TTP leader

ٹی ٹی پی کے سربراہ کا قوم پرستانہ بیانیہ

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی مشہور زمانہ کتاب“انقلاب محسود” پر اگرچہ پابندی عائد ہے تاہم جن لوگوں نے اس کو پڑھا ہے ان کے لئے اس دستاویز میں چند ایسی غیر معمولی باتیں سامنے آئی ہیں جو کہ نہ صرف بہت دلچسپ ہیں بلکہ قابل بحث بھی ہیں۔ مفتی نورولی محسود سابقہ سربراہان کے برعکس جہاں دھیمے لہجے کےسمجھے جاتے ہیں وہاں نظریاتی طور پر اس کالعدم تنظیم کے اندر ہر دور میں بہت اہم شخصیت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں وہ مختلف گروپوں کے درمیان ایک پل اور مصالحت کا کردار ادا کرتے آئے ہیں اور ان کو ٹی ٹی پی کے علاوہ القاعدہ، داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
“انقلاب محسود” میں انہوں نے متعدد ابواب میں ٹی ٹی پی کو ایک مسلح اسلامی مزاحمتی تحریک کے علاوہ پشتونوں خصوصاً قبائل کی نمائندہ تحریک ثابت کرنے کی بہت شعوری کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق یہ تنظیم قبائلی مزاحمت کاروں کی ملکیت ہے اور اس کے قیام کے مقاصد میں ایک مضبوط اسلامی نظریے کی پیروی کے علاوہ پشتونوں بالخصوص قبائل کے ساتھ ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں اور امتیازی سلوک کا فیکٹر بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے حکمرانوں اور اداروں نے ہر دور میں پشتونوں کو ان کے حقوق اور اختیارات سے محروم رکھا، ان کو بد نام کیا اور ان کے وسائل کو لوٹا۔ نور محسود کی دلیل ہے کہ اسلام اور پشتون لازم و ملزوم ہیں اور اس خطے میں اسلام کا نفاذ پشتون قبائل ہی یقینی اور ممکن بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے متعدد ابواب میں اس قسم کے دلائل دیے ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ ٹی ٹی پی کی بنیاد نفاذ اسلام کے علاوہ پشتون قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوششوں اور عملی مزاحمت کے فلسفے پر قائم ہیں۔ بہت سی جگہوں پر وہ ایک ہارڈ کور اسلامسٹ سے زیادہ ایک سخت گیر قبائلی قوم پرست دکھائی دیتے ہیں۔
سن 1995-1996کے دوران جب قندھار سے افغان طالبان کی تحریک کا آغاز ہوا تو ابتدائی طور پر اس تحریک کا ایجنڈا جن نکات پر مشتمل تھا ان میں امن کے قیام اور جنگ سالاروں کی بیخ کنی کے علاوہ پشتون قوم پرستی کا عنصر اور نعرہ بھی شامل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس میں دوسروں کے علاوہ بائیں بازو کی بڑی پارٹیوں، پرچم اور خلق کے نہ صرف سینکڑوں کارکن بلکہ درجنوں اہم رہنما بھی شامل ہوئے اور انہوں نے قوت پکڑنے کے بعد لسانی بنیادوں پر ازبک تاجک اور ہزارہ قومیتوں کے سربراہوں کو بطور خاص نشانہ بنایا۔
بعد میں افغان طالبان کے القاعدہ، “ اخوان المسلمین” اور دیگر ایسی تنظیموں کے ساتھ رابطے قائم ہوئے اور صورتحال بدل گئی پھر بھی ان پر مختلف شکلوں میں لسانیت غالب رہی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ عالمی سطح پر پشتونوں کو طالبان یا ان کے حامی کا نام دیا گیا۔ یہی فیکٹر ہمیں “انقلاب محسود” میں پورے اہتمام اور شدت کے ساتھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان کے بعض معتبر حلقے قبائلی علاقوں سے اٹھنے والی ایک اور تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں کہتے آرہے ہیں کہ اس کے ٹی ٹی پی اور بعض دوسری قوتوں کے ساتھ رابطے اور ہمدردیاں ہیں اور بلاواسطہ طور پر پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے کے بیانیہ اور طریقہ کار کو سپورٹ کر رہی ہے اگرچہ پی ٹی ایم اسکو رد کرتی ہے تاہم زمینی حقائق کے تناظر میں یہ بیانیہ بہرحال اہم حلقوں میں موجود اور زیر بحث ہے ۔
کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ٹی ٹی پی نورولی محسود اور ان جیسے دوسرے ہم خیال لیڈروں کی قیادت میں قبائلی یا پشتون قوم پرستی کے تناظر میں کھل کر سامنے آجائیں گے؟ اس کا جواب فی الوقت ہاں میں ہے۔ کتاب “انقلاب محسود” میں جہاں ان تمام حملوں اور حملہ آوروں کے علاوہ تمام تنظیمی تفصیلات موجود ہیں جو کہ ٹی ٹی پی نے مخالفین پر کرائے ۔ وہاں نورولی محسود نے افغان طالبان سمیت دوسری مسلح گروپوں اور جہادی قوتوں کے ساتھ تعلقات کار پر بھی بحث کی ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے راقم کی دو کتابوں “طالبانائزیشن” اور “آپریشن ناتمام”کے تقریباً نصف درجن حوالے دے کر مختلف ایشوز پر نہ صرف یہ کہ تفصیلی جوابات دیے ہیں بلکہ ان کتابوں میں شامل بعض دلائل کے ساتھ مکمل اتفاق کر کے ٹی ٹی پی کے باز سخت گیر رویوں اور اقدامات کی وضاحتیں بھی کی ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ افغان طالبان کے مقابلے میں ٹی ٹی پی کا رویہ سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت تھا یا یہ کہ ٹی ٹی پی کے کمانڈروں اور حملہ آوروں کو سکولوں یا دوسرے عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔
ان کی تیاری کا یہ عالم رہا ہے کہ انہوں نے دونوں کتابوں کی جن معلومات پر جوابات دیے ہیں ان کے ابواب عنوانات اور صفحات تک کے حوالہ جات دیئے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر کوشش کی ہے کہ جہاد، عالمی طاقتوں کے کردار اور افغانستان سمیت خطے کے مخصوص حالات کے تناظر میں جواب دیے جائیں۔
اب کہا جا رہا ہے کہ نور ولی محسود ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے بعض گروپوں کو متحد کرنے کی کوششوں میں تیزی لے آئے ہیں اور ان کے رابطوں کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان طالبان اور بعض دیگر گروپوں کے بعض کمانڈروں کے بھی محسود کے ساتھ روابط کاری میں تیزی آ گئی ہے تاکہ افغانستان کے بدلتے حالات میں نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ اس تمام ممکنہ صورتحال میں پاکستان کے متعلقہ اداروں کو چوکس رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ بعض سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور افغانستان کی طرح معتدل مزاج پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا ایک اور تجربہ کرنا چاہیے۔

