Fe2ms9mWAAAg42y

آئرلینڈ ویمنز کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا شیڈول جاری

آئرلینڈ کی ویمنز کرکٹ ٹیم تین ون ڈے انٹرنیشنل اور تین ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز پر مشتمل سیریز کھیلنے 4 سے 16 نومبر تک پاکستان کا دورہ کرے گی۔

آئی سی سی ویمنز چیمپئن شپ میں شامل اس سیریز میں قومی خواتین کرکٹ ٹیم اپنا پہلا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ 4 نومبر کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلے گی۔

آئرلینڈ  اسکواڈ 29 اکتوبر کو لاہور پہنچے گا، جہاں وہ چار روز ٹریننگ کے بعد 4، 6 اور 9 نومبر کو تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے گا۔ تین میچز پر مشتمل ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل سیریز 12، 14 اور 16 نومبر کو کھیلی جائے گی۔

ٹیکسلا: تھائی لینڈ کے ایک سو پچاس رکنی بدھسٹ وفد کا دورہ

خان پور عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل جولیاں اسٹوپہ میں تھائی لینڈ سے ایک سو پچاس رکنی بدھسٹ مونگز کی آمد مذہبی رسومات کی ادائیگی کی.

خان پور عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل جولیاں اسٹوپہ پر تھائی لینڈ سے بدھ مت تہذیب سے تعلق رکھنے والے ایک سو پچاس رکنی وفد کی آمد آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا کے سب ریجنل آفیسر ہزارہ نواز الدین ،مس سعید گل کیلاش ،اور راجہ عدنان نے مہمانوں کو اسٹوپہ آمد پر خوش آمدید کہا مس سعید گل نے وفد کو جولیاں اسٹوپہ کے بارے میں بریف کیا اور بدھا تہذیب کے بنے ہوئے مجسمے دکھائے بدھسٹ تہذیب سے تعلق رکھنے والے وفد نے جولیاں میں بدھا کے مجسمے دیکھے اور مذہبی رسومات ادا کیں۔

سب ریجنل آفیسر آرکیالوجی خیبرپختونخوا نواز الدین نےبتایا کے گندھارا سیولائزیشن مختلف مذاہب کے لیے مقدس مانا جاتا ہے اسی لیے کے پی گورنمنٹ نے نے ریلییجس ٹورازم کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹورسٹ پاکستان آئیں اور اپنے مذہبی مقامات کا دورہ کر سکیں۔ کے پی گورنمنٹ کی جانب سے ٹوریسٹ کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں.

سوات میں عوامی مظاہرے، حکومتی موقف اور درپیش چیلنجز

سوات میں عوامی مظاہرے، حکومتی موقف اور درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی

سوات میں بعض واقعات کے بعد عوام نے مبینہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف مظاہرے کئے جن میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی تقریروں میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرامن احتجاج کرنا عوام اور سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے اور امن کو برقرار اور یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم اس بات کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ درپیش چیلنجز کے تناظر میں متعلقہ ریاستی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ امن دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ریاستی اداروں کو عوامی حمایت حاصل ہو.
سوات سمیت پورے خیبر پختون خوا میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں افغانستان کے حالات کے تناظر میں غیر متوقع نہیں ہیں تاہم ماضی کے مقابلے میں مجموعی طور پر صورتحال کافی بہتر ہے اور مختلف علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں. جس روز سوات میں عوام نے احتجاج کیا اس سے ایک روز شمالی وزیرستان میں ایک کارروائی کے دوران 2 مطلوب دہشت گردوں کو مارا گیا جبکہ اس سے قبل پشاور میں بھی متعدد کو ہلاک کیا گیا تھا. ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس خیبر پختون خوا میں 100 سے زائد ٹارگٹڈ آپریشن کئے گئے ہیں جبکہ حملوں کے دوران سب سے زیادہ کارروائیاں فورسز خصوصاً پولیس کے خلاف کی گئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فورسز ہی کو زیادہ قربانیاں دینی پڑی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فورسز امن کے قیام کے لئے مسلسل کارروائیاں کرتی ارہی ہیں. ایسے میں لازمی ہے کہ ردعمل کے دوران ذمہ داری اور احتیاط سے کام لیا جائے.بعض حلقوں کی جانب سے فورسز کو بعض واقعات کے تناظر میں موردِ الزام ٹھرانے سے جھاں بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں وہاں امن مخالف قوتوں کو فائدہ اٹھا نے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں. معاشرے میں ایسے ہی حالات اور بدگمانیاں قومی اتحاد اور مشترکہ موقف کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنتی ہے اس لیے بعض واقعات کو بنیاد بنا کر امن دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچانے سے گریز نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ناگزیر بھی ہے۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ پراکسیز کی مختلف حربوں کے دوران ہمیشہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں اور بدگمانیاں پیدا کی جائیں.
ایسا نہ ہو کہ ہم غیر ارادی طور پر کسی ایسی مہم کا حصہ بن جائیں جس سے قومی اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو. تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لیکر ان کے خدشات دور کرے. ترجمان محمد علی سیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوات کی صورت حال قابو میں ہے اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہے تاہم دوسری طرف اسی پارٹی کے مرکزی رہنما مراد سعید کچھ اور کہتے دکھائی دے رہے ہیں اور وہ کھلے عام ریاستی اداروں کو جاری صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں. ان کو اگر ریاستی اداروں کی کسی پالیسی سے واقعتاً کوئی اختلاف ہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت متعلقہ فورمز استعمال کرے کیونکہ امن قائم رکھنا بنیادی طور پر صوبائی حکومت ہی کا کام ہے. غیر ذمہ دارانہ بیانات اور الزامات سے یہ لوگ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے.
میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کو بھی ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ بعض مواقع پر کسی واقعے کی یکطرفہ تشہیر اور پروپیگنڈا کا استعمال بہت بڑے اجتماعی نقصان کا سبب بن سکتا ہے اور بن رہا ہے۔

