Covid19 situation report in Pakistan

Covid19 situation report across the country

In the last 24 hours, 71 more people have died from Covid19 across the country. 1771 new cases have been reported. In the last 24 hours, 47,633 Covid19 tests were conducted nationwide. Covid19 positive case rate was 3.71%. The rate of positive cases in Pakistan has dropped to less than 4%.

According to the National Command and Operations Center, the total number of deaths in the country has reached 20,850 while the total number of affected people is 921,824. The number of active cases across the country is 57,336 and 844,638 people have recovered from Covid19 . The highest number of deaths due to Covid19 was in Punjab where 10,039 people lost their lives while 5,039 people lost their lives in Sindh, 4,079 in Khyber Pakhtunkhwa, 762 in Islamabad, 107 in Gilgit-Baltistan, 280 in Balochistan and 544 in Azad Kashmir have lost.

Attacks on FC

Quetta attack: 4 FC personnel martyred, 8 injured

Two terrorist attacks have taken place on FC in Quetta and Turbat, as a result of which four personnel were martyred and eight others were injured.

According to ISPR, there have been two terrorist attacks on FCs in Quetta and Turbat. The first attack targeted the FC post near Pir Ismail Ziarat, where four to five terrorists were killed and seven to eight wounded in a fierce exchange of fire. Four brave FC men were martyred and six others were injured in the exchange of fire.

In another incident, an FC vehicle was hit by an IED in Turbat. Two FC personnel were injured in the incident and five terrorists were also killed. A Pakistan Army spokesman said that anti-state elements were involved in such cowardly incidents. Enemy intelligence agencies cannot harm the hard-won peace and prosperity of Balochistan. ISPR says security forces are determined to thwart such nefarious intentions by sacrificing their lives and blood.

PTM nai party

پشتون تحفظ موومنٹ اندرونی اختلافات سےدوچار

پشتون تحفظ  موومنٹ کے بعض اہم لیڈروں کا ایک اجلاس صوابی میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی ایم کو ایک سیاسی پارٹی کے ڈھانچے میں تبدیل کیا جائے گا۔

مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پارٹی بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ کہ جلد پارٹی کے نام اور منشور کا اعلان کیا جائے گا۔جاری کردہ تصویر میں شرکاء کی تعداد بہت کم دکھائی دی جب کہ جن لیڈروں نے اس میں شرکت کی ان میں محسن داوڑ، افراسیاب خٹک بشریٰ گوہر، پروفیسر اسماعیل اور عبداللہ ننگیال قابل ذکر ہیں یہ سب وہ لوگ ہیں جو کہ ماضی میں اے این پی کا حصہ رہے ہیں اور ان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر مختلف اوقات میں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے۔

 جس روز نئی مجوزہ پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا اسی  روز باڑہ میں پی ٹی ایم کے بانی منظور پشتین نے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کیا تاہم اس میں بھی کارکنوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم رہی۔

