علی وزیر کی گرفتاری اور 2020 کا سب سے بڑا لطیفہ

سندھ پولیس نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے علی وزیر کی سہراب گوٹھ کراچی کی تقریرپر کاٹی گئی ایف آئی آر پر کارروائی کرتے ہوئے پشاور پولیس کے ذریعے گرفتار کرکے کراچی منتقل کردیا ہے جہاں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے پولیس کی درخواست پر ان کا ریمانڈ دے دیا ہے۔  ان کی گرفتاری کےلئے ایف آئی آر اس صوبے میں کاٹی گئی ہے جہاں پی ٹی ایم کی ایک حامی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔  اس پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پی ٹی ایم اور اس کی ٹاپ لیڈرشپ کی نہ صرف بہت بڑے حامی رہے ہیں بلکہ ان کے مشیر خاص فرحت اللہ بابر کے بارے میں مشہور ہے کہ افراسیاب خٹک کی طرح موصوف بھی پی ٹی ایم کی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔   یک طرفہ تماشا یہ ہے کہ جناب بلاول نے پارٹی سربراہ ہونے کے باوجود علی وزیر کی گرفتاری کی مذمت بھی کی ہے حالانکہ ان کی گرفتاری انہی کی حکومت کی کاٹی گئی پولیس ایف آئی آر کے مطابق عمل میں لائی گئی ہے۔

 پولیس صوبائی حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے اور اگر علی وزیر پر تشدد ہوتا ہے یا ان کی گرفتاری واقعی غیرقانونی ہے تو اس کی براہ راست ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جناب بلاول نے کس اخلاقی اور قانونی جواز کی بنیاد پر اپنی ہی حکومت کے کرائے گئے اقدام کی مذمت یا مخالفت کی ہے؟  کیا ان کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس اقدام کی ذمہ داری ان کی صوبائی حکومت اور انتظامیہ ہی پر عائد ہوتی ہے یا ان کو اب بھی یقین نہیں ہے کہ سندھ میں ان کی پارٹی اور ان کی حکومت قائم ہے؟  ان کے مذمتی بیان نے بہت سے لوگوں کے سر چکرا دیے ہیں اگر بلاول بھٹو کے مزمتی بیان کو سال 2020 کا بہترین لطیفہ اور مذاق قرار دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔  ایسے ہی بیانات اور لطیفے چند ماہ قبل پی ٹی ایم کراچی کے اس جلسے کے بعد سننے اور پڑھنے کو ملے تھے جب کیپٹں (ر) محمد صفدر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اس بحث سے قطع نظر کہ پی ٹی ایم کے مقاصد اور طرز عمل پر تبصرہ کیا جائے اس بات پر گفتگو ضرور ہونی چاہیے کہ یہ گروپ پشتونوں کے حقوق کے نام پر جو کچھ کہتا اور کرتا آرہا ہے زمینی حقائق کے تناظر میں اس سے پشتونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا نقصان؟