شمالی وزیرستان: تحصیل شیواہ میں گیس پروڈکشن پلانٹ لگایا جائے گا

شمالی وزیرستان: گیس پروڈکشن پلانٹ تحصیل شیواہ میں  معاہدہ طے پایا گیا۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل شیواہ کے علاقے کریڑہ مسمون خیل میں تیل و گیس کے دریافت شدہ ذخائر کے حوالے سے مقامی قبائل ( مسمون خیل) اور ماڑی پٹرولیم کمپنی کے حکام کے مابین پروڈکشن پلانٹ اور دیگر امور کے حوالے سے تمام معاملات طے پاگئے ہیں اور باقاعدہ تحریری معاہدہ ہوگیا ہے جس کے مطابق پروڈکشن پلانٹ تحصیل شیواہ ہی میں بنے گا۔ اس حوالے سے فریقین کے درمیان باقاعدہ سٹامپ پیپر پر دستخط ہوگئے ہیں۔

معاہدے کے بعد پروڈکشن پلانٹ تحصیل شیواہ سے باہر منتقل ہونے کے حوالے سے تمام افواہیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ قوم کابل خیل اور بالخصوص مسمون خیل کے مشران نے تاریخی معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے اور پروڈکشن پلانٹ کی شیواہ سے باہر منتقلی کا راستہ روکنے میں خصوصی تعاون پر تمام اسٹیک ہولڈرز اور بالخصوص جی او سی سیون ڈویژن میجر جنرل نعیم اختر کا شکریہ ادا کیا۔ قوم کو ایک پیج پر لانے اور معاہدے پر آمادہ کرنے کے حوالے سے مولانا ابرہیم اور ملک سمیع اللہ جیسی شخصیات کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں۔ امید ہے معاہدہ طے پا جانے کے بعد اب ایم پی سی ایل پروڈکشن پلانٹ لگانے کے عمل پر جلد کام کا آغاز کرے گی۔

خیبر پختونخوا  میں  ڈینگی سے  مزید 12460 افراد متاثر

گزشتہ 24 گھنٹوں میں ڈینگی سے دو اور مریض جاں بحق ،تعداد 12 ہوگئی۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ڈینگی کے مزید 392کیسز رپورٹ۔پشاور 180،مردان 89،صوابی 20 اور کوہاٹ سے 29نئےکیسز رپورٹ  ہوئے ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں مختلف ہسپتالوں میں 26 نئے مریض داخل۔ اس وقت 89 ڈینگی مریض ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جبکہ

صوبہ بھر میں ایکٹیو کیسز کی تعداد 2469 ہوگئی ہے۔صوبہ بھر میں مجموعی کیسز کی تعداد 12460 جبکہ 9979ڈینگی سے متاثرہ افراد صحت یاب ہوئے ہیں.

