6276dd6d99215

لانگ مارچ میں پختونخوا حکومت کا کردار اور پولیس فورس کی مجوزہ مشکلات

علی اکبر خان

پشاور میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد اتوار کو سابق وزیراعظم نے 25 مئی یعنی بدھ کو موجودہ حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کے لئے حقیقی آذادی مارچ کا اعلان پر جوش انداز میں کیا، سابق وزیر آعظم نے پولیس اور فوج کو بھی پیشگی تنبیہ کی کہ نیوٹرل ہے تو پھر نیوٹرل ہی رہے، مطلب کہ فوج اور پولیس جوکہ آئین کے تحت حکومت وقت کی حکم کی پابند ہے آئین شکنی کرے اور لانگ مارچ روکنے کے لئے حکومتی احکامات پر عملدرامد نہ کرے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف محمود خان کی سربراہی میں دوتہائی اکثریت سے برسراقتدار ہے کپتان کو مکمل یقین ہے کہ محمود خان کی حکومت آذادی مارچ کو حفاظت سے اسلام آباد پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ ملتان جلسے کے بعد بنی گالا کے آس پاس وفاقی پولیس کا سرچ آپریشن شروع دیکھ کر تو ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے کپتان ملتان سے سیدھا پشاور پہنچ گیا۔ ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے اس وقت پی ٹی ائی کے سرکردہ رہنما بھی سابق وزیراعظم کے ساتھ پشاور میں صوبائی حکومت کے خرچ پر محمود خان کے شاہی مہمان ہیں۔
مہمان نوازی پختونوں کی روایتی بات ہے مگر مہمانوازی تک ہو توکوئی بات نہیں لیکن بدھ کو خیبر پختونخوا سے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان ہوچکا ہے اور اس اعلان پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے خیبر پختونخوا حکومت کی سرپرستی میں حکمت عملی بھی طے کی جارہی ہے، سابق وزیراعظم کے کنٹینر کے آگے کرینز، بلڈوزز، ایمبولینس اور دیگر بھاری مشینری اور سازوسامان کا بندوبست کیا جاچکا ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں حقیقی آذادی مارچ کا مرکزی قافلہ بحفاظت اسلام اباد داخل کروایا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ لانگ مارچ پرامن ہے تو پھر کرینوں ،بلڈوزروں پر مشتمل یہ جنگی حکمت عملی کیوں؟
لانگ مارچ کو روکنا نئی اتحادی حکومت کے لئے بھی بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے محتلف قسم کی تجاویز اور منصوبہ بندیاں بھی زیر غور ہیں جس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مرکزی قائدین کی گرفتاریاں، پولیس کے زریعے مارچ کو اٹک سے پار کرنے سے پہلے روکنا شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم نے سوچ سمجھ کر اس بار لانگ مارچ کی قیادت خیبر پختونخوا سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی طویل حکمرانی ہے، نو سالہ طویل حکمرانی پہلے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور اب وزیر اعلیٰ محمود خان نے بیوروکریسی اور پولیس سمیت تمام اہم عہدوں پر تحریک انصاف سے لگاؤ رکھنے والے افسران یا پھر اپنے اعتمادی افسران کو تعینات کر رکھا ہے۔
مختصر یہ کہ بدھ کو ہونیوالا لانگ مارچ خیبر پختونخوا میں انتظامیہ اور پولیس کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی تو غلط نہیں ہوگا، وفاقی حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کو روکنے کے احکامات پولیس اور انتظامیہ کو موصول ہوگئے تو دو حکومتوں کے بیچ پھنسی پولیس اور انتظامیہ کیسے نمٹے گی ;238; وزیراعظم شہباز شریف کی چلے گی یا پھر وزیر اعلیٰ محمود خان کی؟

e6b0d48d-d8db-44cf-a448-515da2cfe85e

وادی تیراہ :باغ امن میلہ ٹیررازم سے ٹورازم تک کا سفر

وادی تیراہ :باغ امن میلہ ٹیررازم سے ٹورازم تک کا سفر

تحریر:اصغرعلی مبارک

 آپریشن ردالفساد کے 5 سال مکمل ہونے کےبعد ”ٹیررازم سے ٹورازم” کا سفر کامیابی کے ساتھ جاری یےجس تازہ مثال پھولوں کی سرزمین وادی تیراہ میں ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کے باہمی اشتراک سے “باغ امن میلہ” کا انعقاد ھے دہشت گردی کے خلاف کاوشوں پر دنیا ہماری معترف ہے.