پی ٹی ایم کی سنجیدہ لیڈر شپ کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ ان کے جذبات اور بعض جائز مطالبات کو بعض وہ حلقے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے منفی انداز میں کیوں استعمال کر رہے ہیں جن کو دوسروں کے آلہ کار سمجھ کر اینٹی  پاکستان سمجھا جاتا ہے؟  یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عمران خان، سراج الحق اور اسفند یار ولی خان، فضل الرحمن جیسے وہ لیڈر آج پی ٹی ایم سے لاتعلق کیوں ہیں جنہوں نے کارکنوں سمیت اس گروپ کے اسلام آباد دھرنے میں خود شرکت کرکے تقریریں کی تھیں؟ یہ نکتہ بھی قابل بحث ہے کہ جو افغان حکمران اپنے امن کے لیے پاکستان کے محتاج ہیں انہوں نے دوسرے شرکاء کے مقابلے میں جناب اشرف غنی کی تقریب حلف برداری اور اس کے بعد کی تقریبات میں پی ٹی ایم کے لیڈروں کو غیر معمولی پروٹوکول سے کیوں نوازا تھا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ملنا اس لیے ضروری ہے کہ بہت سے معتبر حلقے پی ٹی ایم کو بعض بیرونی قوتوں کا آلہ کار سمجھ رہے ہیں اور اس گروپ کے ریاست مخالف بیانیہ کو غیر ملکی ایجنڈا قرار دے رہے ہیں۔  جن مطالبات کی بنیاد پر پی ٹی ایم اٹھی تھی وہ مطالبات برسوں سے نہ صرف یہ کہ بعض دوسری جماعتیں کرتی آ رہی ہیں بلکہ ان میں سے اکثر نکات اور مطالبات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست نے حل اور تسلیم بھی کیے ہیں۔  بہت سے مسائل بعض دوسرے قومی مسائل کی طرح اب بھی حل طلب ہیں تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ریاست کسی مخصوص قومیت یا علاقے کی مخالف ہے غالباً درست رویہ نہیں ہے۔  پی ٹی ایم پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست کے ایشو پر دو سے زائد گروپوں میں تقسیم ہے۔  اب تک اس کو عملی طور پر تنظیمی بحران یا ڈھانچے کے فقدان جیسے بنیادی مسئلے کا بھی سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ اس گروپ نے مختلف الخیال پارٹیوں اور این جی اوز کے بعض سخت گیر لوگوں کے آماجگاہ یا مرکز کی شکل اختیار کر لی ہے۔  ان میں سے بعض وہ عناصر بھی پیش پیش ہے جو کہ اپنی سرزمین پر محض اس لیے رہنا پسند نہیں کرتے کہ ان کو باہر کے ترقی یافتہ ممالک میں قیام کی سہولت حاصل ہے اور وہ پشتونوں کے اندر رہنا پسماندگی اور اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔

حرف آخر یہ کہ علی وزیر سمیت ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے اس لئے ان کے ساتھ نرمی اور عین قانونی تقاضوں کے مطابق سلوک کیا جائے اور دوسرا یہ کہ پی ٹی ایم اور بعض ایسے گروپوں یا پارٹیوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہئے

Books and Chai – Reviving the Culture of Reading

Peshawar is a city which was formerly known as Qissa Khuwani (story-teller Bazar) and for flowers. The city lost its charisma as it relentlessly fought against the effects of war on terror. However, eventually, the city crawled back to restore its glory and moved towards normalcy. One of such ventures to bring Peshawar back to life is the opening of “Books and Chai”.

The initiative is the brainchild of a young ACCA (Association of Chartered Certified Accountants) graduate Hassan Bashir who realised that there is no space for people to enjoy reading books and a calm workspace for professionals. The need for such a place in a city that went through ordeal of religious radicalism was not only essential but also imperative. According to a recent survey conducted by Gillani Foundation Pakistan and Gallup, 75% of Pakistanis do not read any book at all and only 9% are enthusiastic readers. Therefore, spending time in those noiseless halls, reading and getting books issued and becoming members of libraries, has become a part of an unknown culture in today’s generation.

Books and Chai has added a significant value to Peshawar. It not only honoured that idea of creating a safe space to work and read but also played an integral role in intellectual dialogue. It also helped in portraying a soft image of Peshawar as people across the nation visit it.

While talking to Voice of KP, Hassan said, “There was no place for students and professionals to enjoy their work and have the modern facilities of internet, printing or refreshment under one roof. To solve this issue, I decided to open a one-stop space where all the facilities, necessary during study and work are provided.”

He further added, “I have vastly travelled to many countries and found that there are cafés which provided workspace and books along with a cup of tea and snacks to the visitors. Keeping that image in view, I tried to implement the same idea in a city like Peshawar where there was no such place.”

Meanwhile, commenting on the decline of reading culture in Peshawar, Prof. Dr. Fakhar-ul-Islam said, “We never had a passion for books or reading, there was already animosity in our culture for books which is now increased. The relationship of affection towards books is built at home or at the educational institution, but unfortunately both lack this atmosphere.”

Further he said, “The state never promoted book reading, as now the public and municipal libraries are closed. Whereas, the western world has more technological advancement than us but still the book reading culture has not declined there.”

Hassan wants to spread the awareness about reading culture as the world is moving towards digitalisation and everything is available at one click; in such an era, the youngsters have forgotten the importance of reading books.

Peshawar gained extensive fame for its tradition of reciprocating stories over a cup of tea by merchants from different parts of the world. Keeping this idea in view and looking at the dire need to increase readership amongst the youth, Books & Chai is a café to look for.