پاک فوج کے 12 میجر جنرلز کو ترقی دے دی گئی

راولپنڈی: پاک فوج کے 12 میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ترقی پانے والوں میں میجر جنرل فیاض حسین شاہ، میجر جنرل انعام حیدر اور میجر جنرل نعمان زکریا شامل ہیں۔

ترقی پانے والوں میں میجر جنرل محمد ظفر اقبال، میجر جنرل محمد منیر افسر، میجر جنرل یوسف جمال اور میجر جنرل کاشف نذیر شامل ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کو بھی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی جبکہ میجر جنرل احسن گلریز، میجر جنرل سید عامر رضا اور میجر جنرل شاہد امتیاز بھی ترقی پانے والوں میں شامل ہیں۔

میجر جنرل ایمن بلال صفدر، میجر جنرل شاہد امتیاز کو بھی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔

swat ts

سوات میں بدامنی

تحریر شاہد خان

کل سوات میں بہت بڑا احتجاج ہوا جس کو نہ صرف پی ٹی ایم نے لیڈ کیا بلکہ وہ نعرے بھی لگائے گئے جو وزیرستان میں پی ٹی ایم لگاتی رہی ہے۔ اس مظاہرے کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کافی عرصے سے یہ تاثر دیا جارہا ہے گویا سوات پر دوبارہ ‘مسنگ پرسنز’ کا قبضہ ہوگیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد ‘مسنگ پرسنز’ کے قبضوں سے تمام علاقے چھڑا لیے گئے تھے۔ کچھ مارے گئے، زیادہ تر افغانستان بھاگ گئے لیکن کچھ عام لوگوں میں بھی گھل مل گئے تھے۔ جو گرفتار ہوئے ان کی بڑی تعداد کو عدالتوں نے چھوڑ دیا۔ ان کے مقامی سہولت کار اور ہمدرد بھی موجود رہے ہیں۔ اگر صرف وزیرستان کی بات کی جائے خود مقامی تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں کی ایک تہائی آبادی یا براہ راست ان تنظمیوں کا حصہ تھی یا ان کی ہمدرد ضرور تھی۔ یہ وجہ ہے کہ ضرب عضب کے بعد بھی سیکیورٹی فورسز پر وہاں مسلسل حملے ہورہے ہیں اور پاک فوج کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ ‘مسنگ پرسنز’ نہ وردیاں پہنتے ہیں نا انکی کوئی خاص شناخت ہے۔ اگر ہتھیاروں کے بغیر پھریں تو کوئی ان کو نہیں پہچان سکتا اور یہ مختلف علاقوں نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔ حتی کہ عام لوگوں کے بھیس میں افغانستان سے بھی آسکتےہیں۔ لیکن اس کے باؤجود سوات، تیراہ حتی کہ وزیرستان میں بھی کہیں ان کے کوئی جتھے نظر نہیں آئے ہیں نہ کوئی ایسا علاقہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ وہ ‘مسنگ پرسنز’ کے قبضے میں ہے۔ انکے اکا دکا لوگ ہی نظر آتے ہیں ورنہ غآئب رہتے ہیں۔ لیکن ان کے نام کی دہشت موجود ہے۔

جو مقامی سوات کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ان کےمطابق درحقیقت سوات میں اغواء برائے تاؤان کی وارداتیں بڑھی ہیں۔ اغواء کار مقامی جرائم پیشہ لوگ ہیں لیکن وہ نام ‘مسنگ پرسنز’ کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ انکی دہشت زیادہ ہے اور ان کا نام لینے کے بعد کوئی شخص پولیس کے پاس جانے کی جرات نہیں کرتا۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا آپریشن سے بچ جانے والے یا عدالتوں سے رہائیاں پانے والے ‘مسنگ پرسنز’ بھی کہیں نہ کہیں اپنی اکا دکا کاراوئیاں جاری رکھتے ہیں جیسے امن کمیٹی کے سربراہ ادریس کو انہوں نے سوات میں نشانہ بنایا۔ اس طرح کچھ ہفتے پہلے تین غیر مسلح اہلکاروں کا اغواء کیا جن میں ایک پولیس اور دوسرا آرمی آفیسر تھا۔ اس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر افواہوں نے مزید زور پکڑا کہ یہ لوگ واپس آگئے ہیں اور سوات میں سب یہی کر رہے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے سوات اور ملحقہ علاقوں میں ان کی تلاش کی۔ دو دہشتگردوں کو ہلاک بھی کیا۔ جس پر دوبارہ مقامی سرخوں نے احتجاج کیا کہ ‘ہمارے بےگناہ لوگ فورسز نے مار دیے ہیں اور ایسے آپریشنز نامنظور’۔ حالانکہ ہلاک ہونے والے شرپسندوں کے اپنے بیٹے کی اعترافی ویڈیو بھی آگئی ہے اور ان کے بارے میں پکی انٹلی جنس رپورٹ بھی تھی۔

