KP has highest recovery rate of Covid19 patients

PESHAWAR: Khyber Pakhtunkhwa has the highest recovery rate among patients of coronavirus, says Adviser to Chief Minister on Information Ajmal Wazir.

He said that the province had 200 isolation wards for Covid-19 patients with the capacity of 5,598 beds. He said that 359 quarantine centres and more than 550 ventilators had been reserved for patients of the pandemic.

`Still citizens should follow the guidelines issued by the government as the only treatment for coronavirus is to take precautionary measures,` said Mr Wazir.

Responding to opposition`s criticism of the ruling Pakistan Tehreek-i-Insaf led by Prime Minister Imran Khan for the way it handled the pandemic, the adviser said that Imran Khan was a leader and `there was clear a differences between a leader and a dealer`.

He said that the dealers looted the country with both hands.

Mr Wazir said that Chief Minister Mahmood Khan was `on the frontline, visiting hospitals and quarantine centres without caring for his life.

He said that lives of the citizens were more important for them than their own lives.
Source: Dawn

جس نےخیبر پختونخوا آکریہ سب نہیں کھایا , وہ جمیآ ہی نہیں

آپ پاکستان کے کسی حصے میں بھی چلیں جائیں آپکو پنجاب میں کراچی بریانی، کراچی میں بلوچی سجی، بلوچستان میں لاہوری چھولے اور لاہور میں پشاوری چپلی کباب ضرور ملیں گے لیکن وہ ذائقہ بمشکل ہی مل پائے گا جو اس شہر یا علاقے میں کھانے کا مزہ ہے۔ پھر آپ چاہے اسی خصوصیت سے وہ ڈش اپنے علاقے میں تیار کرلیں وہ ذائقہ نہیں دیتی۔

جیسے ہم پشاوری جب پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں جاتے ہیں تو قہوہ کی پتی ساتھ لے کر جاتے ہیں تاکہ یہی ذائقہ دوسرے علاقے میں بھی مل سکے لیکن وہ ذائقہ کہاں۔۔۔۔

آج میں اپنے صوبے خیبر پختونخوا کی وہ تمام پکوان لکھنے جارہی ہوں جو آپکو پورے ملک یا باہر کی دنیا میں مل تو جائیں گے لیکن اس صوبے میں موجود ذائقہ بمشکل ہی مل پائے گا۔

تارو کباب/ چپلی کباب
چپلی کباب جسے صوبے کی روایتی خوراک بھی کہا جاتا ہے عام طور پر گائے یا بیل کے گوشت کے قیمے میں مخصوص مصالحہ جات ملا کر بنایا جاتا ہے اسکی خاص بات یہ ہے کہ اس میں گائے یا دنبے کی تازہ چربی یعنی لم کی چربی استعمال کی جاتی ہے۔

پشاور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ پر واقع نوشہرہ چھوٹے سے بازار میں چپلی کباب کی پانچ دوکانیں قریب قریب قائم ہیں جہاں دن رات لوگوں کا رش رہتا ہے۔

تاروجبہ میں واقع ایک کباب ہاؤس کے مالک نسیم گل نے بتایا کہ’ ہم روزانہ ایک یا دو بیل ذبح کرتے ہیں اور تقریباً چار من تک کباب فروخت ہوتے ہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ چپلی کباب اس صوبے کی پہچان بن چکاہیں اور اب یہ پاکستان کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ بیرونِ ممالک بھی جاتے ہیں جس میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک قابل ذکر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والے لوگ روزانہ چالیس سے پچاس کلو چپلی کباب ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

وہاں موجود روایتی چارپائیوں پہ بیٹھ کر تارو کے چپلی کباب کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

دم پخت
نواب آصف الدولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دم پخت کہتے ہیں۔ آج انہی کے ایجاد کردہ اس کھانے کے فن پر ہزاروں کی کمائی ٹکی ہوئی ہے۔
دن پخت کی خاصیت یہ ہے کہ نہ تو اس میں گھی ڈلتا ہے اور نہ ہی پانی بلکہ گوشت اپنی چکنائی اور بھاپ میں پکتا ہے.
دم پخت کی تیاری کچھ اسطرح سے کی جاتی ہے کی ایک پتیلے میں لاٹھ کی تہہ لگائی جاتی ہے اسکے اوپر گوشت کی بوٹیاں رکھی جاتی ہیں اور پھر ثابت سبز مرچیں، لہسن کی جوئیاں، ادرک، زیرہ اور حسبِ ضرورت نمک۔ اسکے علاوہ آلو بڑے سائز میں کٹے ہوئے ڈالے جاتے ہیں۔ ڈھکن بند کرنے کے لیے گوندا ہوا آٹا لگا دیا جاتا ہے تاکہ گوشت دم پخت ہو جائے۔۔۔
بڑا گوشت کم از کم تین گھنٹے اور دنبے کا گوشت دو گھنٹے آہستہ آنچ پر پکتا ہے اور اسے تندور کی تازہ روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔

پٹہ تکہ
پٹہ پشتو زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہی “چھپا ہوا”. جی ہاں چھپا ہوا تکہ۔ بالکل خیبرپختونخوا کے تکوں کی خاصیت یہ ہے کہ اسے دنبے کی چربی جو پتلی تہہ میں موجود ہوتی ہے اس میں تکوں کو لپیٹ کر تیار کیا جاتا ہے جو اسکے خاص ذائقہ کی وجہ بنتا ہے۔ یہ تکہ خاص طور پر قبائلی علاقوں کی ایجاد ہے لیکن مقامی سطح پر اسے ‘خشک تکہ’ بھی کہا جاتا ہے۔ اور پشاور کی مشہور نمک منڈی میں باآسانی مل جاتا ہے۔ یہاں تکوں کے لیے ایک خاص دکان انتہائی مشہور ہے اور اس کا نام بھی شہر کی دوسری پہچان بن گیا ہے۔

‘چرسی’ تکہ شاپ کے مالک نثار چرسی نے اس نام کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ ‘آج سے کوئی پچاس سال پہلے میرے والد نے یہ کام شروع کیا تھا اور انھیں لوگ چرسی کہتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ دکان چرسی کے تکوں کے نام سے مشہور ہوئی ۔

“اس میں نہ تو کوئی چرس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ خود چرس استعمال کرتے ہیں”.

نثار نے بتایا کہ ان تکوں کے لیے دنبے کا ایسے گوشت کا انتخاب کیا جاتا ہے جس پر چربی بہت زیادہ نہ ہو اور وہ گوشت نرم بھی ہو۔
ان کے ہاں آنے والے افراد عموماً فی کس ایک کلو گوشت کے تکے کھا جاتے ہیں جنھیں ہضم کرنے کے لیے پشاوری قہوہ کام آتا ہے۔

پشاوری قہوہ:
ایسی خوراک کھانے کے بعد اسکو ہضم کرنے کے لیے یہاں کے لوگ قہوہ سے مدد لیتے ہیں۔
لفظ قہوہ کا اصل مطلب شراب تھا، اور صوفی درویش اسے ذکرِالٰہی کرتے وقت توجہ مرکوز رکھنے اور روحانی سرور حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
گرین ٹی یا قہوہ پوری دنیا میں کثرت سے پیا جاتا ہے لیکن پشاور کا یہ روایتی مشروب ہے جسے مہمانوں کی آمد پر اور انکو پیش کیا جاتا ہے۔
اسکو خوبصورت چینکوں اور پیالیوں میں پیش کیا جاتا ہے۔جدید دور میں پیالیوں کی جگہ اب کپ نے لے لی ہے لیکن پشاور شہر میں جگہ جگہ قہوہ کی دکانوں میں اب بھی پیالیوں اور رنگ برنگی چینکیں نظر آتی ہیں جو اندرون شہر ڈیمانڈ پر ہر دکان تک پہنچائے جاتے ہیں۔

چوک یادگار قلفی:
نمک منڈی کے گوشت اور قہوے کے بعد کچھ ٹھنڈا کھانے کا دل کرے تو پشاور کی چوک یادگار کی قلفی ضرور کھائیے گا۔ جہاں پر واقع سڑک کے کنارے فالودے کی معروف دکان ہے۔
قلفی کو دودھ اور کھوئے سے تیار کیا جاتا ہے اور اسے پھیکی سفید سوئیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ پورے سال کے علاوہ رمضان میں افطاری کے بعد لوگ فیملی کیساتھ قلفی ، کھیر اور دیگر اجزاء سے تیار فالودہ کھانے کیلئے یہاں آتے ہیں اور یہ رش سحری تک لگا رہتا ہے ۔

اسکے علاوہ میوہ چنا پلاؤ پشاور سے، گوشت کڑاھی نمک منڈی سے، پیڑے مردان سے، بیف پلاؤ بنوں سے، غٹ اوریجے چارسدہ سےضرور کھائیں اور مجھے دعائیں دیں لیکن تھوڑا ہاتھ روک کے کیونکہ موٹاپے کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔۔۔۔