پولیس

وزیرستان کی سیکیورٹی پولیس کے حوالے کرنے کا مطالبہ ، پی ٹی ایم کی ایک اور چال

 کچھ عرصے پہلے پی ٹی ایم نے وانا میں جلسہ کرکے کورونا ایس او پی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بے شمار افراد کی زندگی داو پر لگائی ۔لیکن اس اقدام سے بھی پی ٹی ایم قیادت کا کلیجہ ٹھنڈہ نہیں ہوا ہے کیونکہ پی ٹی ایم شروع سے ہی لاشوں کی سیاست کرتی چلی آرہی ہیں اور بہت وقت گزرا  انکو سیاست کرنے کے لیے لاش نہیں ملی تو وانا جلسے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ اب پی ٹی ایم کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں  لاشوں کی ضرورت پڑےگئی ۔پی ٹی ایم کے ایم این اے محسن داوڑنے وانا جلسے میں  حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ ایف سی اور فوج کو فوری طور پر وزیرستان سے نکالا جائے اور وزیرستان کی سیکیورٹی پولیس کے حوالے کی جائے۔وانا جلسے کے بعد یہ مطالبہ وقتا فوقتا سوشل میڈیا اور مقامی سطح پر ہونے والے پروگرامات میں پی ٹی ایم اور انکے ہم خیال لوگوں کی طرف سے دہرایا جا رہا ہے ۔

محسن داوڑ کے اس مطالبے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ وزیرستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیل کر لاشوں کی سیاست کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے ۔کیونکہ ایسے پولیس کو وزیرستان کے امن کی ذمہ داری حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا جو ابھی تبدیلی اور زمہ داریاں سنبھالنے کے عمل سے گزر رہی ہے اور جس کو  عدالتی احکامات کے باوجود یہاں ایک صحافی کے گھر کو قومی لشکر سے مسمار کرنے سے روکنے   میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا وہ پورے وزیرستان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری کیسی لے سکتی ہے ۔حالیہ دنوں میں وزیر اور دوتانی قوم کے درمیان جاری کرکنڑہ تنازعہ میں چھوٹے اور بڑے اسلحہ کے آذانہ استعمال اور اس مسئلے کو حل کرنے میں تاخیر جیسے واقعات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

 فی الحال پولیس کی تربیت جاری ہے اور  بیشتر اوقات امن و امان کے لیئے آرمی اور ایف سی سے فوری طور پر مدد طلب کی  جاتی ہے جیسا کہ کرکنڑہ تنازعہ میں ہوا ۔کرکنڑہ تنازعہ میں ڈپٹی کمشنر کے ڈی پی اور کو سیکیورٹی کنٹرول کرنے کے لیے کئی خطوط ارسال کئے جس پر ڈی پی او صاحب کا کہنا تھا کہ غیر تربیت یافتہ پولیس فورس کی وجہ سے تا حال ہم اس قابل نہیں ہے کہ ہم حالات کو کنٹرول کر سکیں اس کے لیے ہم نے ایف سی اور آرمی سے مدد طلب کی ہے