پی ٹی ایم کی جو تحریک کراچی کے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت سے وزیرستان سے محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے چلی گئی تھی اس  میں مختلف حلقوں اور طبقوں کی شمولیت کے باعث نہ صرف پی ٹی ایم میں تبدیل ہوگئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا ایجنڈا بھی پھیلتا گیا اور اس ایجنڈے نے اینٹی  پاکستان ایجنڈے کا تاثر دینا شروع کیا جس کے باعث قبائل کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم نہ صرف متنازعہ ہوگی بلکہ اس پر بیرونی فنڈنگ اور گائیڈ لائن لینے کے سنگین الزامات بھی لگے۔ دوسروں کے علاوہ اے این پی جیسی قوم پرست پارٹی کے قائدین نے بھی پی ٹی ایم پر متعدد سنجیدہ الزامات لگائے جبکہ بعض سنجیدہ حلقے محض اس لیئے اس سے الگ ہوگئے کہ اس کا ایجنڈا مسائل کے حل کی بجائے ایسے نازک معاملات تک محدود ہو گیا جس سے ریاست اور پشتونوں کے تصادم کا تاثر لیا جانے لگا ۔الزامات کے علاوہ گروپ بندیاں بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ سال 2020 کے دوران پی ٹی ایم دو واضح حصوں میں تقسیم ہونے لگی ایک گروہ وہ تھا جس کی قیادت محسن داوڑ کر رہے تھے اور اس گروپ میں اے این پی سے نکالے گئے اہم لیڈر شامل تھے جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت منظورپشتین اور دیگر لوگ کر رہے تھے یا کر رہے ہیں جن کو عوامی حلقوں میں کافی اثرو رسوخ حاصل ہے۔ پارلیمانی طرز سیاست اپنانے اور روایتی سیاسی پارٹی کے حامی پہلے والے لوگ تھے جو کہ مسلسل کوشش کرتے رہے تاہم منظور پشتین کے ساتھ جو لیڈر جڑےرہے وہ افراسیاب خٹک اور دیگر کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ سب کچھ اے این پی کے ردِ عمل میں کیا جا رہا ہے اور یہ کہ افراسیاب خٹک پارٹیوں کو توڑنے کے ماہر ہیں اس لیے ان کی خواہش اور ایجنڈے کے تحت چلنا نقصان دہ ہوگا اگرچہ اس تمام کشمکش میں منظور پشتین کی پالیسی مصالحانہ رہی ہےتاہم نجی  محفلوں میں ان کو یہ کہتے سنا گیا کہ وہ کسی کو پی ٹی ایم کو ہائی جیک کرنے نہیں دیں گے اور یہ کہ وہ نہیں چاہتے کہ جس تنظیم کی انہوں نے بنیاد رکھی وہ اور روایتی پارٹیوں کی صورت اختیار کر جائے کیونکہ ان کے بقول عام پارٹیاں پہلے سے ہی ایک بڑی تعداد میں پختونخوا میپ، اے این پی اور قومی وطن پارٹی کی شکل میں موجود ہیں۔

محسن داوڑ کے تیس مئی کے اعلان کے بعد پی ٹی ایم کی تقسیم کا نہ صرف باقاعدہ مطلب لیا گیا بلکہ سوشل میڈیا پرسینکڑوں کارکنوں نے مخالفانہ بیانات اورالزامات بھی شیئر کیے اور ان میں اکثریت نے نئی پارٹی کے قیام کو وجوہات بتائے بغیر مسترد کردیا۔ جس ایک نقطے پر پارٹی کے قیام کی مخالفت پر سب متفق نظر آئے وہ افراسیاب خٹک اور ان کے ساتھیوں کا عمل دخل ہونا تھا اس معاملے پر بحث چل نکلی اور اب بھی جاری ہے۔

 پی ٹی ایم کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اب یہ عملی طور پر نہیں رہی تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس کے لیڈر، کارکنوں کے علاوہ ہمدرد بھی تقسیم ہو چکے ہیں بلکہ اب تو حالت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات پر اترآئے ہیں ۔جب کہ منظور پشتین اور ان کے حامی لیڈروں نے محسن داوڑ کے اعلان یا بیان کے بعد تادمِ تحریر کسی قسم کا ردعمل یا بیان نہیں دیا ۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پشتون قوم پرستی کی بنیاد پر ہی  پارٹی بننے جارہی ہے تو یہ تجربہ ناکامی سے دوچار ہو گا کیونکہ ایک تو تین بڑی پارٹیاں پہلے سے ہی میدان میں موجود ہیں اور دوسرا یہ کہ ماضی میں قومی انقلابی پارٹی، نیپ اور ایسی دوسری وہ تمام پارٹیاں خود کو منوانے میں ناکام رہی ہیں جن کا افراسیاب خٹک سمیت ایسے دوسرے لیڈر حصہ رہے ہیں۔ تاہم ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر پارٹی نہیں بنائی جاتی اور اس گروپ کو کوئی تنظیمی شکل نہیں دی جاتی تو لیڈرشپ کے پاس دوسرا کیا آپشن ہے ۔ پی ٹی ایم کا طرز سیاست یا بیانیہ کیسا رہا اس بات سے قطع نظر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹوٹ چکی ہے اواس کا مستقبل بڑے خطرے سے دوچار ہے۔