 پاکستان کی سلامتی کے ادارے اور افواج نے ملکی سلامتی کیلئے جو کردار ادا کیا ہے، اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہمیں مل کر فوج اور قوم کو آپس میں لڑانے کی دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ایسے حالات میں بھارت و دیگر دشمن طاقتیں افغانستان میں دہشت گردوں کو منظم کر رہی ہیں اور پاکستان مخالف منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ان حالات میں ہمیں قومی وحدت کی ضرورت ہے،ہمیںقومی یکجہتی اور استحکام کی طرف جانا ہے۔ قابل فکربات ہہ ہے کہ پہلے ملک میں صرف مذہبی انتہا پسندی تھی مگر اب ہماری سیاست میں سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیںہمیں ملک سےسیاسی انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنا ہےہماری منزل اخوت، محبت، رواداری، امن، سلامتی، استحکام اور اعتدال ہے۔ ہمیں نفرتوں کو ختم کرنا ہے جس کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔

 آپریشن ردالفساد کی کامیابی میں قومی ایکشن پلان کا بہت بڑا کردار ہے۔ ماضی میں قومی ایکشن پلان کے صرف ایک حصے پر عمل ہواپاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ لڑی جس میں مختلف مراحل طے کیے گئے۔ پانچ برس قبل آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا جس کے تحت ملک کے طول و عرض میں ہزاروں کامیاب آپریشن کیے گئے جن سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا ،انہیں جہنم واصل کیا گیا اور بیشتر کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیاگیا۔افغانستان کے جہاد کے خاتمے کے بعد سے پاکستان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر پوری قوم، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا۔

 سنہ 2000ء کے بعد ہمارے دشمنوں نے پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا جس کے بعد ہمارے پارک، مساجد، امام بارگاہیں،چرچ کوئی مقام ایسا نہیں تھا جو محفوظ رہا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرکے بدترین کام کیاجس کے بعد قوم نے فیصلہ کیا کہ اب ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔قبائلی اضلاع سے دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے بعد 74 مربع کلومیٹر علاقے سے 60 ہزار سے زائد باروی سرنگیں ناکارہ بنا کر اسے کلیئر کیا گیا۔ آپریشن دُواتوئی، شمالی وزیرستان اور خیبر آپریشن کے تحت پاک افغان بارڈر پر مکمل ریاستی رِٹ بحال کی گئی. آپریشن ردالفساد کے تحت بارڈر مینجمنٹ کو بھی یقینی بنایا گیا22 فروری 2017 کو شروع ہونے والے آپریشن ردالفساد کے تحت دہشتگرد تنظیموں کے مکمل خاتمے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کیے گئے۔ زمینی آپریشنز کے ذریعے نہ صرف دہشتگردوں کے زیر اثر علاقوں کو کلیئر کرایا گیا بلکہ وہاں سماجی اور معاشی بہتری کے منصوبے بھی مکمل کیے گئےآپریشن ردالفساد کے 5 سال مکمل ہو چکےہیں ٹیررازم سے ٹورازم کامیاب سفر شروع ہو گیاہے۔

 خبیر پختونخواہ کے علاقے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کے باہمی اشتراک سے “باغ امن میلہ” کا انعقاد کیا جا رہا ہے. افتتاحی تقریب میں شرکاء نے قومی ترانہ پڑھا اور قومی پرچم لہرایاگیا. میلہ میں مارچ کرتے ہوئے بینڈ نے خوبصورت دھنوں کے ذریعے شرکاء سے خاص داد وصول کی. افتتاحی تقریب میں بچوں نے مختلف ٹیبلوز پیش کئے. اس موقع پر پاکستان آرمی کی ملٹری پولیس کے بائیک رائیڈز نے بھی مہارت کا مظاہرہ کیا. تقریب میں خٹک ڈانس اور دیگر علاقائ رقص بھی پیش کیا گیا. افتتاحی تقریب کی سب سے خاص بات پیرا گلائیڈنگ اور پاور گلائیڈنگ کا مظاہرہ تھا. جسے وہاں موجود شرکاء نے خصوصی داد دی. اس موقع پر شرکاء نے اس میلہ کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں اس طرح کے ایوینٹس کا انعقاد امن کی واضح مثال ہیں. ضلعی انتظامیہ اور فرنٹیئر کور نارتھ کے اشتراک سے منعقدہ باغ امن میلہ کی افتتاحی تقریب میں اعلی سول اور فوجی حکام, قبائلی اضلاع کے مشران, علاقہ مکین, بچوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیگر مہمانوں نے شرکت کی. 25 مئ تک جاری رہنے والے باغ امن میلہ میں کرکٹ, والی بال, گھڑسواری اور رسہ کشی سمیت دیگر علاقائ کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوں گے. چند سال پہلے جب دہشت گردی عام تھی تب عام شہروں میں بھی قومی دن کی تقریبات نہیں منائی جاتی تھیں، لیکن ھم نے دیکھا کہ خیبر ایجنسی میں “باغ امن میلہ”. افتتاحی تقریب ہوئی، ملی ترانے گائے گئے، پاکستان زندہ باد ، پاک فوج پائندہ باد کے نعرے لگائے گئے ، بچوں نے خاکے پیش کیے ضلع خیبر صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک ضلع ہے۔

 پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پشاور سے چند میل دور ، اونچے خشک بیابان اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا درہ خیبر ہے جسے برصغیر کا دروازہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ روئے زمین کی کسی پہاڑی شاہراہ نے تاریخ اقوام پر اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑا جتنا درہ خیبر نے ۔اس کی تاریخی اور سیاسی اہمیت کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ درہ نہ ہوتا تو آج برصغیر پاک وہند کی تاریخ بالکل ہی مختلف ہوتی۔ بظاہر یہ وادی کوئی گل پوش ہے نہ دلکش سیر گاہ، اس میں گنگناتے آبشار اور چشمے ہیں نہ خو ش منظر باغات، تاہم دنیا کے کونے کونے سے سیاح درہ خیبر دیکھنے آتے ہیں۔ وہ اس دشوار گزار اور پرپیچ پہاڑی راستے کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کو جانتے ہیں۔ یہ درہ ہمیں مہم جوئی پر اکساتا ہے ۔ہمارے خون کو حرارت اور دل کو ولولہ تازہ عطا کرتا ہے، درس عمل دیتا ہے اور کوئی کارنامہ کر گزرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ درہ خیبر نے تاریخ میں اتنے زیادہ حملے دیکھے اور برداشت کئے ہیں جو ایشیا کے کسی اور مقام بلکہ دنیا کے کسی اور علاقے نے ہر گز نہیں دیکھے۔ یہ پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان آمدو رفت اور تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کا بھی حامل ہے۔برصغیر میں جتنے بھی فاتحین آئے سب کی گزر گاہ یہی درہ رہا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 میں قائد اعظم بھی درہ خیبر آئے اور قبائلی عوام پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی تعریف کی۔اسی پہاڑی گزر گاہ کی وجہ سے ملحقہ قبائلی وادی کا نام خیبر پڑا۔خیبر عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی قلعہ ہے۔ باغ بازار یہاں کی معیشت کا گڑھ ہے۔کسی بھی گاؤں میں شائد ہی ایسابڑا بازار ہو جیسا میں نے یہاں دیکھا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک بازار تو کیا اس علاقے میں کوئی جانے کا سوچتا تک نہ تھا۔آج الحمد للہ حالات بہت بہتر ہیں۔اس علاقے یعنی خیبر ایجنسی کے گھر نوے فیصد کچے ہیں جبکہ مساجد اور مدرسے واحد ایسی تعمیرات ہیں جو پکی ہیں۔ ایک دلچسپ بات کہ باغ میں سکھ گھرانے بھی رہائش پذیر ہیںضلع خیبر پشاور ڈویژن صوبہ وادی تیراہ خیبر پختونخوا پاکستان خیبر ایجنسی میں ہے ۔ ضلع خیبر2018 تک وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی ایک ایجنسی تھی، فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد یہ ایک ضلع بن گیا۔ یہ وادی تیراہ سے پشاور تک ہے ۔ یہ مغرب میں صوبہ ننگرہار ، جنوب مغرب میں، مشرق میں پشاور اور شمال میں مہمند ضلع ۔ جنوب میں ضلع اورکزئی، ضلع کرم سے ملحق ہے.آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر 2017 خیبر ایجنسی میں پاک، افغان سرحد پروادی راجگل کا دورہ کیاتھا۔ اور سرحد پر تعینات جوانوں کےساتھ عید منائی تھی۔ اس موقع پر جنرل باجوہ نے کہا تھا۔کہ پاکستان ہمارا جذبہ اور ہماری زندگی ہے۔ ہماری زندگیاں پاکستان کے لئے ہیں۔ ملک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔پاکستان اور عوام کے تحفظ کے لئے عید قرباں پر فرائض کی انجام دہی بہترین خوشی ہے ۔ہم سب مل کر پاکستان کو بہترین ملک بنائیں گے۔

