اٹھارویں ترمیم کے بعض شقوں یا فیصلوں پر اعتراضات

اٹھارویں ترمیم کا پس منظر اور مجوزہ ترامیم پر بحث

ملک کے بعض سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بارے میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور اپوزیشن کی بعض پارٹیاں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ حکومت اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا چاہ رہی ہے یا اس میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف زمینی حقائق اس شور شرابے اور الزامات سے بالکل الگ اس لیے ہیں کہ ایسا کرنا برسراقتدار پارٹی کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے اور بعض وزراء کے خیالات کو حکومتی پالیسی کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ تاہم اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پہلے ہی دن سے بعض آئینی ماہرین تجزیہ کار اور معاشی ماہرین اٹھارویں ترمیم کے بعض شقوں یا فیصلوں پر اعتراضات کرتے آرہے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کے طریقہ کار میں تبدیلی اور مالی معاملات سمیت اختیارات کی تقسیم سے ہے۔

اہم ترین نکتہ اس تمام معاملے کا یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی ، حکومت یاقوت پارلیمنٹ کو کسی بھی آئینی طریقہ کار کے اندر رہتے ہوئے آئینی ترامیم سے روک نہیں سکتی کیونکہ ترامیم کوئی غیر آئینی کام نہیں ہے اور اس سے قبل پاکستان کے 1973 کے آئین میں تقریباً دو درجن ترامیم کی جا چکی ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ 1973 کے آئین میں ترامیم کی ابتدا ءکسی اور نے نہیں بلکہ اس کے خالق ذوالفقارعلی بھٹو نے کی تھی ۔ اس پس منظر میں اگر موجودہ حکومت یا کوئی پارٹی آئینی حق استعمال کرکے کوئی تبدیلی چاہتی ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے کا حق ہر پرلیمنٹ اور برسراقتدار پارٹی یا اتحاد کو آئین نے دے رکھا ہے۔ اس لیے اپوزیشن کی جانب سے یہ تاثر دینا کہ مجوزہ ترامیم سے آئین کی روح متاثر ہوگی یا اس سے پاکستان کے وفاق کے ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا ، درست طرز عمل نہیں ہے۔

پس منظر کچھ یوں ہے کہ اٹھارویں ترمیم سال 2010 کو پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پاس کرائی۔ اتحادیوں میں صوبائی حقوق کی دو پارٹیاں اے این پی اور کالعدم ایم کیو ایم بھی شامل تھی جبکہ ن لیگ نے جنرل(ر) پرویز مشرف کی دشمنی میں اس ترمیم کا ساتھ دیا ۔ اس آئینی ترمیم کے دو سے زائد حصے تھے تاہم صوبوں کے اختیارات اور مالی خود مختاری اور مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار اور وسائل میں کمی وہ بنیادی نقطہ تھا جس پر بہت بحث ہوئی۔ اس ترمیم کے ذریعے 15 وفاقی محکمے صوبوں کو منتقل کیے گئے جن میں تعلیم صحت اور پولیس سمیت وہ ادارے شامل تھے جو کہ ماضی میں وفاق یا مرکز کے زیر انتظام چلائے جارہے تھے۔ صوبوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ اپنے طور پر ٹیکسز نافذ کرے اور دوسرے ممالک سے براہ راست قرضے بھی لیا کرے۔ آئینی ترمیم پاس تو کرائی گئی مگر جب یہ اختیارات صوبوں کے پاس چلے گئے تو پتہ چلا کہ صوبے اضافی 15 محکموں کو چلانے اور سنبھالنے کے قابل بھی نہیں ہے اور عملاً صوبوں نے اس عمل کو اپنے اوپر اذافی بوجھ سمجھنا شروع کیا ۔ تلخ حقیقت اور زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ مرکز کے جو محکمے صوبوں کو دیے گئے تھے ترامیم کے پورے دس سال گزرنے کے باوجود صوبوں میں اب بھی ان محکموں کو چلانے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی ۔ اس کی بڑی مثال خیبرپختونخوا کی دو گذشتہ حکومتیں ہیں جن سے باربار اربوں روپے محض اس وجہ سے لیس ہوکر وفاق کے پاس واپس جاتے رہے کہ صوبوں میں وہ فنڈز متعلقہ اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یوں صوبوں کو فائدے کے بجائے نقصانات پہنچتے رہے اور یہ صورتحال دس برس گزرنے کے باوجود اب بھی موجود ہیں ۔ اصل بات عمل درآمد کی تھی جو کہ ممکن نہ ہوسکی۔ 15 میں سے تقریبا ً8 وزایتیں ایسی ہیں جن کے لئے ایک وفاقی ایجنڈا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نصاب کے مسئلے نے دوریاں پیدا کیں اور بعض ایسا مواد شامل کیا گیا جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوگئے۔ اقلیتوں ، خواتین، سیاحت ، کھیل، لیبر اور ٹیکسز سے متعلق محکمے ایسے ہیں جن کو چلانے کے لیے پورے ملک میں ایک جیسی پالیسی چلی آ رہی تھی مگر یہ ادارے صوبوں کو دیے گئے اور صوبے بعض حقیقی مسائل اور رکاوٹوں کے باعث ان اداروں کو چلانے میں نا کام رہے، یوں صوبوں کو بااختیار بنانے کی کوشش عملی نہ ہوسکی اوربعض حلقوں نے اس مسئلے پر اعتراضات اٹھانا شروع کیے۔ ماہرین بھی اس پس منظر کے باعث اٹھارویں ترمیم کو انتظامی مسائل کے حل کی کوشش کے بجائے سیاسی فیصلہ قرار دینے لگے۔ جن کا خیال ہے کہ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی قیادت نے چھوٹے صوبوں کے استحصال کا کارڈ اور نعرہ استعمال کرکے وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ تاہم دوسری طرف اس ترمیم کو صوبوں کے لیے اس حقیقت سے قطع نظر سود مند قرار دیا جاتا رہا ۔ اس سے صوبے مستحکم اور خوشحال ہوں گے حالانکہ دس برسوں کے دوران اس ترمیم یا محکموں کی منتقلی سے صوبوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی پارٹی نے اٹھارویں ترمیم کے دوران جہاں خیبر پختونخوا کے موجودہ نام کے معاملے پر اعتراضات کرکے تلخی پیدا کی اور مسائل کھڑے کئے وہاں انہوں نے کسی بھی وزیراعظم ، وزیراعلٰی کی تیسری بار نامزدگی سے متعلق پابندی کے ایک آئینی فیصلے کو اپنے سیاسی مفادات کے تناظر میں اٹھوانے کے لئے بارگیننگ بھی کی اور اس میں وہ کامیاب رہے۔

اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ملک میں صدارتی نظام کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی حالانکہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ نظام نہ صرف کامیابی سے چل رہا ہے بلکہ مروجہ پارلیمانی نظام کے بعض بنیادی نقائص کے پس منظر میں بہت سے حلقے صدارتی نظامِ حکومت کو پاکستان کے لیے زیادہ سودمند اور بہتر سمجھتے آ رہے ہیں۔ اگر ہم واقعی آئین اور جمہوریت کی بات کر رہے ہیں تو صدارتی نظام حکومت کو اس حوالے سے غیر آئینی اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ امریکا سمیت کئی اہم ممالک میں یہی نظام رائج ہے اور اس پر بحث کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ محض سیاسی مخالفت مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

اگر عمران خان یا بعض لیڈر صدارتی نظام کو بہتر سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کا جمہوری اور آئینی حق ہے اور اس کے پیچھے ٹھوس دلائل اور اسباب کارفرما ہو سکتے ہیں اور اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس پر بحث کو کسی کے اشارے یا پس پردہ مقاصد کی تکمیل کی کوشش یا سازش کا نام دینا درست نہیں ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کے دوران اعلٰی عدلیہ کے علاوہ چیف الیکشن کمشن اور بعض دیگر کی تقرری کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی گئی جو کہ بہتر اقدام تھا۔ تاہم ان معاملات سے بھی بعد میں کئی تنازعات اور تلخیوں نے جنم لیا جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

یہ تاثر بہت عام ہیں کہ اکثریتی صوبے کے علاوہ سیکورٹی اداروں کو بھی اٹھارویں ترمیم کے بعض فیصلوں پر تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ ترمیم ختم ہو۔ اس ضمن میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ختم کرنے اور بعض تبدیلیوں کے لیے مزید ترمیم کرنے میں بڑا فرق ہے۔ اگر بعض اداروں کے تحفظات حقائق پر مبنی ہے تو ایسی کسی خوہش کو چھوٹے صوبوں کے خلاف کسی کی سازش کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ ذرائع کے مطابق سال 2019 کے دوران ملک کی ایک اعلٰی عسکری شخصیت نے خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے بعض اہم شخصیات کو اس معاملے پر مشاورت کے لئے بلایا۔ جس کے دوران انہوں نے اس معاملے پر ان سے نہ صرف کھل کر بات چیت کی بلکہ ان کی تجاویز کو غور سے سن کر اپنا موقف بھی سامنے رکھا۔ جو اہم افراد اس ملاقات میں موجود تھے اُن میں آفتاب خان شیرپاؤ ، افراسیاب خٹک، رستم شاہ مہمند، بریگیڈئیر محمود شاہ، میجر محمد عامر اور رحیم اللہ یوسفزئی شامل تھے۔

خلاصہ کلام یہ کہ مکالمہ جاری رہنا چاہیے تاکہ نقائص کو مشاورت سے دور کیا جا سکے