آُص

پاکستان- بعد از سانحہ اے پی ایس

سانحہ اے پی ایس کو نہ تو کوئی بھول سکتا ہے اور نہ ہی بھولنا چاہیے کیونکہ اس واقعے کے دوران جہاں 100 سے زائد معصوم بچوں کی جانیں لے کر وحشت کی مثال قائم کی گئی وہاں یہ سانحہ پاکستان کے عوام ،سیاسی قوتوں اور اداروں کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک صفحے پر لانے کا ذریعہ بھی بنا۔ 16 دسمبر 2014 خیبرپختونخوا اور پاکستان کے علاوہ پوری مہذب دنیا کو جھنجھوڑنے والی ایسی تاریخ ہے جس نے شدت پسندی، پرا کسیز اور دہشت گردی کے بیانیہ کو نہ صرف یکسر تبدیل کیا بلکہ مذہبی جنونیت کو انسانیت خصوصاً مسلمانوں کے لیے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ اس سے قبل شہر استقلال پشاور کو سال 2008 سے 2013 کے درمیان 100 سے زائد حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا جن میں تقریباً 50 خودکش حملے بھی شامل تھے۔ تاہم شہر کے بہادر شہریوں، اداروں اور سیاستدانوں نے حالات اور حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر اے پی ایس کے ہر معصوم بچے کو سب والدین نے اپنی اولاد اور بچوں نے بھائی سمجھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے جہاں ایک موثر قومی پالیسی سامنے آئی اور فورسز نے پورے ملک میں کارروائیاں شروع کیں وہاں ان لوگوں کی ہمدردیاں بھی نفرت میں تبدیل ہو گئیں جو کہ لمبے عرصے سے بوجوہ و شدت پسندوں کے حامی تھے۔
فوج اوروفاقی ،صوبائی حکومتوں نے متاثرہ خاندانوں کے لیے ذہنی، معاشی پیکیج دئیے تو دوسری طرف حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں کے علاوہ سکیورٹی کے ذمہ داران کے خلاف ادارہ جاتی اقدامات بھی کیے گئے اور ایک اعلی سطحی تحقیقاتی عمل یا پراسِس کو بھی سامنے لایا گیا جس نے 500 صفحات پر مشتمل رپورٹ پبلک کی اور کسی بات یا ذمہ دار کو نہ تو چھپایا گیا نہ ہی کسی سے رعایت برتی گئی۔


قوموں کی تاریخ میں سانحات اور حادثات آتے رہتے ہیں تاہم اس سانحے نے پاکستانی ریاست اور سوسائٹی کے علاوہ قومی بیانیہ کو نئی سمت اور ہمت دی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام تر پراکسیز اور کوششوں کے باوجود آج پختونخواہ سمیت پورا ملک ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر اور محفوظ ہے۔
اس واقعے کے بعد لمبے عرصے تک سازشی تھیوریاں بھی بعض سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے زیر گردش رہیں تاہم کمیشن کی رپورٹ کو جن لوگوں نے پڑھا ہے اس کے بعد بہت سی افواہیں اور بد گمانیاں دم توڑ گئی ہیں اور اس سانحے کی تمام تفصیلات، کردار اور اقدامات سامنے آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک اور پورا خطہ اب بھی بعض خطرات اور چیلنجز کی لپیٹ میں ہے اور ہماری فورسز کی قربانیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم زندہ اور باشعور قوموں کی طرح ہم نے نہ صرف حالات کا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اپنے شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں بھی جانےنہیں دینا۔