Today

پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات اور مستقبل

پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین کے ایک رسمی اجلاس میں یہ فیصلہ پھر نہ ہو سکا کہ اس اتحاد نے حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے یا نہیں۔  محض یہ اعلان سامنے آیا کہ 23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف مارچ کی صورت میں احتجاج کرنا ہے۔  ذرائع کے مطابق اتحاد کے مرکزی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز رکھی جو کہ حسب سابق دیگر جماعتوں نے مسترد کر دی۔  اس ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ سب سے زیادہ مزاحمت مسلم لیگ (ن )کی جانب سے سامنے آرہی ہے۔  اس ردعمل پر کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ناراضگی اور مایوس کا بھی اظہار کیا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم نہ صرف یہ کہ بوجوہ  ایک منظم اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ یہ دن بدن سکڑتی جا رہی ہے اور عوام کی حمایت بھی کھو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن ) اندرونی اختلافات کا شکار ہے تو پیپلز پارٹی اور اے این پی بوجوہ اس اتحاد سے الگ ہو چکی ہیں اور ان کی واپسی کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔عمران خان کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کو ایک مفلوج اور انتہائی غیر فعال اپوزیشن کا سامنا ہے حالانکہ عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن بھی نہیں ہیں۔  عمران خان کو بھی غالباً اس فیکٹر کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے وہ آرام سے حکومت انجوائے کر رہے ہیں ۔

آج اگر پاکستان کو انتظامی اور معاشی مسائل کے علاوہ سیاسی بے چینی کا سامنا ہے تو اس میں حکومت کے علاوہ اپوزیشن کا بھی پورا حصہ ہے کیونکہ ابوزیشن پارٹیاں ایک صفحے پر نہیں ہیں۔  23 مارچ کو احتجاج کرنے کا اعلان محض ایک لولی پاپ ہے کیونکہ اس درمیان تقریباً ساڑھے تین مہینوں کا لمبا عرسہ حائل ہے اگر یہ کہا جائے کہ اپوزیشن یا پی ڈی ایم عملاً کچھ بھی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو غلط نہیں ہوگا۔

 بعض حلقے دل بہلانے کے لیے مائنس ون نامی ایک خیالی فارمولے کا ذکر پھر سے کرنے لگے ہیں حالانکہ اس کے دعوے چار پانچ بار پہلے بھی سنے جا چکے ہیں اور کسی کو مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بوجوہ کچھ خاص ڈیلیور نہیں کر رہی اور معاشرے کو نفسیاتی اور معاشرتی ڈپریشن کا سامنا ہے۔  تاہم متبادل بھی ملک کو دستیاب نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر  ہی ہوں گے۔  اس لیے بہتر آپشن یہ ہے کہ غیر ضروری مزاحمت اور کشید گی کی بجائے نئے الیکشن کی تیاریاں کی جائیں اور حکومت بھی سنجیدگی سے ملک کو مسائل سے نکالنے کی کوشش کرے۔