Nan

ایک توجہ طلب مسئلہ

ایک عام تاثر یہ تھا کہ بی آر ٹی کھولنے سے پشاور کے ٹریفک اور رش کے مسائل کم یا حل ہو جائیں گے تاہم ایسا اس کے باوجود ممکن نہ ہوسکا کہ اس منصوبے کے ذریعے شہریوں اور سواریوں کو بہت بہتر اور باسہولت سفر میسر آچکاہے۔

پشاور جہاں آلودگی اور زیر زمین پانی کی قلت کے مسئلہ سے دوچار ہے وہاں اس تاریخی شہر کو ناروا اور ناقابل اصلاح رش کا بھی سامنا ہے۔ سڑکیں کم جبکہ آبادی زیادہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام تر حکومتی اقدامات کے بے ہنگم ٹریفک اور رش کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جارہا ہے اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ شہری بدترین ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسران ہر مہینے نیا پلان لے کر آتے اور آزماتے رہتے ہیں۔ جرمانہ بڑھائے جاتے ہیں، آگاہی مہمات چلائی جارہی ہیں مگر مسئلہ جوں کا توں ہے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے۔

ہزاروں رکشے اور موٹرسائیکلیں سڑکوں پر قواعد و ضوابط کی پرواہ کیے بغیر محو سفر ہیں جبکہ موٹرسائیکلوں سے فٹ پاتھ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ 1960 اور 1970 کی بسیں اور ویگنیں اب بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہو رہی ہیں مگر کسی کو کوئی احساس اور پرواہ نہیں حالانکہ بی آر ٹی کی ڈیزائننگ اور پلاننگ کے دوران فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان پرانی گاڑیوں کو سکریپ میں تبدیل کیا جائے گا یا مین روٹس سے باہر کیا جائے گا۔ صوبائی دارالحکومت کے 50 فیصد ٹریفک سگنلز ہر وقت خراب ہو تے ہیں جبکہ رشزدہ چوکوں میں پہلے کی طرح اب ٹریفک سپاہی بھی نظر نہیں آتے۔ ایسے میں روزانہ درجنوں افراد حادثوں کا شکار ہو رہے ہیں مگر سگنل سسٹم کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

لوگوں کے احساس ذمہ داری کی یہ حالت ہے کہ وہ ایمبولنس کو راستہ دینے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے جبکہ کار پارکنگ کا کوئی موثر نظام بھی موجود نہیں. یہ صورتحال صرف پشاور تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ کہ درجنوں شہر اس سنگین مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ مردان، چارسدہ، مینگورہ، ایبٹ آباد اور ڈی آئی خان کو اس مسئلے کا سامنا ہے مگر ہر باب اختیار نے ابھی تک اس کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ان تمام شہروں میں نقل و حرکت اب ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلہ کے لئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ کر کے عوام کو مزید تکالیف اور ڈپریشن سے بچایا جائے۔