editoriaal

خیبر پختونخوا کے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے خلاف مہم

خیبرپختونخوا سیاسی پارٹیوں، لیڈروں کے علاوہ صحافیوں اور تجزیہ کاروں سمیت بعض عالمی شہرت یافتہ دانشوروں کا مرکز اور گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے اس کے بنیادی اسباب میں یہاں کا مخصوص جغرافیہ منفرد سماجی ڈھانچہ اور افغانستان، قبائلی علاقہ جات کے جاری حالات شامل ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں اس صوبے کے صحافیوں نے ان کے حق میں تمام تر خطرات کے باوجود بہت مثبت کردار ادا کیا وہاں سب سے زیادہ صحافی بھی صوبے میں شہید اور زخمی ہوئے قبائلی علاقہ جات سے درجنوں نقل مکانی پر مجبور ہوئے تو درجنوں نے یہ پیشہ ہی چھوڑ دیا اس کے باوجود پشاور عالمی صحافتی اداروں کا مرکز بنا رہا۔ حالانکہ عالمی اداروں میں سے اکثر ایجنڈا بیسٹ کام کرتے رہے پھربھی بہت سے معتبر صحافیوں نے امن کے لئے ذمہ دارانہ کام کرکے اطلاعات کی بروقت فراہمی کے علاوہ حقائق۔پر مبنی تجزیےاور تبصرے بھی کیے۔

حال ہی میں دوحہ معائدے بعد افغانستان میں حالات نے نئی کروٹیں لینا شروع کیں تو پشاور کے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی اکثر  نے لیڈنگ رول ادا کیا کہ یہ شہر 1980 کے بعد سے لے کر اب تک نہ صرف افغان سورسز کا مرکز بنا رہا ہے بلکہ نائن الیون کے بعد افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر بھی ہوتا آیا ہے اور متعلقہ صحافی مسلسل افغانستان جا کر رپورٹنگ کرتے رہے ہیں ۔افغانستان میں طالبان نے پیش قدمی شروع کی تو امریکی ،عرب اور اور یورپی میڈیا نے خصوصی کوریج اور پروگرام ترتیب دے کر افغانستان کے معاملات اور بدلتے حالات کو غیر معمولی جگہ دینا شروع کر دی کیوں کہ افغانستان کا مسئلہ اپنی ایک علاقائی اور عالمی پس منظراور اہمیت رکھتا ہے اسی تناظر میں پاکستان اور ایران جیسے ممالک کو صحافت اور سیاست کے پس منظر میں اس صورتحال کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ دونوں ممالک نہ صرف افغانستان کے پڑوسی ہیں اور وہاں کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے بلکہ وہاں کے حالات برسوں سے ان ممالک پر منفی  انداز میں اثر انداز بھی ہوتے آئے ہیں

خیبر پختونخواہ کے اکثر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے جب افغان صورتحال پر فوکس کرنا شروع کیا تو بعض سیاسی اور سماجی حلقوں نے ان کو پرو طالبان کہہ کر ان کی کردار کشی شروع کی اور ان پر خفیہ اداروں کے لیے کام کرنے کا الزام بھی لگایا۔حالانکہ انہی تبدیلیوں اور ایشوز پر دنیا کا ہر میڈیا لگا ہوا تھا ۔ ناقدین نے صحافتی طریقہ کار سے نابلد ہونے یا بغض معاویہ کے مصداق اپنے سیاسی ایجنڈے اور ناکام خواہشات کی بنیاد پر معتبر اور ذمہ دار اداروں کے میڈیا پرسنز پر ذاتی حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔

پاکستان کے میڈیا کا مجموعی کردار بہت پیشہ ورانہ اور ذمہ دارانہ رہا بعض سیاسی پارٹیوں نے بدلتے حالات کے ادراک کے بغیر اطلاع سے فائدہ اور رہنمائی لینے کی بجائے خواہشات پر مبنی فیک نیوز اور پروپیگنڈے پر انحصار کرکے اسے پروموٹ کیا اور اپنی ساکھ داؤ پر لگا دی۔ کوشش کی گئی کہ صحافیوں کوپرو طالبان قرار دے کر ان پر دباؤ بڑھایا جائے اور اسی مقصد کے لیے بعض لبرل اور قوم پرست حلقوں نے بنیادی اخلاقیات اور سماجی رابطوں کا خیال بھی نہ  کیا یہ عناصر حسب عادت نام نہاد سوشل میڈیا سے چمٹے رہے اور انہوں نے عالمی میڈیا کے ٹرینڈز کو غیر معمولی کوریج کو بھی دیکھنے یا پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں یہ لوگ افغانستان اور امریکہ کے ان اداروں اور حکمرانوں کے ترجمان بنے رہے جو کہ اس بد قسمت ملک کی تباہی کےذمہ دار تھے وہاں انھوں نے جانبدارانہ اور الزام تراشی کا راستہ اپنا کر اپنے کارکنوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں بھی کیں اور ساتھ میں مین سٹریم میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات بھی خراب کئے حالانکہ باخبر صحافیوں کو ان کے اسباب لوبینگ اور فنڈنگ کا بہت پہلے سے  علم تھا جن کی بنیاد پر یہ عناصر افغان حکومت کی پشت پناہی اور دفاع کر رہے تھے ۔

پشاور بیسڈ میڈیا نے صبر رازداری اور تحمل سے کام لے کرانکے بعض ثابت شدہ رابطوں اور فنڈز کو منظر عام پر لانے سے گریز کی پالیسی اپنائی مگر یہ عناصر اپنے رویے سے باز نہیں آئے اور اپنے اکاؤں کی تسلیم شدہ شکست اور ناکامیوں کا ملبہ دوسروں کے علاوہ صحافیوں اور تجزیہ کاروں پر ڈالتے رہے اس رویے نے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا عملی طور پر کچھ نہیں بگاڑا البتہ فاصلے بڑھ گئے اور ان عناصر کے سیاسی ویژن معلومات کے ذرائع اور دیگر درکار معاملات پر سوالیہ نشان لگائے۔سچی بات یہ ہے کہ افغانستان اور خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر اب تک سب سے بہتر اور ذمہ دارانہ کام پشاور کے صحافیوں نے ہی کیا ہے اور اب بھی وہ دوسرے ممالک کے بعد آج فیلڈ میں جاکر دوسروں سے بہتر کام کر رہے ہیں جو کہ قابل ستائش ہے۔