بھارت چین کشیدگی اور پاکستان کی مجوزہ حکمت عملی

ایشیا کے دو بڑے ممالک چین اور بھارت کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی نے جہاں دونوں ممالک کے تعلقات کو 70 کی دہائی کے بعد بڑا متاثر کیا ہے وہاں اس کشیدگی نے پڑوسی ممالک اور پورے خطے کو تشویش اور عدم تحفظ کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ لدّاخ کی سرحدی پٹی دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کے بعد باقاعدہ فوجی جھڑپوں کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ ہر دور میں نہ صرف بہت اہم بلکہ متنازع بھی رہا ہے اور حالیہ کشیدگی سے قبل بھی یہاں دونوں ممالک کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں ۔مگر اب کی بار جب بھارتی فورسز نے ایک سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین کے علاقے کی جانب پیش قدمی کی اور وہاں ایک سڑک اور پل کی تعمیر کی کوشش کی تو چین کی فوج نے اس حرکت پر شدید ردعمل کا اظہار کرکے بھارتی فورسز پر باقاعدہ حملہ کیا ۔جس کے نتیجے میں 20 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک، 40 زخمی اور 20 گرفتار کیے گئے۔
عالمی میڈیا کے مطابق غلطی بھارت نے کی کیونکہ اس کی فورسز نے نہ صرف یہ کہ اس علاقے میں پیش قدمی کرکے چینی فوج کو اشتعال دلایاجو کہ چین اپنی ملکیت قرار دیتا آ رہا ہے بلکہ بھارت نے سڑک اور پل کی تعمیر کا اشتعال انگیز قدم بھی اٹھایا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وادی گلوان میں ہونے والی یہ فوجی جھڑپ کئی گھنٹوں تک جاری رہی جس کے دوران چینی فورسز کا پلہ بھاری رہا ۔ انہوں نے جہاں ایک طرف بھارت کو بڑا جانی نقصان پہنچایا وہاں بھارتی فورسز کو پسپا ہونے پر مجبور کر کے ان کے بعض چوکیوں پر قبضہ بھی کیا اور بھارت کے بعض فوجیوں نے دریا میں چھلانگ لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ عملاً اس جھڑپ سے بھارت کو ناکامی کے علاوہ شرمندگی اٹھانا پڑی اور اس کے وزراء اور میڈیا نے کھلی مداخلت کی اپنی حرکت اور پسپائی پر پردہ ڈالنے کے لیے شور مچانا شروع کیا۔ تاہم عالمی رپورٹس اور چین کے واضح موقف نے جارحیت کی ذمہ داری بھارت پر ڈال دی جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت کو امریکہ سے رجوع کرنے کی درخواست کرنا پڑی اور اقوام متحدہ سے بھی رابطہ کیا گیا۔ اگرچہ بھارت نے دھمکیاں دینے کا روایتی راستہ بھی اپنایا تاہم چین کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔
کئی بار ایسا محسوس ہونے لگا جیسے باقاعدہ جنگ کا آغاز ہونے والا ہے مگر بھارت کی پسپائی اور اس کے وزیر خارجہ کے مسلسل رابطوں اور معذرت خواہانہ رویّے نے مسئلے کو مزید بگڑنے نہیں دیا ۔ بھارتی اپوزیشن کے علاوہ سابق جرنیلوں اور وزراء نے اپنی حکومت اور فورسز کی خوب خبر لی اور اس مہم جوئی کو شرمندگی اور پسپائی کے علاوہ بھارت کی اشتعال انگیزی اور ہٹ دھرمی قرار دے کر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
کرونا بحران کے دوران اس حرکت کو عالمی سطح پر بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشیدگی بڑھانے کی کوشش کا نام دیا گیا جب کہ پاکستان، سری لنکا، فلپائن اور بعض دیگر ممالک نے بھارتی رویے کی کھل کر مذمت اور مزاحمت کی۔ پاکستان نے اس دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مسلسل مظالم، غلطیوں اور شہادتوں کے مسئلہ کے علاوہ بھارت کے توسیع پسندانہ پالیسی پر عالمی توجہ مبذول کرانے کی بھرپور کوشش کی کیونکہ بھارت نے اس دوران نہ صرف ایل او سی پر مسلسل گولہ باری جاری رکھی، سرحدی خلاف ورزیاں کرنے کی کوششیں بھی کیں۔
بھارت کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم رہا کہ اس نے بیک وقت پاکستان اور چین جیسے اہم ممالک اور اتحادیوں پر حملے کرائے اور عالمی برادری اس رویے پر خاموش رہی۔ 15 اور 16 جون کی درمیانی شب ہونے والی اس خون ریز جھڑپ کے دوران نصف درجن افسران اور بھارتی فوجیوں کو گرفتار کرنے والے چین نے واضح انداز میں اعلان کیا کہ پوری وادی گلوان اُن کی ملکیت ہے۔ اس کے باوجود بھارت نے خوف کے باعث کوئی سخت رد عمل یا جواب نہیں دیا ۔ مگر دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا موقف اور رویہ بالکل دوسرا اور جا رہا نہ رہا جہاں اُس نے گزشتہ دس روز کے دوران سید علی گیلانی کے بقول پچاس سے زائد کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا ۔ یہ رویہ اس جانب اشارہ ہے کہ بھارت طاقتور کے سامنے معذرت خواہانہ پالیسی جبکہ کمزور کے ساتھ جارحانہ طریقہ استعمال کرنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے جبکہ اس کی جارحانہ پالیسی اور کشیدگی کی خواہش سے پاکستان کے علاوہ بعض دوسرے پڑوسی ممالک بھی محفوظ نہیں ہیں ۔جنہوں نے بھارت کو اس کشیدگی کے دوران کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا اس دوران پاکستان کے تین صوبوں خیبر پختونخواہ بلوچستان اور سندھ میں فورسز اور قومی املاک پر تقریبا ً ایک درجن حملے کرائے گئے جن میں سندھ کے حملوں کی ذمہ داری سندھو دیش تحریک ، بلوچستان حملوں کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی جبکہ خیبر پختونخوا کے علاقے وزیرستان حملے میں ٹی ٹی پی ملوث پائی گئی۔ یہ واقعات اس جانب اشارہ ہیں کہ بھارت نہ صرف ایل او سی اور مقبوضہ کشمیر پر مسلسل حملے کر رہا ہے بلکہ وہ پاکستان کے اندر بعض حملوں کی سرپرستی اور پلاننگ میں بھی ملوث ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان 22جون جہاں بھارتی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے شرارت سے باز رہنے کو کہا ہے وہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت سے پاکستان کا امن برداشت نہیں ہو رہا ۔ چین کے ساتھ کشیدگی نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کو عملاً درست ثابت کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف فیک آپریشن کا مرتکب ہو سکتا ہے اور کوئی بھی ایسی حرکت اس کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے خطے کا امن تباہ ہو کیونکہ پاکستان ایسی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دے گا۔
چین کے ساتھ ایل اے سی اور پاکستان کے ساتھ ایل او سی پر بیک وقت بھارتی خلاف ورزیوں اور حملوں سے یہ خدشہ اب یقین میں بدل گیا ہے کہ وہ یا تو طاقت کے نشے میں ان دو اہم ممالک کو کمزور سمجھتا ہے یا وہ کشیدگی بڑھا کر خطے کا
تھانہ دار بننے کی اپنی خواہش کو عملی بنانے کی کوشش میں ہے اگرچہ چین نے اس کا غرور خاک میں ملا کر شرمندگی سے دوچار کردیا ہے۔ تاہم وہ اپنی عادت کے مطابق اپنی پوزیشن میڈیا اور عوام کی تنقید سے بچنے کے لئے چین کے ہاتھوں اٹھائی ہزیمت کم کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے جس کے لئے پاکستان اور اس کی فورسز کو تیار رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو پڑوسیوں کو بھی بھارت کے عزائم سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق وقت آگیا ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے نہ صرف یہ کہ پڑوسی ممالک متحد ہو کر بھارت کا راستہ روکنے کی کوشش کریں بلکہ عالمی برادری خصوصاً امریکہ روس اور اقوام متحدہ بھی علاقائی کشیدگی اور بھارت کے عزائم کا نوٹس لے کر عملی مداخلت کرے ورنہ خطے میں بھڑکی آگ دنیا کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوں گی۔

آپریشن ضرب عضب کے چھ سال مکمل

