Taaaalks with ttp

مجوزہ مذاکراتی عمل کا پس منظر اور اس کی مخالفت

وزیراعظم عمران خان کے اس انٹرویو پر ملک بھر میں بحث جاری ہے جس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کے ذریعے مذاکرات یا رابطہ کاری میں مصروف ہے۔ ان کے مطابق یہ عمل ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم جو گروپ ہتھیار ڈالیں گے ان کو عام معافی دی جاسکتی ہے۔  یہی بات اس سے قبل صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چند ہفتے قبل کہہ چکے تھے تاہم عمران خان کے انٹرویو پر حسب توقع اپوزیشن اور بعض نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس مجوزہ عمل کے بارے میں دو اہم اعتراضات یا نکات اٹھائے ہیں۔ ایک تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا حکومت اے پی ایس کے شہدا سمیت ٹی ٹی پی کے ہاتھوں دوسرے ہزاروں نشانہ بننے والوں کو معاف کرنے جا رہی ہے۔

دوسرا سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا اس اعلان سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے اس کے پس منظر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جس روز وزیراعظم کا انٹرویو سامنے آیا اس سے اگلے روز وزیرستان میں فورسز کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں نصف درجن سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ تاہم اس قسم کے رابطے ایسے واقعات کے باوجود بیک ڈور پالیسی کے تحت جاری رہتے ہیں اور ماضی میں بھی یہ عمل دہرایا جاتا رہا ہے۔ افغان طالبان نے 20 سالہ جنگ کے دوران امریکا اور نیٹو کے تقریباً دس ہزار فوجیوں اور اہلکاروں کو ہلاک کیا تاہم دوحہ مذاکراتی عمل کے دوران ماضی کی ہلاکتوں کا ذکر کرنے کی بجائے مستقبل کے لائحہ عمل پر فوکس رکھا گیا اور معاہدہ کے تحت امریکی وہاں سے نکل بھی گئے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر حملہ آوروں نے حملے کئے تو جواب میں فورسز نے بھی ٹی ٹی پی اور دیگر کے خلاف سینکڑوں کاروائیاں کرکے ہزاروں کو نشانہ بنایا۔ سال 2010 کے دوران فورسز نے صرف قبائلی اضلاع میں پچاس کے لگ بھگ آپریشن کیے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

جہاں تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے ایسی رابطہ کاری ہمیشہ خفیہ رکھی جاتی ہے اور اس پر بحث اس وقت کی جاتی ہے جب یہ معاہدہ اعلان کی سطح پر پہنچ جائے اور شرائط سامنے آجائیں۔ سوال تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب پیپلز پارٹی اوراے این پی 2009 میں سوات معاہدہ کر رہی تھی تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ؟ اسی طرح جب 2014میں نواز شریف حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر رہی تھی تو ایسا کیا گیا تھا؟

سن 2009 کے سوات معاہدے کا مسودہ اگر نکالا جائے تو اس سے واضح یہ ہوگا کہ 70 فیصد شرائط طالبان کی مانی گئی تھیں۔ حکومت نے محض حملے نہ کرنے کی اپنی شرط منوائی تھی۔ اسی طرح جب نواز حکومت نے ایک جگہ تشکیل دے کر اس کو متعدد بار وزیرستان بھیجا تو اس دوران بھی متعدد بڑے حملے کرائے گئے تاہم یہ عمل اس لیے روکنا پڑا کہ جرگہ کے بعض ارکان نے میڈیا پر مسلسل آکر بدگمانیاں پیدا کیں اور اس عمل کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔  تازہ مثال امریکا کی دی جاسکتی ہے جس میں 2019 کے دوران دوحہ مذاکراتی عمل کا آغاز کیا مگر اس دوران میں  نا تو پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی 2020 کے اوائل تک کسی کو تفصیلات معلوم ہوسکیں۔

جہاں تک موجودہ مجوزہ رابطہ کاری کا تعلق ہے اس کا آغاز جون 2019 کے دوران ہوا تھا جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان اس معاملے پر بات چیت ہوئی کہ اگر طالبان ٹیک اؤر کرتے ہیں تو ان ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کا کیا ہوگا جو کہ افغانستان میں موجود ہیں اور پاکستان پر حملے کرتے آرہے ہیں۔ 15 اگست کے بعد طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے لئے 3 رکنی کمیٹی قائم کی جس نے انہیں اپنے خدشات اور فیصلے سے آگاہ کیا اور ان کو تجویز پیش کی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں۔ اسی دوران ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرے اور یہ کہ افغان حکومت کسی کو بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے نہیں دے گی۔ عمران خان نے شاید حالیہ بیان اسی پس منظر میں دیا ہو اگرچہ بعض سنجیدہ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ  اس اسٹیج پر ان کو یہ بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ایک بات تو طے ہے کہ خطے کے حالات بدل گئے ہیں اور مزید بدل رہے ہیں اگر ٹی ٹی پی جنگ اور حملے ترک کرتی ہے اس میں برائی یا نقصان ہی کیا ہے؟

 ٹی ٹی پی کی مزاحمت کی ایک بنیادی وجہ افغانستان میں امریکی مداخلت اور 2001 کے بعد پاکستان کا امریکہ کا اتحادی  ہوناتھا۔ اب وہ جواز ختم ہو چکا۔ ٹی ٹی پی کے سنجیدہ لیڈران کو یہ احساس ہو چکا ہوگا کہ اگر وہ مزاحمت جاری رکھتے ہیں تو اس سے اس نئی افغان حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا جس کی ٹی ٹی پی حامی رہی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مخالفت کی بجائے پاکستان کو درپیش چلینجز کے تناظر میں اس معاملے پر حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ غیر ضروری بیانات سے گریز کرے اور اگر ممکن ہو تو پارلیمانی لیڈروں کو اعتماد میں لے۔