 برطانوی آرمی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل سر نکولس پیٹرک کارٹر نے 15 اکتوبر 2017 کو خیبر ایجنسی میں پاک افغان سرحد کا دورہ کیاتھا ۔انہیں آپریشن رد الفساد اور سرحد پر لگائی جانے والی باڑ سے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔جنرل سر نکولس پیٹرک کارٹر نے کور ہیڈ کوارٹر پشاور میں کور کمانڈر سے ملاقات کی۔ انہیں آپریشن کے دوران بے گھر ہونے والے متاثرین کی واپسی ، بحالی اور تعمیر نو کے لئے پاک فوج کے منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ برطانوی جنرل نے خیبر ایجنسی میں پاک، افغان سرحد پر اگلے مورچوں اور قبائلی روایتی ثقافت کے حامل خیبر پاس کا بھی دورہ کیا تھا۔ خیال رہے کہملکہ برطانیہ نے پاکستان کا پہلا دورہ یکم فروری 1961 کو شوہر فیلپ کے ساتھ کیا،16 روزہ دورے میں مزار قائد پر حاضری دی اور لاہور، پشاور، بنگال، کوئٹہ سمیت کئی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کا تاریخی دورہ بھی کیا۔ دورہ خیبر ایجنسی 1961 میں ملک زادہ نواب محمد علی خان کوکی خیل اور دیگر ملکان نے ملکۂ برطانیہ کا پُرتپاک استقبال کیاتھا.

 آپریشن رد الفساد کے 5 سال بعد آج پاکستان پہلے سے نہ صرف زیادہ محفوظ ہے بلکہ ہمارے ملک کی رونقیں بھی بحال ہو چکی ہیں۔ اس فساد کی بیخ کنی کرنے میں پاک فوج سمیت تمام سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، پوری قوم اپنی سیکورٹی فورسز کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے ملک سے دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کیا۔ آپریشن ردالفساد کے ذریعے پاک افواج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردوں نے پاکستان میں نظام زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہماری افواج نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

آپریشن ردالفساد کے تحت پنجاب میں 34ہزار، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ، بلوچستان میں 52 ہزار جبکہ خیبر پختونخوا میں 80ہزار آپریشن کیے گئےخیبر فور آپریشن بھی کیا گیا جس سے راجگال ویلی کو خالی کروایا گیا۔ انہی کاوشوں کی وجہ سے ہم خوشحالی، استحکام اور ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔آپریشن ردالفساد کامیابی سے جاری ہے۔ ہمیں امن عمل کو مزید مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ترقی، خوشحالی اور استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔کھیل کے وہ میدان جو دہشت گردی کی وجہ سے ویران ہوگئے تھے آج دوبارہ آباد ہوچکے ہیں اور کرکٹ میچز ہورہے ہیں ۔ اسی طرح اب بیرونی سرمایہ دار اور اوورسیز پاکستانی بھی یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ ہم ٹیررازم سے ٹورازم کی طرف بڑھ رہے ہیں جو یقینا بہت بڑی کامیابی ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا ایک بڑا اور مشکل کام تھا جو تقریباََ مکمل ہوچکی ہے ، ایران کے ساتھ بارڈر کے معاملات بھی بہتر کیے جارہے ہیں جلد انٹری اور اگزٹ پر کنٹرول بہتر ہوجائے گا۔ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا جاچکا ہے۔ وہاں تیزی سے ترقی ہورہی ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مضبوط پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے اور یہ وطن ہمیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ جو لوگ جانے انجانے میں ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔دشمن نے ہماری افواج کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی ناکام کوشش کی، ہائبرڈ وار کے ذریعے وہ ہمارے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا مگر اسے کامیابی نہیں ہوسکی۔ افواج پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کی ہم پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے اور فرنٹ لائن سولجر بن کر ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کریں گے.