ملکی تاریخ کے سب سے بڑے خطرناک اور لمبے آپریشن یعنی آپریشن ضرب عضب کے چھ سال مکمل ہو گئے ہیں تاہم وزیرستان میں چند ایک علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں وقفے وقفے سے کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں جبکہ فورسز کو نہ صرف یہ کہ محدود کیا گیا ہے بلکہ اکثر علاقے سول انتظامیہ اور پولیس کے سپرد کیے گئے ہیں۔ اس مشکل آپریشن کا آغاز 15 جون 2014 کے روز کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد وزیرستان کے دو اضلاع خصوصاً شمالی وزیرستان کو طالبان اور ان کے اتحادی تنظیموں پر قبضے اور غلبے سے آزاد کرا نا ،وہاں امن اور حکومتی رٹ قائم کرنا تھا ۔ سال 2001 کے بعد جب نیٹو اور امریکی فورسز افغانستان میں داخل ہوگئیں اور طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو ہزاروں کی تعداد میں جنگجو سابق فاٹا کے مختلف علاقوں خصوصاً وزیرستان چلے آئے جہاں مقامی آبادی کے بعض حلقوں اور ہمدردوں نے ان کو پناہ دی ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ ان علاقوں میں قیام پذیر ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ حکومتی رٹ کو بلکہ حکومت کے حامی ملکان اور پرامن شہریوں کو یرغمال بنایا اور چیلنج کیا جس کے باعث سینکڑوں افراد کو یا تو مارا گیا یا ان کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ روایتی انتظامی کمزوری سے فائدہ اٹھایا گیا ۔
پاکستان کے اس وقت کی حکومت نے ان عناصر کے خلاف بوجوہ محدود کاروائیاں کیں تاہم علاقے میں ان کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور جب سال 2007 میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے پر تشدد تنظیم یا گروہ کا قیام عمل میں لایا گیا تو مسئلہ اور معاملہ صرف وزیرستان یا قبائلی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ پورا خیبرپختونخواہ بدترین حملوں کی زد میں آنے لگا اور 2008کے دوران ملاکنڈڈویژن خصوصاً سوات، بونیر اور دیر بھی ریاستی اداروں کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا مشکل تھا۔ اس لیے انہوں نے 2009 میں ملاکنڈ ڈویژن میں بڑے آپریشن کا آغاز کردیا مگر وزیرستان کو بوجوہ چھیڑنے سے گریز کی پالیسی اپنا ئی حالانکہ اس دوران عالمی برادری خصوصاً امریکہ نے پاکستان پر شمالی وزیرستان میں کارروائی کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش رہا کہ سرحدی اور انتظامی کمزوریوں کے باعث افغانستان سے مقامی طالبان کے علاوہ غیر ملکیوں کی مسلسل آمد اور مسلسل حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کے باعث زیادہ توجہ دوسرے علاقوں خصوصاً ملاکنڈڈویژن و پشاور پر دی گئی اور سوات کو 2010 کے دوران مکمل طور پر صاف کیا گیا۔
2007 کے بعد چونکہ پورا ملک حملوں کی زد میں آیا تھا اس لئے وزیرستان پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکی اور جب 2013 میں حالات نسبتاً قابو میں آنے لگے تو 15 جون 2014 کے دوران آپریشن ضرب عضب کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جس کے دوران سینکڑوں جنگجوؤں کو یا تو مارا گیا یا وہ فرار ہوئے یا گرفتار کیے گئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس آپریشن کے دوران 3400 جنگجوؤں کو مارا گیا جبکہ کارروائیوں کے نتیجے میں پاک فوج کے سینکڑوں جوانوں اور درجنوں افسران نے بھی اپنی جانیں قربان کیں۔ عالمی میڈیا نے نہ صرف اس آپریشن کو مشکل ترین کاروائی کا نام دیا بلکہ افغانستان میں جاری امریکی آپریشنز کے مقابلے میں اس کو مؤثر اور کامیاب بھی قرار دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج 95 فیصد علاقہ پرامن قرار دیا جا چکا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں تقریبا ًپندرہ لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی جبکہ سینکڑوں گھر ، مارکیٹیں اور دوکانیں متاثر ہوئیں۔ پندرہ لاکھ میں سے 97 فیصد واپس اپنے علاقوں میں جا چکے ہیں جبکہ متاثرہ املاک کی بحالی کیلئے متاثرین کو اربوں روپے دیئے جاچکے ہیں اور مزید دیے جا رہے ہیں ۔سول انتظامیہ کو مضبوط بنانے کا عمل اب بھی جاری ہیں جبکہ آباد کاری، تعمیر نو اور ترقی کے متعدد بڑے منصوبے یا تو مکمل کیے جا چکے ہیں یا زیرتکمیل ہیں ۔ اس وقت صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے اور مستقل امن و استحکام کے لیے کام جاری ہے۔