26d19ea2-3bab-4475-8bee-36f4289bff3d

موسمی تبدیلیاں اور پاکستان

ماہرینِ موسمیات کے مطابق، پاکستان  اپنے محل وقوع کی وجہ سےشدید موسموں کے علاوہ اپنی آب و ہوا میں موسمی تبدیلیوں جیسا کہ بارش کے عجیب و غریب ادوار، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور خشک  سردی  وغیرہ  کے لیے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ حساس ہے۔ گزشتہ سال جاری ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ آئندہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کا درجہ حرارت 2.5 ڈگری سیلسیس بڑھے گا جس سے زرعی پیداوار کو بری طرح نقصان پہنچے گا۔ اگرچہ حکومت عمل میں تیاریوں کا دعویٰ کرتی  چلی آ رہی ہے لیکن خدشہ ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے ایک اہم خطرے کا  مستقل سامنا ہے۔

پاکستان بھر میں حالیہ سیلاب سے ملک کے متعدد علاقے زیر آب آگئے ۔ محکمہ موسمیات نے مہینوں پہلے  رواں  برس مون سون کے دوران سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں  موسلادھار بارشوں  اور ممکنہ شدید سیلاب کی پیش گوئی کی تھی مگر افسوس کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ صرف اس سلسلے میں بروقت اقدامات میں فیل ہوئیں بلکہ لاکھوں پاکستانی اس نا اہلی کی سزا آج اپنے گھر بار کی تباہی کی صورت میں بھگت ر ہے ہیں اور 1500 سے زائد جانوں کا ضیاع ایک الگ المیہ ہے۔

 خیبرپختونخوا اور سندھ کے بیشتر علاقوں سے  سامنے آنے والی فوٹیجز میں پریشان کن مناظر دکھائے دئیے اور اب تک سیلاب سے پاکستان میں ہونے والی تباہی کا جو تخمینہ سامنے آیا وہ 20 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ پاکستان کی زراعت کو بارشوں، سیلابوں اور گرمی کی لہروں کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلنے اور فصلوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ایک ناگزیر اثر یہ ہے کہ گرم موسم پاکستان کے خشک علاقوں میں گندم کی تشکیل کا مرحلہ زیادہ تیزی سے شروع ہونے کا سبب بنتا ہے۔ پروڈیوسرز اور ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ کے مطابق درجہ حرارت میں غیر متوقع تبدیلیوں اور پانی کی پابندیوں نے فصل کو متاثر کیا ہے۔ آبی وسائل کو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ملک کے پیداواری، گھریلو اور زراعت کے شعبے کو فوری طور پر پانی کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کے مطابق پاکستان مستقبل قریب میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اس سال سیلاب سے ہونے والی تباہی کو دیکھ کر یہ  اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے ضروری وژن  اور انتظامی صلاحیتوں دونوں کا شدید فقدان ہے۔ پانی کی کمی اور غلط واٹر میجنمنٹ دونوں ہی قوم کی بقا کے لیے نقصان دہ ہیں۔ پاکستان میں توانائی کے حالیہ بحران نے پہلے سے  اوور لوڈڈاور بگڑتے ہوئے گرڈ سسٹم کو معذور کر دیا ہے جو ملک بھر میں بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے آئندہ  سال  بھی میٹروپولیٹن علاقوں میں طوفانی بارشوں کے امکان کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا ہے جس میں ندی اور ندیوں کے سیلاب بھی شامل ہیں۔ انتہائی موسمی واقعات، بارشیں، خشک سالی، سمندری طوفان، اور سطح سمندر میں اضافہ میٹروپولیٹن علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں پر سنگین اثرہو گا۔ پاکستان کا گرم ترین شہر حیدرآباد ہوگا جس کے بعد جیکب آباد اور ممکنہ طور پر کراچی بھی شامل ہوگا۔ اس  سال  بھی سندھ اور بلوچستان میں بارشیں معمول سے بہت زیادہ ہیں  اور آئندہ سالوں میں بھی یہی رجحان جاری رہے گا۔ دنیا  کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ  پاکستان دنیا بھر سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق ملک میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران بارشوں کے باعث 1500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے عوامل ماحولیاتی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ جنگلات اور کاربن کے اخراج سے نمٹنے کے لیے ناکافی حکومتی اقدامات کی وجہ سے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج کا بہت زیادہ شکار ہے۔

موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر صنعتی انقلاب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل کوئلے کے دہن جیسے صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق موسمیاتی تبدیلی آزاد ریاستوں کی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارا سیارہ اور ماحول دونوں بدل رہے ہیں۔ شدید بارشوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کی چٹانوں اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔

فضا اور زمین پر زہریلے مادوں کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ زمینی پانی اور زمین پر کاشت کی گئی خوراک دونوں صنعتی فضلے سے آلودہ ہو چکے ہیں۔ اسی آلودگی کی وجہ سے خشک سالی اور سیلاب دونوں آتے ہیں جو موسم بدل رہی ہے۔ میٹ آفس کے مطابق، لوگ موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسیں چھوڑتے ہیں۔ کم از کم پچھلے 2 ملین سالوں سے، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ 20ویں اور 21ویں صدی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں 40% اضافہ ہوا۔ ماحول کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جنگلات کے ذریعہ پکڑا اور ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ان کے ہٹانے کے نتیجے میں، کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ تیزی سے جمع ہوتی ہے کیونکہ اسے بھگانے کے لیے کوئی پودے نہیں ہوتے ہیں۔ مزید برآں، جب ہم درختوں کو آگ لگاتے ہیں، تو ان کے پاس موجود کاربن ریل ہوتا ہے۔

پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ دنیا میں موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے   بحرانوں سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانے کے سلسلے میں دنیا کے ماہرین کو ایک کانفرنس میں بلائے جہاں  موسمی تبدیلیوں کے مضر اثررات سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت کے متعلقہ محکموں کے لیے ہدایات تیار کی جائیں، ان ہدایات کی روشنی میں مناسب قانون سازی کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ تمام لوگ ان قوانین کی پابندی کریں!