Shot 024

نئے چیلنجز نئی صف بندی

عید الفطر کے تین چار دن افغانستان اور فلسطین کے عوام کے لئے بہت بھاری ثابت ہوئے۔ افغانستان میں عید کے دوسرے روز کابل کے نواحی علاقے میں مسجد میں بم دھماکا کرایا گیا جس کے باعث ایک درجن نمازی جاں بحق ہوگئے جبکہ فلسطین میں عید کے دنوں کے دوران بدترین اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تقریباً 200 شہری جاں بحق اور 4 زخمی ہو گئے۔ شہداء میں 100 کے قریب خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ سلسلہ تاحال پوری شدت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جاری ہے اور مسلمان ممالک سمیت عالمی برادری کا کردار بھی محض رسمی اور مذمتی بیانات تک محدود ہے۔

افغانستان کے حالات افغان قیادت کے باہمی اختلافات کے باعث حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہوتے جا رہےہیں۔ عملاً افغانستان میں خانہ جنگی کا غیر اعلانیہ آغاز ہو چکا ہے تاہم افغان حکومت کے بعض اہم عہدیداران کو بوجوہ  نہ صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور ہر واقعے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا رہے ہیں بلکہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یہ لوگ پھر سے اس کے باوجود پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں کہ پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان امریکہ اور برطانیہ کی خواہش پر ایک مجوزہ دفاعی معاہدے کی اطلاعات اور بعض دیگر اقدامات بھی پائپ لائن میں ہیں۔

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید گزشتہ دنوں کابل گئے جہاں انہوں نے برطانیہ کے آرمی چیف کی موجودگی میں ڈاکٹر اشرف غنی،  عبداللہ عبداللہ اور دیگر سے اہم ملاقاتیں کیں۔  ان ملاقاتوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ افغانستان اور خطے کے بارے میں ایک موثر روڈمیپ اور حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا اور حملوں کی تعداد میں اضافے کے اسباب اور روک تھام پر بھی گفتگو ہوئی۔

بعض حلقوں کے مطابق عالمی سطح پر طے پایا ہے کہ پاکستان افغان حکومت کو بچانے کے لیے دوسرے اقدامات کے علاوہ اس کی سیکورٹی معاملات کی بھی سرپرستی اور رہنمائی کرے تاکہ اسے گرانے سے بچایا جائے حالانکہ ایسا ہونے کی صورت میں طالبان کے علاوہ دوسری سیاسی قوتوں اور عوام کو ناراض کرنے کا یقینی رِسک اور خطرہ موجود ہے۔  اس کے باوجود اگر واقعی یہ آپشن زیر بحث ہے اور امریکہ اب برطانیہ کو سامنے لے کر آیا ہے تو یہ ایک ایسی نئی صف بندی کا آغاز ہوگا جس کے اثرات اور نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اس قسم کی اطلاعات کے بعد افغانستان کے بعض اہم عہدیداران غیر ضروری طور پر پاکستان کے خلاف ماضی کی کہانیاں لے کر چڑھ دوڑے اور جلال آباد میں ایک ایونٹ سے خطاب کے دوران ایک اہم عہدے دار حمداللہ محب نے پاکستان کو طعنے اور دھمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ ان سمیت سب کو علم ہے کہ جاری صف بندی میں ان کی حکومت کو وہی اہمیت دی جارہی ہے جو کہ دوحا معاہدے کے دوران دی گئی تھی۔  طالبان نے کابل کے دونوں بڑے حملوں کی کھل کر مذمت کی اور امریکی ان حملوں کو داعش کے علاوہ ان سہولت کاروں کی کارسستانی قرار دے چکے ہیں جو کہ امن اور مذاکرات کے محدود امکانات کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں مگر افغان حکومت اور اس کے حامی پاکستانی قوم پرستوں کی سوئی تاحال طالبان اور پاکستان پر اٹکی ہوئی ہے اور ان کو دوسرے عوامل اور کردار نظر نہیں آرہے جو کہ افغانستان کے سابقہ اور موجودہ حالات کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔

جناب محب ڈاکٹر نجیب اللہ کی یاد میں منعقدہ ایونٹ کے دوران بہت کچھ کہنے سے قبل یہ بھول گئے کہ 90 کی دہائی میں نجیب اللہ کے ساتھی ایسی ہی باتیں اور دعوے کیا کرتے تھے جو کہ موصوف اور بعض دیگر چند دنوں سے کر رہے ہیں تاہم بعد میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔  نہ تو ڈھائی لاکھ فوج کسی کو نظر آئی،  نہ نجیب اللہ خود کو بچا سکے اور نہ ہی خانہ جنگی کا راستہ روکا جاسکا ۔  جو قوم پرست آج افغان فوج اور حکومت کو تھپکیاں دے رہے ہیں نجیب اللہ کی موت کے بعد وہ ان کی بہن اور والدہ کی فون کالز بھی وصول نہیں کر رہے تھے حالانکہ دونوں خواتین گلبرگ پشاور میں کرائے کے ایک مکان میں بے بسی کی زندگی گزار رہی تھیں۔  اگر خدانخواستہ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے پر اتر آئی تو نقصان بریف کیس نما لیڈروں کا نہیں بلکہ ان افغانوں کا ہوگا جو کہ چالیس سال سے جنگ بھگت رہے ہیں اور ان میں ۔ 30 لاکھ  اب بھی پاکستان نامی اس ملک میں قیام پذیر ہیں جن کو ان کے لیڈر دشمن سمجھ رہے ہیں۔

معتبر رپورٹس کے مطابق افغانستان کے بارے میں پاکستان کے مجوزہ تجاویز اور روڈ میپ کو امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ چین اور روس سمیت بعض دوسرے اہم ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم سیاسی تجزیہ کار افغان حکومت کو کوئی بڑی سپورٹ فراہم کرنے کی اطلاعات کو پاکستان کے لیے خطرناک تجربہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ طالبان کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے اور اس کے برعکس افغان حکمران اور سیاستدان ان خطرات اور چیلنجز کا تاحال ادراک نہیں کر پا رہے جو کہ ان سمیت پورے ملک کو درپیش ہیں۔

سفارتی اور عسکری حلقوں کے مطابق ایک نمائندہ عبوری حکومت کے قیام کے بغیر مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا اور حالیہ مذاکرات کے دوران دوحا میں اس آپشن کو پھر سے زیر غور لایا گیا ہے۔  اس ضمن میں کابل میں حامد کرزئی کی رہائش گاہ پر ڈاکٹر اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار کی اہم ملاقات سمیت لندن اور واشنگٹن میں دیئے گئے رابطہ کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ بعض سکیورٹی اقدامات کے علاوہ ایک متبادل مگر سب کو قابل قبول نگران یا عبوری سیٹ اپ کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔  کہا جا سکتا ہے کہ مئی اور جون کے مہینوں میں بہت تبدیلیاں رونما ہوں گی کیونکہ چار بڑے کھلاڑی یعنی امریکہ، روس، برطانیہ اور چین بہت متحرک ہوگئے ہیں۔