JUI-F demands reopening of seminaries

MANSEHRA: Jamiat Ulema-i-Islam-Fazl leader Mufti Kifayatullah has demanded of the Khyber Pakhtunkhwa government to allow seminaries to resume classes from June 1.

`The government has lifted the restrictions on transport and businesses, so it should allow seminaries to be operational without delay as demanded by the Wafaqu1 Madaris,` the JUI-F leader told a news conference here on Saturday.

Mr Kifayatullah, who is also the provincial nazim of Wafaqul Madaras in Khyber Pakhtunkhwa, said the ulema and seminaries of Wafaqul Madaris Al-Arabia followed standard operationing procedures enforced by the government in letter and spirit to stem the spread of Covid-19.

`We have strictly followed SOPs, so now the government should accept our genuine demand for the reopening of seminaries across the province,` he said.

Mr Kifayatullah said the seminaries would take all preventive measures against the virus if they`re allowed to resume classes.

Also in the day, a group of private schools owners demonstrated outside the press clubhere seeking the government`s permission to reopen campuses.

The protesters wondered if restrictions on businesses and public transport were lifted, why the schools and colleges weren`t allowed to resume operations when they promised to follow SOPs.

The protesters blocked the Mansehra-NaranJalkhad Road near Palas area in Kaghan valley causing suspension of the supply of concrete, cements, petrol and diesel, food and other goods to the project site on the Kunhar River.

The protest inconvenienced the road users, including nomads returning home after spending the winter season in lower parts of the country.

Labour leader Tahir Hussain Shah said the workers had been protesting for rights for two weeks, but to no avail.

He said the company hadn`t paid salary to over 1,600 project workers for three months and terminated their services.

He warned that the protesters would stay put for an indefinite period if their demands weren`t met.
Source: Dawn

کورونا کے حملے جاری مگر بد احتیاطی انتہا پر

حسب توقع خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں کرونا وائرس کے مسلسل پھیلاؤ کا سلسلہ جاری ہے اور ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا تو جون کے مہینے میں اموات اور کیسز کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او بھی وارننگ جاری کر چکا ہے کہ حالات سنگین ہے۔ یکم جون کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں مصدقہ کیسز کی تعداد 71280 تھی جبکہ اموات کی تعداد 1524 تک پہنچ گئی تھی۔ صوبہ سندھ کیسز کی تعداد میں سرفہرست رہاجبکہ اموات کی شرح خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ رہی۔ مجموعی طور پر عید الفطر کے بعد کیسز کی تعداد میں 25 سے 30 فیصد تک اضافہ ریکارڈ ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روزانہ کم از کم 70 سے 85 افراد کو رونا سے اپنی زندگیاں گنواتے رہے اور ان افراد میں ڈاکٹرز ، میڈیکل سٹاف ، سیاسی رہنما اور میڈیا ورکرز بھی بڑی تعداد میں شامل رہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے اور اگر عوام اسی طرح بد احتیاطی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے رہے تو صورتحال ریاستی اداروں کے قابو سے باہر ہو جائے گی اور حکومت کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی سخت لاک ڈ اؤن سمیت مزید ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو جائے گا اور ایسا ہونے کی صورت میں نتائج کے سب فریق ذمہ دار ہوں گے۔

اکتیس (31) جون کو صوبہ پنجاب میں 37 ، پختونخواہ میں 22 ، سندھ میں 18 جبکہ بلوچستان میں 9 افراد کرونا وائرس سے جاں بحق ہوئے جبکہ ایک ہی دن کے دوران 2600 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ۔خیبرپختونخوا اموات کی تعداد کے لحاظ سے حسب سابق سرفہرست رہا جہاں یہ تعداد 500 تک پہنچ گئی جبکہ کیسز کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرگئی ۔حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے خیبرپختونخواہ پاکستان میں تیسرے نمبر پر ہے تاہم پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں اموات کی تعداد اس صوبے میں پہلے دن سے سب سے زیادہ رہی ہے اور ہفتہ رفتہ کے دوران بھی یہ صوبہ سرفہرست رہا ۔ پختونخواہ میں پشاور اموات اور کیسز کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سوات تیسرے نمبر پر نوشہرہ ہے جہاں صورتحال کافی گھمبیر ہے مگر عوام تعاون نہیں کر رہے۔

صوبائی مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے یکم جون کو اپنی میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ اگر عوام اور تاجروں نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے تعاون نہیں کیا تو حکومت لاک ڈاؤن کو توسیع دینے سمیت بعض دیگر سخت اقدامات پر مجبور ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں مریضوں کی صحت یابی کی شرح کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے تاہم کیسزاور اموات سے حکومت لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی واپسی کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پشاور ایئرپورٹ کو فلائٹس کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن معاملات کو مشکوک اور مشکل بنانے کی بجائے اس کٹھن صورتحال میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے تاکہ کرونا کا مقابلہ کیا جاسکے۔ دوسری طرف اپوزیشن خصوصاً جماعت اسلامی اور اے این پی نے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور ساتھ میں دونوں پارٹیاں حکومتی اقدامات پر تنقید بھی کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی نےبیرون ملک پاکستانیوں کی واپسی کے معاملے پر 31 مئی کو پشاور میں ایک احتجاجی ریلی اور اجتماع کا انعقاد کیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ سعودی عرب، امارات اور بعض دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے خیبرپختونخوا کے باشندے اور میتوں کی واپسی کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے اس موقع پر بعض ممالک میں موجود پاکستان کی سفارتی عملے پر غیر ذمہ داری کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کیا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ایسے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ اے این پی نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔

اس ضمن میں لازمی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے لئے فوری اقدام اٹھائے اور محض بیانات پر انحصار نہ کرے کیونکہ سیاسی پارٹیاں عوام کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کا تعاون حاصل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس تمام منظرنامے میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ہمیں صرف وزیراعلی اور مشیراطلاعات ہی متحرک نظر آ رہے ہیں۔ دو متعلقہ اور اہم وزراءیعنی وزیر صحت اور وزیر تعلیم منظرعام سے یا تو غائب ہیں یا وہ ہمیں متحرک دکھائی نہیں دے رہے ۔بعض و زرا ء ایسے ہیں جو کہ کھلے عام احتیاطی تدابیر کی خود خلاف ورزی کر رہے ہیں مگر انکی ان خلاف ورزیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا ۔ جب حکمران اور سربراہان خود اس وباء کو سنجیدہ نہیں لیں گے تو عوام سے شکوہ اور شکایت کرنا بلاجواز ہوگا اس لئےنئی مگر سخت حکمت عملی اپنائی جائے۔