سانحہ مہمند، ذمہ داران اور مجوزہ پالیسی

ضلع مہمند کے علاقے زیارت میں ماربل کی کان بیٹھنے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 28 ہوگئی ہے جبکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متعدد دوسرے مزدور اب بھی ملبے تلے موجود ہیں جن کو نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

وزیراعلیٰ پختونخوا محمود خان نے اس واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا ءکے لیے 9 لاکھ روپے فی کس امداد دینے کا اعلان کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی اور ایسے سانحات سے بچنے کے لیے بھی اقدامات ہوں گے۔

صوبائی حکومت نے علاقے سے ماربل لے جانے پر غیر معینہ مدت کیلئے پابندی لگا دی ہے اور موقف اپنایا ہے کہ مال نکالنے اور لے جانے کے لیے ایس او پیز مرتب کی جا رہی ہیں تا کہ اس پورے عمل کو محفوظ بنایا جائے اور لیز کے طریقہ کار کو بھی بعض بنیادی شرائط کے ساتھ مشروط کیا جا سکے۔

موجودہ حکومت نے چند برس قبل اعلان کر رکھا تھا کہ لیز کے طریقہ کار پر نظرثانی کرنے کے علاوہ مہمند کے اسی علاقے یعنی زیارت کو ماربل اسٹیٹ کلیئر کر کے یہاں نہ صرف جدید سہولیات دی جائیں گی بلکہ محفوظ طریقہ سے ماربل اور دیگر معدنیات نکالنے کے لیے موثر قانون سازی سمیت دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

مگر یہ اعلان بعض دوسرے وعدوں کی طرح صرف اعلان تک محدود رہا ۔ ماربل سٹی کا قیام اور جدید سہولیات کی فراہمی تو دور کی بات متعلقہ حکومتی اداروں نے وہی روایتی طریقے اپنا کر صرف اپنے مالی فوائد اور لیز ہولڈرز کے مفادات ہی کو مقدم رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ روز سانحہ زیارت وقوع پذیر ہوا جس نے دو درجن سے زائد مزدوروں کی جانیں لے کر سب کو غمزدہ کر دیا۔

ماربل سٹی کا قیام اگر عمل میں لایا جاتا اور لیز کو بعض بنیادی شرائط اور ایس او پیز کے ساتھ مشروط کرنے کا اقدام اٹھایا جاتا تو شاید لوگوں کو حالیہ افسوسناک واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔
ماربل سٹی کے مجوزہ ماڈل بعض دوسرے متعلقہ علاقوں میں آزما کر نہ صرف مزدوروں کی سلامتی اور حقوق کو ممکن بنایا جاتا بلکہ روایتی کان کنی سے قدرتی وسائل کا جو بے دریغ ضیاع ہو رہا ہے اس کا راستہ بھی روک دیا جاتا تاہم اس ضمن میں روایتی غفلت کرپشن اور اقرباء پروری سے کام لے کر اتنے بڑے سانحے کی نوبت آنے دی گئی اور اب بھی کوئی عملی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل کے ٹھیکے سیاسی اور خاندانی وابستگی اور اثر رسوخ پر دیے جاتے ہیں جس کے باعث جہاں ایک طرف مقامی آبادی اور علاقے کی حق تلفی کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے وہاں بااثر لوگ کروڑوں اربوں روپے کما کر ان وسائل کے فوائد کو خود تک محدود رکھتے ہیں اور ان قدرتی وسائل سے مقامی آبادی، صوبہ اور ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

مثال کے طور پر اس وقت مہمند، باجوڑ اور خیبر کے علاوہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی کانوں کے تقریباً 80 فیصد لیزیاٹھیکے بااثر سیاسی افراد اور عوامی نمائندوں کے پاس ہیں اور ان لوگوں نے اب باقاعدہ مافیاز کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔
درہ آدم خیل اور بعض دیگر علاقوں میں کوئلے کے قیمتی ذخائر اور ملا کنڈ ڈویژن میں بعض قدرتی وسائل کے ذخائر پر بھی چند ہی خاندانوں یا مافیاز کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ خود تو کروڑوں اربوں کماتے ہیں مگر اپنے مزدوروں اور مقامی آبادی کا تحفظ اور معاشی مفاد کا خیال تک نہیں رکھتے۔ لازمی ہے کہ تحفظ اور مقامی رائلٹی کے علاوہ لیز کے فرسودہ نظام اور روایتی کانکنی کے تباہ کن طریقہ کار کو جدید بنا کر قومی وسائل کے ضیاع کا راستہ سختی سے روکا جائے۔

