KPK provincial budget 2021-22

صوبائی بجٹ حکومتی دعوے اور اپوزیشن کے خدشات

خیبر پختونخوا کا بجٹ برائے 2021-22 بروز جمعہ 18 جون کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ۔ حکومتی حکام اس کا حجم ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ بتا رہے ہیں جبکہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق صوبائی آمدن 53 اور ترقیاتی اخراجات 205 ارب ہیں۔

صوبائی حکومت کے مطابق 2018-19 میں ترقیاتی اخراجات 155 ارب روپے تھے جو کہ اب 205 ارب کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کے مطابق پی ٹی آئی کی دوسری حکومت میں صوبائی آمدن 31.5 سے بڑھ کر 53 ارب ہو گئی ہے جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے اعلان کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تقریباً 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے جس کے باعث سرکاری خزانے پر 50 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔

وزیراعلیٰ محمود خان نے گزشتہ روز ایک بریفنگ میں بتایا کہ نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا اور اس میں تقریباً 22 میگا پروجیکٹ شامل کیے گئے ہیں جن سے ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق نئے بجٹ میں وزیراعظم کے فیصلہ اور اعلان کے مطابق ضم قبائلی اضلاع کے لیے 60 ارب کی خطیر رقم رکھی گئی ہے تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ دیگر صوبےاین ایف سی میں اپنے حصے کے فنڈز دینے کا وعدہ اور فیصلہ پورا کریں تا کہ قبائلی اضلاع کی ترقی اور تعمیر نو کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل مالی صورتحال کے باوجود ترقیاتی بجٹ اور منصوبوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ دریں اثناء منگل کے روز ہونے والے صوبائی کابینہ کے طویل اجلاس میں متعدد اہم فیصلے کے کیئے گئے جن میں ضم شدہ اضلاع کے لیے 300 نئے ڈاکٹروں کی تعیناتی اور بلدیاتی الیکشن کا اعلان بھی شامل ہے۔ جاری کردہ بیان کے مطابق کابینہ نے بجٹ کی تجاویز اور فیصلوں پر اطمینان کا اظہار کرکے اپنی اپنی وزارتوں کی ضروریات اور کارکردگی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جبکہ بعض اعتراضات بھی کئے گئے۔
بجٹ میں صحت تعلیم اسپورٹس ٹورزم اور کلچر کے محکموں کے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ صوبے کی اپنی آمدن کے ذرائع اور شرح کو بڑھایا جائے گا اور کاروباری حلقوں کو بھی سہولتیں دی جائیں گی۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس کے دوران لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے علاوہ ڈبلیو ایس ایس پی کے لئے بورڈ ممبرز کی تقرری اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی منظوری بھی دی گئی۔ جبکہ باچا خان میڈیکل کالج کے لیے 1234 ملین گرانٹ کی منظوری بھی دی گئی۔

اگرچہ حکومت مجوزہ بجٹ کو بہت مناسب عوام دوست اور ٹیکس فری قرار دے رہی ہے تاہم اپوزیشن اور کاروباری حلقے حکومت سے وضاحت مانگ رہے ہیں کہ وفاقی بجٹ میں صوبے کے ترقیاتی بجٹ میں 25 ارب کی جو کٹوتی کی گئی ہے صوبائی حکمران اس پر خاموش کیوں ہیں؟

دوسری طرف اپوزیشن کے علاوہ خود حکومت کی اپنی بعض دستاویزات کے تناظر میں اس مسئلہ پر بھی بحث جاری ہے کہ حسب معمول گزشتہ برس بھی صوبائی حکومت سے اربوں کے فنڈز لیپس ہوئے۔ کہا گیا کہ سال 2020 کا کل بجٹ 923 ارب روپے تھا تاہم اس میں 615 ارب خرچ کئے گئے اور باقی فنڈز لیپس ہوئے۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کا 58 فیصد زیراستعمال لایا گیا اور باقی سے کام نہیں لیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران سب سے خراب کارکردگی وزارت محنت کی رہی جس نے 2.35 ارب کے بجٹ میں سے صرف 55 کروڑ خرچ کیئے۔ صحت اور تعلیم جیسے اہم محکموں یا وزارتوں کے بھی اربوں روپے لیپس ہونے کی رپورٹس ہیں۔

جہاں تک ضم شدہ اضلاع کے معاملے کا تعلق ہے اس ضمن میں سابقہ فاٹا کے ممبرانِ اسمبلی سمیت اپوزیشن کا موقف ہے کہ ان سات اضلاع میں محض 30 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں حالانکہ طے شدہ فارمولے اور فیصلے کے مطابق تین فیصد کے حساب سے ان علاقوں میں 100 سے 110 ارب روپے ایک سال میں خرچ کرنے چاہیے تھے۔ دوسری طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ انضمام کے بعد ان اضلاع میں 60 ارب سے زائد خرچ کئے گئے ہیں۔

فریقین کے الزامات یا دعوے اپنی جگہ تاہم اس بات کا اب کے بار سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے کہ کئی برسوں سے فنڈز استعمال کیوں نہیں کیا جا رہے اور صوبے کے اربوں روپے مسلسل لیپس کیوں ہو رہے ہیں؟

اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ کو براہ راست وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ سے رابطہ کرکے 25 ارب کی کٹوتی کے معاملے کو بھی زیر بحث لانا چاہئے اور اس بات پر بھی دونوں حکومتوں کے درمیان رابطہ کاری اور مشاورت ہونی چاہیے کہ وفاقی بجٹ میں بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی اور حجم کو جس طریقے سے ڈیل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے اس پر نہ صرف نظر ثانی کی جائے بلکہ وفاق کے ذمے بجلی کے بقایاجات کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے کیونکہ صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا زیادہ تر انحصار اسی منافع پر ہے۔