کورونہ اور قوت مدافعت

انسانی جسم کے اندر قدرت کی جانب سے قوت مدافعت کا ایسا نظام موجود ہے جو جسم میں پیدا ہونے والی ہر بیماری، وائرس اور انفیکشن کے خلاف لڑتا ہے۔
مدافعتی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
جسم غیر ملکی مادوں کو جسے اینٹیجن کہتے ہیں، مدافعتی نظام اینٹیجنوں کو پہچاننے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لئے کام کرتا ہے۔
قوت مدافعت انسان کے اندر خدا کی دی ہوئی نعمت ہے جس میں قدرتی طور پر ایسے بہت سے خلیات مل کر جسم کی حفاظت کے لئے کام کرتے ہیں۔
جیساکہ کچھ قسم کے سفید خون کے خلیے ، جسے فاگوکیٹس کہتے ہیں ، حملہ آور حیاتیات کو چبا دیتے ہیں۔ دوسرے ، جنھیں لیمفوسائٹس کہتے ہیں ، جسم کو حملہ آوروں کو یاد رکھنے اور ان کو تباہ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
اینٹی باڈیز کسے کہتے ہیں؟
اینٹی باڈیز جس کو امیونوگلوبلین بھی کہا جاتا ہے ۔ یعنی جسم جب ایک مخصوص بیماری کے خلاف خلیات پیدا کرتا ہے ۔ یہ پروٹین مخصوص اینٹیجن پر بند ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمارے جسم میں عام طور پر رہتے ہیں اگر ہمیں دوبارہ اسی جراثیم سے لڑنا پڑے تو یہ آسانی سے اس بیماری کا مقابلہ کرلیتے ہیں اسی وجہ سے چیچک جسکو ایک بار ہو جائے وہ عام طور پر دوبارہ بیمار نہیں ہوتا ہے۔
کورونہ کے بارے میں بھی اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جسکو ایک بار کورونا ہو جائے اسکے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہو جاتی ہیں اسلیے اسکو دوبارہ یہ بیماری عموماً نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
لیکن جن لوگوں کا قوت مدافعت کا نظام کمزور ہو انکا جسم قدرتی طور پر وہ خلیات پیدا نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مختلف اینٹی بائیوٹکس لینی پڑتی ہیں۔
لیکن ایسی بیماری کا کیا جائے جسکی دوا اب تک ایجاد نہیں ہوئی جیسا کہ کورونہ جو اب تک لاکھوں جانیں نگل چکا ہے۔
ایسی صورتحال میں ضرورت ہے کہ اپنے قوت مدافعت کے نظام کو مضبوط بنایا جائے
قدرت نے ایسی بہت سی کھانے کی چیزیں پیدا کی ہیں جن سے قوت مدافعت بحال ہو سکتا ہے۔
وٹامن سی اور قوت مدافعت
وٹامن سی سفید خون کے خلیوں کی پیداوار بھی بڑھاتا ہے اور مدفعتی نظام کو بھی مضبوط کرتا ہے جو جسم کو بیماریوں کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے ۔چونکہ آپ کا جسم نہ اسے پیدا کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرتا ہے ، لہٰذا آپ کو مسلسل صحت مند رہنے کے لئے روزانہ وٹامن سی کی ضرورت پڑتی ہے۔ زیادہ تر بالغ افراد کے لیے روزانہ تجویز کردہ رقم یہ ہے:
خواتین کے لئے 75 ملی گرام
مردوں کے لئے 90 ملی گرام
کھٹے میٹھے رسیلے پھل
جیسا کہ مالٹے، کینو ، سنترے، لیموں، سٹرابیری، کیوی اور انگور۔ ان پھلوں کو سٹرس فروٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ آم، پپیتا،انناس اور تربوز بھی اپنے اندر مطلوبہ مقدار میں وٹامن سی رکھتے ہیں جو کہ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔
وہ سبزیاں جن میں وٹامن سی وافر مقدار میں موجود ہے
آپ نے سنا ہوگا کہ زکام میں اگر چپلی کباب کھائیں جائیں تو زکام جلد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ چپلی کباب میں مرچ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ وٹامن سی سے بھرپور ہوتی ہے جو کہ آپ کے مدافعتی نظام کو فروغ دینے کے علاوہ ، آپ کی صحت مند جلد برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ مزید برآں اس میں بیٹا کیروٹین پایا جاتا ہے جسے آپ کا جسم وٹامن اے میں تبدیل کرتا ہے ، آپ کی آنکھوں اور جلد کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
سرخ مرچ، سبز مرچ اور شملہ مرچ کے علاوہ ٹماٹر، مٹر، میٹھے آلو، ساگ، سلاد کے پتے بند اور پھول گوبھی میں وٹامن سی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہرے پتے والی سبزیوں میں بھی وٹامن سی موجود ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک نہ ایک سبزی کو روزانہ خوراک میں شامل کرنا اپنے قوت مدافعت کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں ہے۔
کون سی چیزیں مدافعتی نظام کو بری طرح متاثر کرتی ہیں؟
خوراک کی بے احتیاطی کے علاوہ کچھ ایسی چیزیں اور عادات ہیں جو قوت مدافعت کو کمزور کرتی چلی جاتی ہیں۔
جیسا کہ بہت زیادہ آرام کرنا، جسم کو جام رکھنا، خوراک میں نکوٹین کا بے جا استعمال، ضرورت سے زیادہ ورزش اور نامکمل ڈائٹ، سورج کی مضر شعاعیں اسکے علاوہ ذہن پر پریشانی سوار کرنا یا اچانک غم کا عندیہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام پر برا اثر ڈالتا ہے۔
لہٰذہ ہمیں چاہیئے کہ احتیاطی تدابیر کے علاوہ ان مندرجہ بالا چیزوں کا بھی خیال رکھیں تاکہ ہم کرونہ سے بچ سکیں۔