ایک امریکی سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں تین ٹریلین ڈالرز کی ناقابل یقین معدنیات، تیل اور گیس موجود ہیں۔ سروے کے مطابق صرف تیل کے ممکنہ ذخائر اور مقدار ایران کے تیل کی پیداوار کے برابر ہے جبکہ افغانستان کے بارے میں سال 2016 کے اِسی امریکی سروے کے مطابق کہا گیا ہے کہ وہاں تقریباً پانچ ٹریلین ڈالرز کے معدنیات اور دوسرے قومی وسائل موجود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں معدنیات اور دوسرے وسائل کی محفوظ دریافت اور جدید سہولیات کے ذریعے اس کی سپلائی کے کام پر اگر خصوصی توجہ دی جائے تو اس سے پاکستان کی معیشت اور صوبے کی ترقی کو ناقابل تصور حد تک فائدہ پہنچے گا تاہم اس کے لیے مربوط قومی پالیسی مافیاز کی حوصلہ شکنی اور سہولیات کی فراہمی لازمی ہے اور حکومت کو اس ضمن میں اب روایتی طریقہ کار کی بجائے سنجیدگی سے فیصلے اور اقدامات کرنا ہونگے تاکہ ان بے پناہ وسائل سے مستقل بنیادوں پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔

مہمند کے متاثرین کی دادرسی، بہتر طبی سہولیات کی فراہمی حکومت اور لیز ہولڈرز پر فرض ہے تاہم اس سے زیادہ لازمی بات یہ ہے کہ آئندہ کے لئے محفوظ کان کنی کے عمل کو یقینی بنایا جائے اور جولیز ہولڈرز ایس او پیز کا خیال نہیں رکھتے ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ساتھ میں متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی فعال اور جواب دہ بنایا جائے۔

Plight of transgender people in KP

It is a bitter fact that Khyber Pakhtunkhwa (KP) is one of the provinces of Pakistan which struggles with a high ratio of violence against the transgender people.
Despite extensive legislations by the provincial assembly for the protection of Transgender people the violence against them recorded a sharp increase.

The murder of two transgender persons in Peshawar and Swabi recently put the efforts of the legislatures to a new test for curbing the increasing violence against this community.
According to the details available with the VoKP about 70 transgender people have been murdered in KP since 2015.

The culprits in most of these cases either never been caught or left scot-free as witnessed by the fact that only one offender has been taken to task so far.
Another dilemma of the transgender community is discriminatory attitude and treatment meted out to them by none other than their own family members.
The discrimination starts from home and gradually the society takes transgender persons for granted as well.

While talking to VoKP, Farzana Jan Chief of the Transgender Community KP said that, “The transgender community in the Pashtun society is the most vulnerable group of people who are facing discrimination and violence in every department of the province; even in the educational institutes and hospitals”, says Farzana Jan who is Chief of the Transgender Community of KP.

Farzana Jan recalled that back in 2019 when Alisha a transgender was shot multiple times and they rushed her to the hospital, the doctors present on the occasion were in no mood to treat her eventually Alisha lost her life due to extensive bleeding.

The provincial government has allocated a total of Rs 321 million for the welfare of the transgender people since 2017 but not a single penny has been utilised in this regard.

While talking to the VoKP a social rights activist Taimur Kamal said that the transgender people around the province were facing many issues including sexual harassment, sexual assault, rape, physical torture, partner violence and etc; however, neither the police nor the government is serious to take measures for their protection.

He stated that the government has allocated millions of rupees for the welfare of transgender community but practical utilisation of this amount is not yet materialised.

Meanwhile, commenting on the role and progress of KP Police, Muhammad Ilyas spokesperson for Peshawar police said that Police is striving hard to protect the transgender community.

While answering a question he said that in many cases of violence or murder the victims make some deal with the culprits and thus get acquitted by the court.

The society at large has the responsibility to play role in protecting the transgender people; the most vulnerable community.

At the government level there is dire need for allocation of adequate funds for protection of transgender community and timely utilisation of the same.