raaainn

پشاور میں بارش اور آندھی

پشاور: پشاور میں گرچ چمک کے ساتھ بارش شروع
بارش سےکے ساتھ ساتھ شہر اور مضافاتی علاقوں    میں تیز ہوائیں بھی چلیں جس سے گرمی کی شدت میں کمی واقع ہوئی۔
آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران پشاور کے علاوہ صوابی ، مردان اور دیگر اضلاع میں بارش کا امکان جبکہ
بنوں اور ڈی آئی خان ڈویژن میں موسم گرم رہنے کا امکان ہے۔

بی آر ٹی میں 86 نئی بسیں جلد شامل کی جائیں گی

 پشاور : بی آر ٹی  میں مزید 86 نئی بسیں جلد شامل کی کی جائیں گی ۔ ترجمان ٹرانس پشاور، صدف کامل کے مطابق ان یہ بسیں تکمیل کے آخری مراحل میں  ہیں اور تیاری کے فورا بعد چین سے پشاور (پاکستان) کیلئے روانہ کردی جائینگی۔

نئی بسیں ترجیحی بنیاد پر پشتخرہ چوک تا صدر (بعد از اجازت نامہ کینٹونمنٹ بورڈ) اور پیرزکوڑی تا ملک سعد شہید سٹیشن چلائی جائیں گی ۔اس کے علاوہ مزید نئے روٹس کا اجراء خیبر پختون خواہ اربن موبلٹی اتھارٹی کی ہدایت کے مطابق کیا جائے گا۔ بسوں کی تعداد میں موجودہ اضافہ مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ روزانہ سواریوں کی تعداد 250،000 سے تجاوز کر گئی ہے جس میں 25 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔ان بسوں کے سسٹم میں شامل ہونے سے بی آر ٹی میں بسوں کی مجموعی تعداد 244 ہوجائیگی۔ 

7df079e6-007f-4491-92f7-f49765a55d91

دتہ خیل شمالی وزیرستان میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد

ضلعی انتظامیہ شمالی وزیرستان ، پاک آرمی ہیڈکوارٹر سیون ڈویژن ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس شمالی وزیرستان کی طرف سے ڈوگہ مچہ تحصیل دتہ خیل میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا ۔
میڈیکل کیمپ میں میڈیکل اسپیشلسٹ ، چلڈرن اسپیشلسٹ ، سرجن ، گائناکالوجسٹ اور جنرل فزیشن نے مجموعی طور پر 712 مریضوں کا معائنہ کیا ۔جس میں 84 خواتین ، 195 مرد اور 433 بچے شامل ہیں ۔
تمام مریضوں کو فری ادویات دی گئیں ۔علاقے کے لوگوں نے ضلعی انتظامیہ ، پاک آرمی اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کی اس کاوش کو سراہا ۔
مذکورہ میڈیکل کیمپس ضلع کے باقی علاقوں میں بھی لگائے جائیگے ۔

 

weather

کے پی کے بیشتر علاقوں میں انتہائی گرم ،خشک موسم کی پیشن گوئی

 پشاور:محکمہ موسمیات نے صوبے کے بیشتر علاقوں میں انتہائی گرم اور خشک موسم کی پیشن گوئی ہے۔خیبرپختونخوامیں درجہ حرارت معمول سے7-09سنٹی گریڈ بڑھنےکاامکان ہے۔ جبکہ اپراور لوئر چترال,کوہستان اپر،دیر اپر کے برفانی  علاقوں میں گرمی کی لہر کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔

 گرمی کی لہر سے برف کے پگھلنے کی شرح بڑھنے سے بالائی اضلاع میں گلاف ایونٹ /فلش فلڈ کا خدشہ بھی ہے جس کے باعث  پانی کے راستوں کے قریب رہنے والے آبادیوں کوالرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ دوسری طرف صوبائی حکومت نے محکمہ صحت اور ریسکیو 1122 گرمی کی شدت اور ہیٹ سٹروک سے عوام کو بچانے کے لئے الرٹ رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لئے پیشگی اقدامات یقینی بنانے کی اورمحکمہ زراعت اور لائیو سٹاک فصلوں اور جانوروں کے لئے مناسب انتظامات سمیت دیگر اقدامات یقینی بنانے کے لیئے ضروی اقدامات کی بھی ہدایت جاری کی گئی ہے۔