ایسے  میں پولیس کو وزیرستان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری حوالے کرنا وزیرستان کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنا نہیں ہے تو کیا ہے ؟۔گزشتہ کئی دنوں سے مختلف حلقوں میں یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وزیرستان کے امن کی ذمہ داری پولیس کے حوالے کی جائے گی اگر یہ بات درست ہے تو یہ وزیرستان کے عوام کے ساتھ بہت نا انصافی ہوگی یہ فیصلہ ان قبائلی خاندانوں اور فوجی خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کردار ادا کرے گا جھنوں نے امن کے قیام کے لیے  قربانیاں دیں کسی نے بیٹے کی قربانی دی کسی نے بھائی کی قربانی دی،کسی نے شوہر کی قربانی دی  جبکہ کسی نے باپ جیسے عظیم رشتے کو جنوبی  وزیرستان کے امن کے خاطر قربان کیا۔

اگر وزیرستان کا امن غیر تربیت یافتہ پولیس کے حوالیا کیا گیا یا انکے لیے تربیت یافتہ پولیس بھی تعینات کی گئی تو اسکے نتائج بہت ہی خطرناک ہونگے ۔ اسی لیے حکومت کو چائیے ہیں کہ ایک ایسا ٹولہ جس کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے وقتا فوقتا لاشوں کی ضرورت پڑتی ہے ایسے ٹولے کے مطالبات کو تسلیم کرنا انکی سیاست کے لیے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔حکومت کو وزیرستان کے سیکیورٹی معاملات کو پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے  کراچی میں رینجرز کی طرز پر وزیرستان میں بھی ایف سی اور آرمی کو اختیارات دینے کی ضرورت ہے تب جاکر وزیرستان میں امن کا قیام اور مقامی سطح پر قبائلوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے ۔

6 policemen injured in protest on Landi Kotal Pak-Afghan Highway

6 policemen injured in protest on Pak-Afghan Highway

According to details, clash between angry protesters and police of Khoga Khel nation on Pak-Afghan highway in Landi Kotal, bypass road turned into a battlefield.
Aerial firing and pelting of stones injured 6 policemen with sub-inspector and 5 protesters. Injured policemen include Khyber Jamrud District Sub-Inspector Khan Zeb Afridi, Assistant Sub-Inspector Iqbal Afridi, Azghar, Sakhi Gul. While in Landi Kotal protesters, Hakeemullah Torkham Custom Cleareance Agent, Shoaib Shinwari, Nasir Khan Shinwari and two children were also injured in the clash.

Meanwhile, Khyber District Police Officer Wasim Riaz arrives at Landi Kotal Tehsil Compound for talks.

On this occasion Member Provincial Assembly Shafiq Sher Afridi, Additional Assistant Commissioner Ashrafuddin Tehsildar, Saz Muhammad SDPO Khyber, Nawaz Khan DSP Traffic, Malik Mazhar Afridi SHO Jamrud, Malik Akbar Afridi SHO Landikotal Police, Sharif Khan Malaguri were also present.
Jirga will be held with the local leaders of Khoga Khel on the Torkham border with the NLC officials and FBR officials for a peaceful solution.

Terrorist plot foiled in Khwaja Was area

Terrorist plot foiled in Khwaja Was area: Terrorist arrested

SHO Masood Khan (Charsadda) foiled a major terror plot within the limits of Khawaja Was police station. Terrorist involved in sabotage arrested on tip-off, large quantity of explosives recovered from terrorist’s possession.

According to details, District Police Officer Charsadda Zebullah Khan received a tip-off of sabotage in the area of Khawaja Was Police Station. Accused Zabita Khan son of Muhammad Akbar resident of Shahbaz Khan Korona got access to the accused and arrested the accused.

Saudi Arabia has barred Israel from using its airspace

Saudi Arabia has barred Israel from using its airspace

Saudi Arabia has blocked a flight from Israel to Dubai over its airspace.

Israel Airlines and Tourism Limited say their Flight 661 was scheduled to depart for Dubai at 6 a.m. local time.

A spokeswoman for the airline said Saudi Arabia had not allowed them to cross its airspace and the reason was not immediately clear. Officials say the Israeli Foreign Office is looking into the matter. Last year, Saudi Arabia allowed Israel to use its airspace. Riyadh agreed to allow all flights (including flights to Israel) to the United Arab Emirates through Saudi airspace.

Mardan Smart lockdown

Mardan Smart lockdown

Mardan: Lockdown imposed in 9 areas due to increasing cases of Corona. Takht Bhai, Gujjargarhi, some areas of Tharkan Baba-Sidankhel Mohib Banda, Muslim Abad, Rustam and some areas of Katling are also included.

Officials announced that Smart Lock Down will be valid for 14 days. All kinds of movement will be banned in the affected areas. The provision of food items and medical services will be excluded by Smart Lockdown. Sanitation, disinfectant sprays and dirt will be removed in the affected areas on a daily basis.

Outbreak kills 3 in 24 hours, 96 positives cases and 589 negatives cases reported. Outbreak rate in 15 hours was 15.81%.