ایف آئی آر میں مزید دفعات ڈالنے کو تیار ہیں

آئی جی خیبر پختونخواہ ثناءاللہ خان عباسی نے کہا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی پولیس فورس میں عوام کے تحفظ کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثالی قربانیاں دی ہیں تاہم چند کالی بھیڑوں اور گندے انڈوں کی غیر قانونی حرکت اور اقدامات نے پولیس کی مجموعی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے جس کا حکومت کے علاوہ اُن کو خود بھی بہت افسوس ہے اور پوری حکومت حرکت میں آ چکی ہے۔
ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کو پولیس سربراہ کی حیثیت سے واقعہ تہکال کا بہت افسوس ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایس ایس پی آپریشنز سمیت متعدد دوسرے ذمہ داران کے خلاف نہ صرف سخت ایکشن لے کر ایک بااختیار انکوائری تشکیل دی ہے بلکہ وہ جوڈیشل انکوائری سمیت ہر ممکنہ اقدام اور سزا کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم عوام کو جوابدہ ہیں اور اس ضمن میں واقعہ کے ذمہ داروں کے ساتھ اس تاثر کی بنیاد پر کوئی رعایت نہیں کی جائے گی کہ پیٹی بند ہونے کے ناطے ان کو معاف کیا جائے یا ان کو سزا سے بچایا جا سکے۔ ہم وزیراعلیٰ کی جوڈیشل انکوائری کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہر معاشرے اور ہر ادارے میں گندے انڈے اور منفی عناصر ہوتے ہیں اس لیے اس واقعے کی آڑ میں ڈیڑھ لاکھ اُس پولیس فورس کو مجرم قرار دینا درست نہیں ہوگا جنہوں نے جرائم کے خاتمے کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں حالانکہ حالیہ واقعے نےہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے اور ہمیں متاثرہ خاندان کے علاوہ عوام کے جذبات اور بے چینی کا احساس ہے۔ ان کے مطابق ہم سزا اور جزا کے سخت عمل کے علاوہ پولیس کی تربیت اور اصلاحات پر بھی بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور ذمہ دار افراد کو نشان عبرت بنایا جائے گا ۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بعض قانونی ماہرین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ ایف آئی آر میں بعض درکار دفعات شامل نہیں کیے گئے ہیں تو ہم متاثرہ خاندان اور وکلا ءکے کہنے پر مزید دفعات شامل کرنے کوبالکل تیار ہیں۔ان کے مطالبات کا احترام کیا جائے گا اس کے علاوہ ہم نے حکومت کو یہ بھی لکھ دیا کہ اگر وہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری چاہتی ہے تو ہم اس کا نہ صرف خیر مقدم کریں گے بلکہ بھرپور تعاون بھی کریں گے تاکہ اس واقعے کو مثال بنا کر آئندہ کے لئے ایسے افسوس ناک واقعات کا راستہ روکا جاسکے۔
آئی جی نے مزید بتایا کہ گزشتہ روز پشاور میں ایک احتجاجی مظاہرے پر باامر مجبوری آنسو گیس کا استعمال کیا گیا کیونکہ مظاہرین بہت زیادہ مشتعل تھے اور ان میں سے بعض نے پرامن اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ ڈالی تھی۔ ہم پر امن احتجاج کو عوام کا حق سمجھتے ہیں مگر عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومتی اقدامات پر اعتماد کر کے ہمارے ساتھ تعاون کریں اور صوبے کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ذمہ دار افراد کو نشان عبرت بنا کر عوام اور متاثرہ خاندان کو مایوس نہیں کریں گے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ سانحہ تہکال نے معاشرے کو خوفزدہ کر دیا ہے اور پولیس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے تاہم اس واقعے کے بعد حکومت جس طریقے سے حرکت میں آئی ہے اور مختلف اقدامات کے ذریعے اس واقعے کی جو تلافی کی جا رہی ہے وہ کافی حد تک اطمینان بخش ہے۔ اس ضمن میں پشاور ہائی کورٹ ےنے سوموٹو ایکشن بھی لیا ہے جہاں گزشتہ روز آئی جی اور دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے بھی اپنے ریمارکس میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے حکومت کو سخت اقدامات کی ہدایات کیں جبکہ بعض دیگر کے علاوہ مشیراطلاعات اجمل وزیر صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی خصوصی ہدایت پر متاثرہ خاندان سے ملنے گئے ۔اس کے علاوہ ایم این اے ارباب شیر علی بھی ملنے گئے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ درکار عملی اقدامات کے نتائج کا انتظار کیا جائے اور احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد اور توڑ پھوڑ سے گریز کیا جائے کیونکہ ہمارا صوبہ اور معاشرہ محاذآرائی ، منافرت اور کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