تازہ ترین واقعہ میں ذاتی دشمنی کی بنا پر سکول بچوں کی وین چلانے والے ڈرائیور کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ایک بچے کو بھی گولی لگی۔ لیکن اس کو بھی ‘مسنگ پرسنز’ کا حملہ بنا کر پیش کیا گیا کہ جی بچوں پر حملہ تھا۔ بچوں پر حملہ ہوتا تو پوری وین نشانہ بنتی اور خدانخواستہ بہت سے بچے نشانہ بن جاتے۔ وزیرستان کی طرح یہاں بھی وین ڈرائیور کی لاش سڑک پر رکھ کر سڑک بند کی گئی جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں سوات کے لوگ نکل آئے۔ ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا جس کی قیادت پی ٹی ایم نے کی۔

پی ٹی آئی کی فوج مخالف مہم کے بعد مراد سعید نے بھی کئی دنوں سے جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ اس نے عوام کو افواج کے خلاف خوب اکسایا اور یہ تاثر دیا گویا سوات میں ان ‘مسنگ پرسنز’ کو فوج ہی لائی ہے۔ (اگروہ موجود ہیں تو) اس موصوف سے کوئی پوچھے کہ یہ منتخب ہونے کے بعد کتنی بار سوات گئے ہیں؟ سوات سول انتظامیہ کے پاس ہے اور کے پی کے میں ایک عشرے سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ فوج نے اپنی جانیں دے کر یہ علاقہ ‘مسنگ پرسنز’ سے چھڑا کر ان کے حوالے کیا تھا۔ انہوں نے امن برقرار رکھنے کے لیے وہاں کیا کیا؟ کل جو مظاہرہ ہوا اس میں لوگوں سے بات کرنے کے لیے کے پی کے حکومت کے کتنے نمائندے آئے؟

مراد سعید ‘مسنگ پرسنز’ کے ساتھ مزاکرات پر بھی تنقید کر رہا ہے اور بار بار مطالبہ کر رہا ہے کہ فوج اپنی پالیسی واضح کرے۔

عرض ہے کہ آپریشن کا سب سے بڑا مخالف اور مزاکرات کا حامی تو خود عمران خان ہے۔ کے پی میں عمران خان کی حکومت ہے۔ پالیسی وہ بنائیگی یا فوج؟ فوج کی پالیسی یہ ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائے جیسے بھی ممکن ہو۔

کے پی میں موجود پی ٹی آئی حکومت کی کیا پالیسی ہے؟ وہ یہ خاتمہ کیسے چاہتی ہے؟ بات چیت کے ذریعے یا آپریشن کے ذریعے؟ کھل کر اعلان کرے نا؟ وہ جیسا چاہے گی فوج یا ریاست ویسا ہی کرے گی۔ پی ٹی آئی حکومت آپریشن کا مطالبہ کرے تو آپریشن ہوگا اگر وہ بات چیت کے ذریعے یہ معاملات حل کرنا چاہتی ہے تو بات چیت ہوگی۔ لیکن اگر مقامی سطح پر جرائم پیشہ افراد اغواء برائے تاوان کر ررہے ہیں یا مقامی لوگ ایک دوسرے سے دشمنی کر رہے ہیں ان معاملات سے نمٹنا ان کا کام ہے۔ ویسے بھی ‘مسنگ پرسنز’ کے ساتھ مزاکرات کو لیڈ کرنے والا عمران خان اور کے پی حکومت کا معاؤن خصوصی بیرسٹر سیف ہے۔ کیا مراد سعید یہ بات نہیں جانتا؟

سوات میں سرخوں نے مظاہرے کو ھائی جیک کیا جس کے بعد وہاں بھی وزیرستان جیسے نعرے اور مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ یعنی ہم نہ آپریشن چاہتے ہیں، نہ تلاشی، نہ دوبارہ فوج کشی چاہتے ہیں، نہ کسی کو مارا جائے، لیکن ہمیں امن چاہئے۔ وزیرستان میں پی ٹی ایم کے یہ والے مطالبے سن کر ڈی سی نے سوال کیا تھا کہ پھر آپ بتائیں کہ ہم آپ کو امن کیسے دیں اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں کرنا؟ جس پر پی ٹی ایم کا جواب تھا کہ ‘ہمیں نہیں پتہ’

درحقیقت سوال انتظامیہ اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی نااہلی کو پی ٹی ایم اور خود پی ٹی آئی بھی فوج کے سر ڈال کر نہایت ڈھٹائی سے کیش کر رہی ہیں۔ وزیراعلی پی ٹی آئی کو ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے اور پولیس سمیت دیگر سول فورسز کو متحرک کرنا چاہئے۔ نیز جھوٹ اور افواہیں پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