8c2adc11-0416-433a-ba10-7a0da402dd74

امن کے فروغ میں عوام کا کردار انتہائی اہم ہے:سیمنار شرکاء

معاشرے میں امن و امان کے قیام کے موضوع پر ایگریکلچر یونیورسٹی اور گورنمنٹ ڈگری کالج ڈی آئی خان میں منگل کے روز دو مختلف سیمینارز کا انعقاد کیا گیا۔ ان سیمینارز میں طلباء سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

دونوں تقاریب میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے ڈاکٹر منیر احمد، ہری پور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمہیمن اور بنوں میڈیکل کالج کے ریٹائرڈ کرنل ناصر نے مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔
سیمینارز سے خطاب میں مقررین نے بنیادی انسانی اقدار، نوجوانوں کا قیام امن میں کردار، قرآن و سنت کی روشنی میں تنازعات کے دوران اخلاقی معیار، اور اساتذہ کا ملک میں باہمی ہم آہنگی کے لئے کردار پر روشنی ڈالی۔
مقررین نے زور دیا کہ ذاتی پسند و ناپسند کو نفرت انگیز اور اشتغال انگیز تقاریر میں بدلنے سے گریز کیا جائے جبکہ ہم سب کو مل کر خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں امن کی ترویج کے لئے کام کرنا چاہیئے۔

9e05b66c-4793-4168-ac41-7b8d578eb453

ممبر و محراب کی اہمیت اور معاشرے میں امن و امان کا قیام

ممبر و محراب کی اہمیت اور معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لئے مساجد کے مثبت کردار کو اجاگر کرنے کے لئے منگل کے روز ڈیرہ اسماعیل خان کے مدرسہ جامعہ عثمانیہ میں ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

اس سیمینار میں 120 سے ذیادہ افراد نے شرکت کی۔ جس میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے ڈاکٹر منیر احمد، ہری پور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمہیمن اور بنوں میڈیکل کالج کے ریٹائرڈ کرنل ناصر نے مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔
شرکاء اور مقررین نے عوام میں شعور و آگاہی پھیلانے کے لئے ممبر و محراب کی اہمیت و کردار کو اجاگر کیا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ مساجد کو معاشرے میں قیام امن کی کوششوں کے لئے مؤثر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے کیوں کہ پاکستانی معاشرے کا مساجد کے ساتھ تعلق بہت گہرا ہے اور ان سے امن کا پیغام گراس روٹ لیول تک پہنچ سکتا ہے۔
اس موقع پر شرکاء نے خیبر پختونخوا اور ملک بھر میں قیام امن اور استحکام کے لئے مسلح افواج اور دیگر اداروں کے کردار پر بھی روشنی ڈال۔

950649d8-9a94-4254-950e-c4e2672b0b02

گومل میڈیکل کالج میں پیغام پاکستان کانفرنس کا انعقاد

گومل میڈیکل کالج ڈیرہ اسماعیل خان میں “پیغام پاکستان”کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر ڈاکٹر افتخار نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ فروغ امن کے سلسلے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پہلی تقریب میڈیکل کالج میں منعقد کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر تمام معزز مہمانوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ڈاکٹر ارشد منیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 28مئی ہمارے لیے انتہائی فخر کا دن ہے اور پاکستان نے جو ہمت اور عزم کامظاہرہ کیا اسے دنیا بھر بالخصوص مسلم ممالک میں پذیرائی ملی مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ جذبہ مدھم ہوا ہے جس کا جواب “پیغام پاکستان “ہے۔ پاکستان جس نظریے پر قائم ہوا وہ آج بھی قائم ہے جس طرح مرض کی پہلے تشخیص کی جاتی ہے اس کے بعد علاج کیا جاتا ہے اسی طرح ایک دوسرے کے جذبات، خیالات، احساسات کو سمجھنے اور انکی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔

اسکے بعد یونیورسٹی آف ہری پور کے ڈاکٹر عبد المہیمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف ہونا قدرتی عمل ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ اسکو کس طرح دیکھا جائے، اختلاف کا احترام ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف یونیورسٹیز، مدارس، علماء،تبلیغ، حج، عمرہ، عاشورہ، ربیع الاول، مزارات،مختلف مکتبہ فکر رکھنے والے افراد، مختلف سیاسی رائے رکھنے والے افراد موجود ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی سوچ کو مثبت رکھا جائے جس طرح رواں برس تین عیدیں منائی گئیں کوشش ہوتی ہے کہ ایک دن عید ہو مگر اس سلسلے میں اختلاف کو مثبت رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ انتہا پسند مٹھی بھر ہیں ایک فیصد ہوں گے مگر باقی 99فیصد نے بہتر جذبات کا مظاہرہ کرنا ہے، بردباری کو بڑھاتے ہوئے تفریق کا خاتمہ کرنا ہے۔ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں بردباری کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔پاکستان کو پہلی ترجیح رکھیں کیونکہ جیسے گھر ہمارا ہے تو گلی بھی ہماری ہے اگر گاڑی ہماری ہے تو سڑکیں بھی ہماری ہیں ایک ریاست میں سیاسی اختلاف علیحدہ بات ہے مگر اداروں کا احترام ضروری ہے کیونکہ ان سے ملک نے چلنا ہے۔اس کے بعد خطاب کرتے ہوئے کوہاٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹر ذیشان نے کہا کہ انسان کو شکل و شباہت والدین اور خاندان سے ملتی ہے مگر سوچ ماحول سے ملتی ہے ہم تنقیدی ذہن کے مالک بن چکے ہیں جس سے بردباری بھی متاثر ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک دوسرے کے مذہب، رائے اور سو چ کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کرنل ناصر نے کہا کہ سوسائٹی اور کلچر کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے، ہر ملک کی ایک حدود ہوتی ہے مگر کلچر مختلف ہو سکتے ہیں، سوسائٹی کا سب سے چھوٹا یونٹ گھر ہوتا ہے جس طرح گھر میں ایک سربراہ ہوتا ہے جس کی بات سنی اور مانی جاتی ہے جس سے تمام رشتوں میں سلوک رہتا ہے ویسے ہی شہر، صوبہ اور پھر ملک بنتا ہے لہذا ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر خیبر پختونخوا سنٹر آف ایکسیلنس کے مسٹر کاشف ارشاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مختلف پہلو انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جیسے غربت انسان کو مجبور کر دیتی ہے، اسی طرح تحفظ بھی ہر کسی کی بنیادی ضرورت ہے جو کہ سٹیٹ فراہم کرتی ہے جبکہ تیسرا پہلو رویہ اور لین دین ہے جسے ہم نے بہتر رکھنا ہے تفریق کو فروغ نہیں دینا سیاست کیلئے ایک دوسرے کو نشانہ نہیں بناناکیونکہ سیاست کا مقصد تو قوم کو بہتر بنانا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امبیسیڈر (ریٹائرڈ) زاہد خان وزیر نے کہا کہ انسانوں کی محبت ہی دوسرے انسان کو اللہ تعالیٰ کی محبت تک لے جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں موجود حالیہ نفرت اور تفریق کے پیچھے تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ ہم دہشتگردی اور انتہا پسندی پر یقین نہیں رکھتے چونکہ ہم مضبوط قوم ہیں اور یہ بات دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔

ہمارے ادارے مضبوط ہیں ہماری فوج مضبوط ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، سپرٹ آف نیشن ہُڈ اور مضبوط فوج کسی بھی ملک کیلئے اثاثہ ہوتے ہیں۔ وسائل اپنی جگہ حیثیت رکھتے ہیں مگر کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جن پر حملے ہوئے وسائل سمیت ملکوں کو نقصان پہنچایا گیا اور وہاں کے لوگ مہاجرین بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ اعتراض ہمیشہ واپس آتا ہے کیونکہ جس کی تذلیل ہوتی ہے وہ بدلہ بھی لیتا ہے لہذا مثبت سو چ کر پروان چڑھانا چاہیے اور جس معاملے میں معلومات نہ ہوں وہاں خاموشی بھی بہترین حل ہے۔ تقریب کے اختتام پر ڈین گومل میڈیکل کالج ڈاکٹر نسیم صباء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ انتہائی مہمان نواز، خوش اخلاق، ہمدرد اور مثبت سوچ رکھنے والے ہیں۔ کورونا پنڈیمک کے دوران ملک کا سب سے پہلا کوارینٹائن سنٹر اسی کالج میں بنایا گیا اور یہاں آنے والے زائرین میں وائرس کے موجودگی کی اطلاعات کے باوجود ٹیکنیکل ٹیموں نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی اور اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت کیلئے پیش پیش رہے۔