پارہن

درہ آدم خیل کی اسلحہ صنعت اور گورنر کے پی کی کوششیں

درہ ادم خیل پشاور اور کوہاٹ کے درمیان واقع ایک ایسا علاقہ ہے جو کہ ہر دور میں اپنی انفرادیت کے باعث ہر طبقے کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ درہ ادم خیل مختلف خصوصیات اور اسباب کے باعث مشہور ہے تاہم اس کی شہرت اور شناخت کی بڑی وجہ یہاں صدیوں سے موجود اس کی اسلحہ سازی سے متعلق وہ صنعت ہے جو کہ کسی بھی دوسرے علاقے کو میسر نہیں رہی۔
اسلحہ سازی کو ایک مشکل کام اور فن سمجھا جاتا ہے تاہم خیبر پختونخوا کے بعض علاقے اس حوالے سے عالمی اور قومی شہرت رکھتے ہیں جن میں باجوڑ، دیر، کرم اور پشاور سرفہرست ہیں تاہم درہ آدم خیل اس فہرست میں سب سے نمایاں ہے اور یہی صنعت اس کی شناخت بھی رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 4-2003 تک درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کی تقریباً 2800 دکانیں تھیں جبکہ 800 کے لگ بھگ ایسی فیکٹریاں یہاں موجود تھیں جو کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگ درہ آدم خیل اور اس کے مضافات میں چلا رہے تھے اور اس کاروبار سے نہ صرف مقامی بلکہ دوسرے علاقوں کے بھی ہزاروں لوگ وابستہ تھے۔ ابتداء میں یہ علاقہ چھوٹے ہتھیار بنانے تک محدود تھا جن میں پستول اور بندوق شامل تھے۔ تاہم 1980 کے بعد جب افغان جنگ کے باعث اس خطے میں سوویت یونین، امریکا، چین، ترکی اور بعض دیگر اہم ممالک کا آنا شروع ہو گیا تو اس صنعت سے وابستہ درہ آدم خیل کے کاریگروں نے بھاری اور جدید اسلحہ سازی کا کام بھی شروع کیا اور ان کی مہارت کا یہ عالم رہا کہ بعض اوقات اسلحہ کے ماہرین بھی اصلی اور نقلی اسلحہ کا فرق سمجھ نہیں پا رہے تھے۔
کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی مختلف اسلحہ مارکیٹوں میں روسی اور چینی کلاشنکوف اور درہ کلاشنکوف وہ لوگ بھی ایک جیسی قیمت پر خریدا کرتے تھے جو کہ اسلحہ کے ماہر سمجھے جاتے تھے کیونکہ مقامی کاریگروں کی نہ صرف یہ صفائی اور کوالٹی مثالی تھی بلکہ بنائی گئی بندوقوں کی کارکردگی بھی روسی اور چینی اسلحہ سے کم نہیں کی تھی۔ اسی طرح امریکا، پولینڈ، بیلجئیم، فرانس اور ترکی کے شہرت یافتہ پستول بھی یہاں کمال مہارت سے بنائی جاتی تھیں اور اسلحہ کم قیمت پر دستیاب ہونے کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ تاہم 2004 کے بعد صنعت حکومتی اداروں کے دباؤ اور بعض پابندیوں کی زد میں آنی شروع ہو گئی اور اس کی پہلی والی حیثیت اور اہمیت نہیں رہی۔

خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان کا لمبے عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ درہ آدم خیل کی اسلحہ سازی کی صنعت کو حکومتی سرپرستی میں لے کر یہاں کے کاریگروں کی مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں وہ گورنر بننے کے بعد نہ صرف متعدد کوششیں کر چکے ہیں بلکہ وہ اس معاملے کو وزیراعظم عمران خان سمیت بعض دیگر متعلقہ حکومتی حکام کے نوٹس میں بھی لاتے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر درہ آدم خیل کے ان کاریگروں اور اس صنعت کو اچھے طریقے سے زیراستعمال لایا جائے اور بعض شہرت یافتہ ملکی اسلحہ ساز کمپنیوں کی مدد سے ان کاریگروں اور ان کے کاروبار کو فروغ دیا جائے تو اس سے جہاں ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے وہاں ان بے مثال کاریگروں کی مہارت سے فائدہ بھی اٹھایا جاسکے گا۔
گورنر موصوف نے اس ضمن میں گزشتہ روز گورنر ہاؤس پشاور میں ایک اعلٰی سطح اجلاس کی صدارت کے دوران ہدایت کی کہ درہ آدم خیل کی اس صنعت سے اب بغیر کسی تاخیر کے عملی فائدہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے جن افراد کو اس اجلاس میں مدعو کیا تھا ان میں سمال انڈسٹریز کے عہدیداران کے علاوہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کے حکام بھی شامل تھے۔ اس موقع پر فریقین کے درمیان اس مسئلے پر مختلف قسم کی تجاویز کا تبادلہ ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بعض بنیادی نقاط، رائے اور ایک مجوزہ پلان پر اتفاق رائے کا اظہار کیا جا چکا ہے۔
گورنر ہاؤس کے اعلامیہ کے مطابق گورنر نے اس موقع پر کہا کہ درہ آدم خیل میں ہاتھ سے اسلحہ بنانے والے ورکرز ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں اور ان کا تیار کردہ اسلحہ دنیا بھر میں متعارف کرانا ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا کہ گن پروفنگ کے بعد درہ آدم خیل کا اسلحہ دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیا جاسکے گا کیونکہ بقول گورنر شاہ فرمان یہاں پر ہاتھ سے بننے والا اسلحہ دنیا کے لیے بہت کشش کا سبب بن کر نہ صرف کاریگروں اور اس علاقے کی معاشی خوشحالی کا ذریعہ بنے گا بلکہ یہ ملک کے لئے بھی فائدہ مند ہوگا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ درادم خیل کے ان کاریگروں کی مہارت سے استفادہ حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ گورنر کے پی کی خواہش اور کوششوں کو عملی شکل دے کر ان افراد کی بھرپور سرپرستی کی جائے۔

Mansor

The first NCA Musicology graduate from KP

Ali Murad Khan( 23) from Khyber Pakhtunkhwa (KP) who got a professional degree in Musicology from well know NCA-Lahore last year had become the first-ever student from KP who got a music degree. Ali Murad Khan who basically belongs to Mohmand district of KP has been fascinated by music and arts since his childhood has defied all the social odds by adopting music and arts as a profession.

While talking to Voice of KP, Ali Murad Khan said, “learning professional music and arts had always been my dream, to fulfill which I enrolled myself in NCA”. Ali Murad said that although he belongs to a conservative region of Mohmand district has faced militancy as well but his family has always supported him and had never stopped him from fulfilling his dream. He said his family members are open minded and very supportive, saying that it was his family support that he is pursuing a career as a professional artist and musician.

“I did not know about the fact that I was the first and only one from KP who is pursuing professional degree of Musicology from NCA”, Ali said. According to Ali, choosing arts and music as a career was not an easy decision at all for him as there were some social challenges around,  he had to face before going to NCA.

Ali said, “Our society has been through Talibanisation and war on terror for the last few decades which has badly affected the mentality and attitudes of people. Space  for arts and music is shrinking with every passing day and this is the reason that choosing music as a professional career is itself a challenge to face with.”

About his future planning Ali said, he wanted to work on the mindset of people in tribal districts and bring the youth toward music and arts to beat extremism and violence as this mindset has already cost Pashtun belt a lot. Ali Murad in his concluding remarks said that music and arts were important for the peace and prosperity of the society, saying that he is committed to establish a music and arts academy in Pakistan to educate and aware youth about importance of music and offer them opportunities to learn music and play positive role in the society.