44835e62-0387-4d5a-b9a8-939219b5861b

کس بات کی مشاورت اور کیوں؟

قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے ایک ایونٹ سے اپنے خطاب میں عجیب قسم کی منطق اپنا کر کہا ہے کہ قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنا لازمی ہے جبکہ اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ انضمام کا فیصلہ کتنا نتیجہ خیز ثابت ہو گیا ہے۔ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نور الحق قادری نے انکشاف کیا کہ جن مقاصد کے حصول کے لیے سابق فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل یا ضم کیا گیا تھا ان مقاصد میں ان کے بقول 10 فیصد بھی حاصل نہیں کیے جا سکے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ این ایف سی میں قبائلی اضلاع کے لیے مختص 3 فیصد حصہ دلوانے کے لئے لابنگ کی جائیگی۔

اس سے قبل ایک اور پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر حیدر علی نے کہا کہ قبائلی علاقہ جات کی صورتحال کا جائزہ لینے کمیٹی جلد پشاور کا دورہ کرے گی۔ تینوں اہم حکومتی ذمہ داران سے لگ تو یہ رہا ہے کہ ان کو ان دعوؤں یا اقدامات پر سرے سے کوئی اعتماد ہی نہیں جو کہ ان کے وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمود خان سمیت بعض اہم متعلقہ ریاستی حکام قبائلی علاقوں کی سیکورٹی، ترقی اور تعمیر نو کے بارے میں کہتے یا کرتے آئے ہیں۔

 ان بیانات سے تو یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے تینوں حکومتی عہدیداران اپوزیشن میں یا انضمام  کے مخالفین کی زبان بول رہےہوں۔جہاں تک مشاورت کا تعلق ہے اس کا پراسس سرتاج عزیز کمیٹی کے ذریعے برسوں قبل مکمل کی جا چکی ہے اور پارلیمنٹ میں اس پر لمبی بحث بھی ہوتی رہی ہے۔  اب ضرورت عملدرآمد کی ہے جس میں حکومت یا تو سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے یا سول ادارے درکار صلاحیتوں سے محروم ہیں۔

 این ایف سی ایوارڈ میں سے 3 فیصد کا حصہ ملتا ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو 100 ارب روپے بقول وزیراعظم اور وزیراعلی ہر برس قبائلی اضلاع کو مل رہے ہیں ان میں کتنے خرچ ہو گئے ہیں اور کہاں خرچ ہوگئے ہیں؟  اس سوال کا جواب دیا جائے کہ اب بھی پاک فوج سول معاملات نمٹانے پر کیوں مجبور ہے اور سول ادارے ٹھیک طریقے سے اپنے فرائض کیوں سرانجام نہیں دے رہے؟

 اس  اسٹیج پر حکومت مشاورتیں نہیں کرتیں بلکہ مینڈیٹ ملنے کے بعد ابہام پھیلانے کی بجائے عملی اقدامات کرتی ہیں۔  جہاں تک نورالحق قادری کے تبصرے یا انکشاف کا تعلق ہے وہ ایک وفاقی وزیر ہو کر اب بھی فاٹا انضمام کی مخالفت کس طرح کر سکتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر بھی ہے اور باعث حیرت بھی۔مشاہدے میں آیا ہے کہ فاٹا مرجر کے معاملے اور طریقہ کار پر حکومتی صفوں میں اب بھی نہ صرف یہ کہ ابہام اور اختلافات موجود ہیں بلکہ اہم حکومتی عہدیداران پالیسی میکنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت بھی نہیں کرتے۔  اس رویے کے اِن اقدامات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں جو کہ قبائلی اضلاع کے لیے کیے جا رہے ہیں۔  وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ ،گورنر  اور کور کمانڈر کو ایسے بیانات کا نوٹس لینا چاہیے۔