قدرتی افات کے نقصانات سے بچنے کے لئے پی ڈی ایم اے  کو پیشگی اقدامات  اوراین ایچ اے اور ایف ڈبلیو او کیساتھ احتیاطی تدابیر اپنانے کے حوالے سے کوارڈینشن یقینی بنانے کا بھی کہا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نےعوام سے اپیل ہے کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے غیر ضروری طور گھروں سے باہر نہ نکلیں اورگھروں سے باہر نکلنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر یقینی بنائیں۔

suran championship

سوران خیالی کور بابا گراؤنڈ میں جاری سوران چمپئن لیگ احتتام پذیر

ضلع مہمند
تحصیل بائیزئی کے دور افتادہ علاقہ سرحدی دیہات سوران خیالی کور بابا گراؤنڈ میں جاری سوران چمپئن لیگ احتتام پذیر ہوا۔ مقامی اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں کی کھیلاڑیوں نے حصہ لیا۔ ٹورنامنٹ سابقہ امیدوار تحصیل ناظم ملک زاہد خان موسی خیل کی تعاون سے منعقد ہوا تھا۔

ٹورنمنٹ میں انتہائی دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملے۔ ٹورنامنٹ میں 70 سے زیادہ ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ فائنل میچ انار الیون اور لکڑو الیون کے درمیان کھیلا گیا جو کہ انار الیون نے جیت کر ٹرافی اپنے نام کر لیا۔ فائنل میچ میں مہمانان خصوصی 22 بریگیڈ کے کرنل سعد ، ایم این اے ساجد خان مہمند، ملک زاہد خان موسی، ڈسٹرکٹ سپورٹس منیجر سعید اختر تھے۔ ٹورنامنٹ انتظامیہ کی طرف سے سوران چمپئن لیگ کے فائنل میچ جیتنے والے ٹیم کو موٹر سائیکل، جبکہ ایم این اے ساجد مہمند اور ملک زاہد خان موسی خیل کی جانب سے دونوں ٹیموں کیلئے نقد رقم کے انعامات دیے گئے۔ کرکٹ لیگ کے فائنل میچ دیکھنے کے لئے گراؤنڈ میں ہزاروں کی تعداد میں تماشائیوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پسماندہ علاقے میں اس بڑے ٹورنامنٹ کے انعقاد پر ملک زاہد خان موسی خیل کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ اور کہا کہ ایسے کھیل کود کی سرگرمیوں کا آغاز سے یہاں کے نوجوانوں کے لئے ایک اچھا اور مثبت پیغام ہے۔

imran khan and Shahbaz Shareef

عمران خان کے الزامات پر سخت ریاستی ردعمل

سابق وزیراعظم عمران خان نے ایبٹ آباد میں ایک جلسہ کے دوران روایتی جارحانہ انداز میں ایک بار پھر امریکہ، پاک فوج، عدلیہ اور میڈیا پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا روایتی الزام لگاکر ثابت کیا کہ وہ نہ صرف مزاحمت کی آڑ میں عوام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم پر ہیں بلکہ وہ اشتعال انگیز ی بھی پھیلا رہے ہیں جس کا اب عملی نوٹس لینا چاہئے. کیونکہ وہ ایک غیر قانونی راستہ اپنا چکے ہیں۔
اسی کے ردعمل میں وزیراعظم شھباز شریف نے پہلی بار سخت موقف اختیار کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ عمران خان کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں کی بنیاد پر کارروائی ہوسکتی ہے۔ شھباز شریف کے مطابق حکومت نے مصلحت اور مفاہمت سے بہت کام لیا مگر عمران خان ریاستی اداروں پر بےبنیاد الزامات لگاکر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں جسکی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی. ان کے مطابق اس صورت حال پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا اور اب قانون حرکت میں آ کر رہےگا۔
DG ISPRدوسری طرف افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی بعض سیاسی عناصر، صحافیوں اور اینکرز کی جانب سے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ عناصر سیاسی بحث اور گفتگو میں فوج کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ رویہ سے گریز کریں۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان معاملات پر یہ پاک فوج کی تیسری یا چوتھی پالیسی سٹیٹمنٹ ہے جو جاری کی گئی ہے تاہم موصوف اور ان کی پارٹی پر شاید کسی بات کا اثر نہیں پڑنے والا اور وہ پاک فوج کو متنازعہ بنانے کی ایک خطرناک مہم جوئی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ریاست کی ذمہ داری اور کیپسٹی کیا ہے اور اس ضمن میں لوگوں کو اکسانے اور انتشار پر آمادہ کرنے کے جرم میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود وہ اشتعال انگیز ی سے باز نہیں آتے جس پر شاید اب خاموش رہنا پاکستانی ریاست کے وسیع تر مفاد میں ممکن نہیں ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ جو عناصر اس بے بنیاد مہم جوئی میں شامل ہیں ان سب کو بروقت لگام ڈال کر ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور مذید مصلحت سے کام نہ لیا جائے ورنہ جس راستے پر بعض لوگ چل پڑے ہیں خدانخواستہ اس راستے پر کوئی حادثہ پیش آیا تو اس کی تلافی ممکن نہیں ہو گی اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی سے بہت سے سنگین اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔

Maqbool Aamir

پشتونوں کی اردو زبان سے الفت

تحریر :ڈاکٹر عبدالودود خان
بنوں ، خیبر پختونخواہ میں اردو کے جان کیٹس ، مقبول عامر کا شہر ہے ۔ یہاں تینتیس سال کی عمر میں پشتو بولنے والے مقبول عامر نے ” دیے کی آنکھ ” سے اپنے ارد گرد دیکھا ، محسوس کیا اور شعر کہے۔ یہیں بنوں سے آگے ڈی آئی خان کے غلام احمد قاصر نے اردو شاعری کی اور جم کر کی حالانکہ ان کی ماں اردو نہیں بولتی تھیں۔ کرک میں پشتو شعر کہنے والے شمس الزمان شمس مرحوم نے اردو کا حق ادا کیا اور سینکڑوں شعر اردو میں کہے اور انہی کے بھانجے عدنان سالار نے روایت آگے بڑھائی اور اردو میں آج بھی شعر کہتے ہیں۔ کوہاٹ کے احمد فراز سے لے کر پشاور کے رضا ہمدانی اور فارغ بخاری تک، سب نے اردو کا دامن مزید وسیع کیا۔
لیکن ہمیں ایک گلہ ضرور ہے!
ہمارے اردو تلفظ اور لہجے کا مذاق اڑانے والے کراچی لاہور ، بہاولپور و فیصل آباد کے ادیبوں شاعروں کو ہمارے المیوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ انہیں جینز کے ممنوع ہوجانے کا دکھ ہے۔ انہیں یہ پریشانی ہے کہ جغرافیہ فلسفہ سائنس کیمسٹری سائیکالوجی جاننے والوں کو ” اس ” کے گھر کا پتا بھی معلوم ہے یا سب علم بیکار جارہا ہے۔ ان کے سر درد نہیں جاتے تو انہیں شعر میں ” کسی ” کو مخاطب کرنا پڑتا ہے کہ “انگلیاں پھیر میرے بالوں میں” لیکن انہیں پشتون شاعر کا وزیرستان، سوات، پشاور اور کابل محسوس نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان تک پشتونوں کے بازاروں کے سنسان ہو جانے کے دکھ کی شدت پہنچتی ہے۔ سستے مارکسی مضامین لے کر یکم مئی کو نظم کہنے سے اور محرم میں صرف حق حسین اور مرگ بر یزید کہنا کافی نہیں ہے۔ قلم کا ، حرف کا حق تب تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک گھروں سے اٹھائے گئے بے گناہوں کی ماؤں بیویوں اور بچوں کا نوحہ نہیں لکھا جاتا۔ دریا کنارے پیاس سے مار دئے جانے والوں کا گیت لکھے بغیر حرف کی حرمت قائم نہیں کی جا سکتی۔
ہم پشتون، اردو کے معاملے میں غیر اہل زبان لوگ ہیں۔ ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ ہماری اردو اتنی شاندار نہیں ہوتی جتنی اہل زبان لوگوں کی ہوتی ہے۔ ہمیں مذکر مونث کا فرق اکثر و بیشتر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ کہا “ہیں” لکھنا ہے اور کہاں “ہے” یہ ہمیں سوچنا پڑتا ہے۔ ہمیں کبھی کبھار الفاظ کے تلفظ میں بھی دشواریاں پیش آ جاتی ہیں لیکن ہم اردو میں لکھت پڑھت ترک نہیں کرتے۔ طعنے سنتے ہیں ، ٹی وی ڈراموں میں ، سماجی میڈیا میں مذاق کا نشانہ بنتے ہیں لیکن ہم سیکھنے سے باز نہیں آتے۔ اپنی خوشیوں کی مہک ہو یا اپنے دکھوں کی تپش ، ہم اپنے تجربات اور مشاہدات اردو کے دامن کے حوالے کر آتے ہیں۔ گاؤں کی شاموں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر پشتو میں لگائی گئی گپیں ترجمہ کر کے اردو کی چوکھٹ پر رکھ آتے ہیں۔ پشتو میں کئے گئے سفر اور دیکھے گئے خواب اردو کو مفت میں دے دیتے ہیں۔ گاؤں کے صحن میں گرمیوں کی راتوں میں چاند اترتا ہے تب اس سے پشتو میں بات کرتے ہیں لیکن عقیدہ ہے کہ زبان جو بھی ہو مقدس ہوتی ہے ، اس لئے اردو کو بھی شامل حال کر لیتے ہیں۔
کوئی پڑاؤ نہیں وقت کے تسلسل میں
یہ ماہ و سال کی تقسیم تو خیالی ہے