستان کے پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہے عدم اعتماد کی کامیابی کا انحصار پارلیمنٹ کے ممبران پر ہے جس میں کوئی ایم پی اے، بیوروکریٹ، فوجی اور سول آدمی اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا نا اس کا فائدہ رہتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا فوج یا کسی بھی سیکیورٹی ادارے نے اس میں اپنا کردار ادا کیا؟ 

جواب بڑا واضح ملتا ہے ۔۔۔ نہیں

عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور بنانے میں سیکیورٹی اداروں کا کسی بھی قسم کا کردار سامنے نہیں آیا ہے۔ فوج کے ترجمان نے واضح انداز میں کہا کہ ہم کسی بھی طرح سیاست میں مداخلت نہیں کرتے۔

اگر کسی کے پاس درج بالا صورت حال میں سیکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے یا کردار ادا کرنے کے حوالے سے ثبوت ہے تو پلیز سامنے لے آئے۔۔۔

پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے کچھ ممبر اور اتحادی تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب یہ الگ سی بحث ہے کہ ان کو نون لیگ نے خریدا, یا پیپلز پارٹی نے۔ 

نا تو صدر جو بائیڈن نے ان منحرف اراکین کو کال کی تھی نا ہی سی آئی اے نے۔ نہ تو موساد نے ان کو پیسے دئیے تھے نا ہی برطانوی ایجنسی نے۔۔۔

نا تو فوج نے کسی کو کہا کہ آپ اس تحریک کا حصہ بن جائے نا ہی سپاہ سالار نے ان اراکین کو دعوت دی۔ 

ان منحرف اراکین کو آپ لوٹے کہیں یا غدار۔ آپ کی مرضی ہے فوج نے آپ کو منع نہیں کیا کسی ادارے نے آپ کو ان کے خلاف کیس کرنے سے منع نہیں کیا نا ہی کسی صحافی کو کسی سیکیورٹی ادارے کی جانب سے کال گئی کہ ان منحرف اراکین کو دودھ کے دھلے ثابت کیے جائے۔  

جو کچھ بھی ہوا سیاست دانوں کے اپنے سیاسی معاملات رہے۔۔۔

سوال ہوتا ہے فوج نے سیکیورٹی اداروں نے اس معاملے میں پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی مدد کی؟ 

بڑا واضح جواب بنتا ہے۔۔ نہیں 

اگر آپ عمران خان سے یہ سوال کریں تو ان کا جواب بھی ” نہیں” میں ہوگا۔ 

اگر آپ کہتے ہیں کہ مدد کی ہے تو واضح ثبوت سامنے لایا جائے۔ کوئی بھی آپ کو نہیں روکے گا۔۔۔ 

امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے ایک مراسلہ لکھا جس میں انہوں نے امریکی دفتر خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کے اندرونی گفتگو کو دھمکی آمیز قرار دے کر پاکستان کو آگاہ کیا۔ 

سفارتی سطح پر اس کا جو جواب بنتا تھا پاکستان نے دے دیا۔ 

عمران خان بطور وزیر اعظم نہ رہے یہ امریکی خواہش ہوسکتی ہے مگر تحریک عدم اعتماد آئین کے مطابق ایک عمل تھی پارلیمنٹ کے لوگوں نے اس میں اپنا کردار ادا کرنا تھا پارلیمنٹ کے ممبران نے اس میں اپنا کردار ادا کرنا تھا اور انہوں نے کیا۔۔۔

بتایا جائے عدم اعتماد کی اس تحریک میں ہمارے اپنے ملک کے سفیر کا مراسلہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے ؟ اگر کوئی کردار ادا کیا ہے تو ثبوت سامنے لایا جائے۔۔۔

اگر فوج یا کسی بھی ادارے نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو ثبوت سامنے لایا جائے۔ 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اسمبلی تحلیل کرتا ہے پاکستان کے صدر اس کی توثیق کرتا ہے اسمبلی خالی ہو جاتی ہے جہاں سے ملک کے معاملات چلتے ہیں معطل رہتا ہے عدالت میں درخواست سیاسی جماعت جمع کرتی ہے بینچ بنا دیا جاتا ہے جج صاحبان سے سیاسی جماعتیں اس جلد فیصلہ صادر کرنے کی اپیل کرتی ہیں اور عدالت بغیر کسی چھٹی کے کام کرکے فیصلہ صادر کرتی ہے۔ 

نا تو آرمی چیف نے جج صاحبان کو کال کی کہ آپ حق میں یا ان کے خلاف فیصلہ صادر کریں اور نا ہی ڈی جی آئی ایس آئی نے چیف جسٹس کو بلایا کہ آپ نے عمران خان کے فیصلے کو مسترد کرنا ہے۔ 

سارا عمل سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کے درمیان رہا۔۔۔ نون لیگ کا اپنا وکیل تھا۔ فوج کا نہیں تھا۔ پارلمینٹ میں تحریک عدم اعتماد سیاسی جماعتوں نے جمع کروائی جس میں 86 اراکین پارلیمنٹ کے دستخط تھے۔ کسی بھی سیکیورٹی کے ادارے کے فرد کے نہیں۔۔۔۔ 

اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے کیس عدالت میں چلا ملٹری کورٹ میں نہیں۔ فیصلہ جج نے دیا فوجی نے نہیں۔ 

اگر سیکیورٹی اداروں کے اس پورے پراسس میں کسی بھی قسم کے عمل کی مداخلت کی کوئی بھی کسی بھی قسم کی واضح ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے۔ 

کیا فوج اور اداروں پر تنقید کرنے والے کسی بھی طرح کا ثبوت سامنے لاسکتے ہیں ؟ 

نہیں ۔۔۔ ہرگز نہیں ہے ان کے پاس۔۔۔ 

مگر۔۔۔ ان سب کے باوجود جنرل فیض اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلافات کی منگھڑت پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ فوج کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فوج پر سارا ملبہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سر عام ان کو ٹویٹس اور بیانات میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ 

زرا سوچیئے! آپ کن لوگوں کے خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے اداروں کو بلا وجہ بغیر کسی ثبوت کے نشانہ بنا رہے ہیں؟ 

زرا سوچیئے۔۔۔۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket