وینٹیلیٹر بہانہ پاک فوج نشانہ

جنوری کے مہینے میں چین کے ایک شہر ووہان سے شروع ہونے والا وائرس جسے کویڈ 19 یا ناول کورونا کا نام دیا گیا، اس نے وبا کی شکل اختیار کی اور پلک جھپکتے ہی پوری دنیا میں تباہی مچادی ہے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے تحت یہ وبا دنیا کے دو سو سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے کل 946875 افراد اس وائرس کویڈ 19 کا شکار ہوچکے ہیں اور اب تک 48135 اموات ہوئیں ہیں۔ اس وائرس کی پھیلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا، برطانیہ اور یورپ کی حکومتوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ اس کی تباہ کاریوں کے سامنے بے بس نظر آنے لگیں، ہسپتال مریضوں سے بھر گئے، مریضوں کے لیے بیڈز کم پڑ گئے، وینٹیلیٹرز پر ایک ساتھ کئی مریضوں کو ڈالا گیا، ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کو بغیر ماسک، دستانوں کے مریضوں کا علاج کرنا پڑا جس کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹر اور نرسز بھی اس وائرس کا شکار بنے۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی ناول کورونا کے ہزاروں مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں، کورونا کنٹرول سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 31 مارچ تک کل 2291 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور اس وائرس سے ہونے والے اموات کی تعداد 26 ہے۔ اس وبائی صورت حال سے نمٹنے کیلئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے سرکاری تعطیلات اور لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کئے ہیں۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اٹلی میں 13155، اسپین میں 9387، امریکہ میں 5133، فرانس میں 4025, چین میں 3318، برطانیہ میں 2352، ہالینڈ میں 1173 اور ایران میں 3036 اموات ہوئیں، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان میں ہونے والے اموات کی تعداد بہت کم ہے لیکن گزشتہ 23 مارچ یعنی یوم پاکستان سے سوشل میڈیا پر ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور ٹارگٹڈ پروپیگنڈا ٹرینڈز چلائے جارہے ہیں جس کے ذریعے یہ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے تمام وسائل دفاع پر خرچ کئے گئے ہیں، جنگی جہاز، ٹینک، میزائل اور اسلحہ و بارود خریدا گیا ہے لیکن ہسپتال اور صحت کے شعبے پر خرچ نہیں کیے گئے، کئی پاک فوج مخالف اور نام نہاد لبرل پاکستانی ٹویٹر صارفین جو کہ باہر ملکوں میں مقیم ہیں انہوں نے یہاں تک لکھا کہ ایک F-16 جہاز کی قیمت میں 100 وینٹیلیٹر آسکتے ہیں، کسی نے یہ بھی لکھا کہ اب پاکستان کو دفاع کی بجائے صحت پر وسائل خرچ کرنے ہوں گے۔ جہاں تک صحت اور تعلیم پر وسائل خرچ کرنے کی بات ہے تو وہ سو فیصد درست ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ دفاع کے لئے مختص بجٹ یا وسائل صحت پر خرچ کئے جائیں تو یہ بدنیتی اور ملک دشمنی ہے جس کا مقصد پاکستانی عوام کے دلوں میں اپنے مسلح افواج کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور ملکی دفاع کو کمزور کرنا ہے۔ 14 اگست 1947 میں آزادی کے دن سے ہی پاکستان کو ہندوستان جیسے ازلی دشمن اور کئی ایک دیگر جارحانہ و دوست نما دشمن پڑوسیوں کا سامنا ہے، ہندوستان سے ہماری تین بڑی لڑائیوں کے علاؤہ کئی محاذوں پر پراکسی لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں، انڈین خفیہ ایجنسی آفیسر کلبوشن یادیو کے اقرار جرم کے بعد یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اسی طرح بلوچستان میں ایران جبکہ سابقہ فاٹا میں افغانستان کی شہ پر دہشت گردوں کے گروہ بھی ابھی حال کی حقیقتیں ہیں، اس لئے پاکستان کا ملکی دفاع پر سمجھوتہ خدانخواستہ اپنی موت کےمترادف ہوگا۔ اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وینٹیلیٹر کے پیسے دفاع پر لگائے جا رہے ہیں؟ جی نہیں، دراصل یہ سوال چند پاکستان دشمن قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کے دلوں میں چھپی بغض اور عداوت کو ظاہر کرتی ہے جن کی آنکھوں میں ہمیشہ سے پاکستان کی مسلح افواج، ایٹمی طاقت اور ترقی کھٹکتی آئی ہے، عوام تک حقیقت پہنچانے کی خاطر ہم پاکستان کے 2019 کے وفاقی مالی بجٹ کا جائزہ لیتے ہیں، (اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد زیادہ تر محکمے صوبائی صوابدید میں دئے گئے ہیں جن میں صحت اور تعلیم بھی شامل ہیں جبکہ دفاع وفاق کا مسئلہ ہے).
وفاقی بجٹ 2019 کا کل حجم 7022 ارب روپے ہے جس میں NFC ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصہ 3254 ارب روپے ہے، اس فارمولے کے تحت پنجاب کا حصہ 1611 ارب، سندھ کا 814 ارب، خیبرپختونخوا کا 533 ارب اور بلوچستان کا حصہ 295 ارب روپے ہے، PSDP یا ترقیاتی منصوبوں کے لیے 800 ارب روپے، ملکی دفاع (تینوں مسلح افواج تنخواہوں، پنشن اور اسلحہ و دیگر وسائل) کے لئے 1015 ارب روپے رکھے گئے ہیں، دفاع کے لیے رکھی گئی رقم کل اخراجات کا 16فیصد جبکہ جی ڈی پی کا صرف 1.3فیصد ہے۔ وفاقی بجٹ میں باوجود صوبائی سبجیکٹ ہونے کے تعلیم کےلئے 77 ارب جبکہ صحت کے لیے 13 ارب رکھے گئے ہیں۔
اسی طرح صوبہ پنجاب کے مالی سال 2019 کے بجٹ کا کل حجم 2300 ارب ہے جس میں صحت کے لیے 308 ارب جبکہ تعلیم کےلئے 382 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے مالی سال 2019 بجٹ کا کل حجم 900 ارب ہے جس میں صحت کے لیے 78 ارب اور تعلیم کےلئے 167 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
مندرجہ بالا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے سالانہ بجٹ تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی تمام بجٹوں میں محکمہ صحت کے لیے اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں اور یہ سِول حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان پیسوں کو علاج معالجہ اور طبی سہولیات خریدنے پر خرچ کریں، پاک فوج یا کسی دوسرے ادارے نے مرکزی یا صوبائی حکومت کو نہیں روکا کہ وہ ہسپتال نہ بنائیں یا وینٹیلیٹر نہ خریدیں، اگر آج صوبوں میں ہسپتالوں کے اندر بیڈز یا وینٹیلیٹرز کی کمی ہے تو یہ منتخب جمہوری حکومتوں کی نا اہلی اور نظام کی ناکامی ہے، اور اس ناکامی کا ملبہ دفاعی بجٹ پر ڈالنا زیادتی ہے۔ دو مہینے پہلے تک ایک جدید وینٹیلیٹر کی مارکیٹ پرائس 10 سے 15 لاکھ کے درمیان تھی، یہ اتنی کم قیمت ہے کہ ویلیج کونسل یا یونین کونسل کا ہسپتال بھی کم از کم ایک وینٹیلیٹر خرید سکتا تھا، نہیں خریدا گیا تو اس کی انکوائری ہونی چاہیئے کہ کوتاہی کس نے کی؟ کیا حکومتِ وقت کی ترجیحات میں صحت شامل ہے یا کورونا وائرس ختم ہونے کے بعد یہ ترجیح پھر نہیں رہے گی؟
پاکستان کے مسلح افواج کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت بہت ہی قلیل اور محدود بجٹ کے باوجود نہ صرف ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا ہے بلکہ جب بھی ملک پر قدرتی آفات آئے تو پاک فوج نے دوسرے اداروں سے آگے بڑھ کر قوم کی خدمت کی ہے، اور آج جب ملک پر کورونا کی شکل میں امتحان آیا ہے تو پاک فوج کا کردار سب سے زیادہ نمایاں بن کر سامنے آیا ہے، اس لئے پاکستان کے مخالفین اور پاک فوج کے بدخواہ صحت کو بہانہ بناکر ملکی دفاع کو جتنا بھی نشانہ بنائیں اور پروپیگنڈا کریں قوم کو گمراہ نہیں کرسکتے۔