لڑو مگر کرونا سے, ایک دوسرے سے نہیں

کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے خطرناک اور تشویشناک شکل اختیار کر چکی ہے اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ موسم کی تبدیلی اور دیگر امکانات کے ذریعے اس کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ بہت سی باتیں کی جارہی ہیں اور ریاستوں کی سطح پر اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں تاہم جس ایک نقطے یا دلیل پر ماہرین کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس وبا سے بچہ جائے اور اس کے روک تھام کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔ امریکا ، فرانس اور اب روس جیسے ترقی یافتہ ممالک اس وبا کی لپیٹ میں ہیں ۔ یہ جدید ریاستیں بدترین حالات سے دوچار ہیں اور ان کو فی الحال کوئی راستہ نظر نہیں آرہا جس پر چل کر کیسز اور اموات کی شرح کو کم کیا جا سکے۔
دنیا بھر میں اس وبا ءسے ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ متاثرین کی تعداد 11 لاکھ بتائی جارہی ہیں ۔ امریکا میں ,7403اٹلی میں 14681 ، سپین میں 11744 , فرانس میں 6507، بھارت میں 86 ، برطانیہ میں 3605 جبکہ جرمنی میں 1275 مریض اس مرض کا شکار ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اب تک 36 مریض جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہ تعداد ہماری آبادی اور مروّجہ عوامی بد احتیاطی کے مقابلے میں کافی کم ہے ۔ تاہم یہ بات تشویشناک ہے کہ دن بدن مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اگر عوام نے ریاستی اداروں کے ساتھ درکار تعاون کو یقینی نہیں بنایا تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے اور حکومت کے لیے صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ وسائل کی کمی اور بے ہنگم آبادی کے چیلنج کے باعث ہمارے مسائل دوسروں سے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے وزیراعظم کی ذاتی رائے اور موقف کے برعکس لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ رویّےکو دیکھتے ہوئے مختلف شہروں اور علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اقدام اٹھایا۔ اس کے دوران ضروری نقل و حرکت اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا جبکہ عام طبقوں ،مزدوروں اور نوکر پیشہ افراد کے لیے مختلف نوعیت کے پیکجز کا روزانہ کی بنیاد پر اعلانات بھی کیے جارہے ہیں تاکہ عام آدمی اس وباء کے معاشی اور معاشرتی اثرات سے بچ جائیں۔ اس ضمن میں وزیراعظم پہلے دن سے تکرار کے ساتھ یہ موقف دہراتے نظر آئے کہ مکمل لاک ڈاؤن سے اس لیے گریز کیا جارہا ہے کہ اس سے مزدوری پیشہ افراد کروڑوں کی تعداد میں متاثر ہوں گے۔ اس رعایت یارِسک کے باوجود مشاہدے میں آیا ہے کہ عوام اور بعض حکومتی اداروں کی ہدایت پر یا تو عمل نہیں کر رہے یا بعض رکاوٹیں کھڑی کرکے اپنے علاوہ دوسروں کی زندگی سے بھی کھیلنے کے رویے پر گامزن ہے۔
حکومت نے نہ چاہتے ہوئے مساجد میں نماز پڑھنے پر مشروط پابندی عائد کی کیونکہ جیّد علماء اور سعودی عرب سمیت متعدد دوسرے دینی مراکز کی بندش کے باوجود مشروط پابندی کو بعض حلقوں نے مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کا نام دیا ۔ جمعہ کے روز کراچی، پشاور ، کوئٹہ اور بعض دیگر شہروں میں عوام نے نہ صرف ان ہدایات کو نظر انداز کیا بلکہ بعض حلقوں نے دوسروں کے اکسانے پر پولیس کا گھیراؤ بھی کیا اور کئی مقامات پر تلخی اور تصادم کے واقعات بھی سامنے آئے ۔ یہ بہت افسوسناک رویّہ اور طریقہ ہے کہ بعض مذہبی اور سیاسی حلقے حکومت کی مخالفت میں کرونا بحران کو اس طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستان لاک ڈاؤن کی صورتحال کے تناظر میں بہت محدود اقدامات اٹھا رہا ہے حالانکہ مکّہ اور مدینہ جیسا مقدس شہروں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو 10 ہزار ریال جرمانہ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہوں کے لیے بھی ایسے ہی احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ ایسےمیں اگر عوام اور متعلقہ حلقے تعاون نہیں کریں گے تو حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی سخت اقدامات اٹھائے گی اور اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔
بعض حلقے ایسے بھی ہیں جو کہ تبلیغی جماعت اور شیعہ برادری کے مسائل کو غیر ضروری طور پر اُچھال کر منافرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سازشی نظریات کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ جبکہ بعض سیاسی عناصر اس بدترین بحران پر سیاسی مخالفت سے بھی گریز نہیں کر رہے ۔ اس رویےّ کا تدارک ضروری ہے تاکہ عام آدمی کو بے چینی، خطرے اور نقصان سے بچایا جاسکے اور قومی اتفاق رائے کے ذریعے اس بحران اور خطرے سے نکلا جا سکے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور یقینا ً بہت سی کمزوریاں بھی مشاہدے میں آئی ہوں گی تاہم وقت اور حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ مستقبل کو بہتر اور محفوظ بنایا جائے۔