خیبر پختونخوا میں کرونا سے 198 متاثر 6 افراد جان بحق

خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت کئی ہفتوں تک عوام کے ساتھ نرمی برتنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی تاکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو اور وہ محض احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ مگر عوام اس سنگین مسئلے کو مذاق سمجھ کر ہدایات کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیسز کی تعداد بڑھتی گئی اور مزید کیسز کا راستہ روکنے کے لیے حکومت کو پشاور سمیت متعدد بڑے شہروں اور علاقوں میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ ساتھ میں صوبے کے تقریبا 26 اضلاع میں فوج کو بھی طلب کرنا پڑا تاکہ صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کے عوام بداحتیاطی اورغیرضروری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے دیکھے گئے اور اب بھی ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں ہے جو کہ اس سنگین عالمی وباء اور چیلنج کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔غالباً اسی رویّے کا ردعمل ہے کہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے لاکھ ڈاؤن سمیت مزید سخت اقدامات کرنا پڑے اور مزید آپشنزپر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ حکومت پر سخت دباؤ ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کے ساتھ مزید سختی سے نمٹا جائے۔
اب تک کی اعداد و شمار اور تفصیلات کے مطابق پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد 1630 تک پہنچ گئی ہےحالانکہ یہ تعداد تین چار روز قبل ایک ہزار تھی۔ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 198 ہوگئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پیر 30 مارچ تک ملک میں 10افراد کرونا وائرس سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ صوبہ خیبرپختونخوا ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے بدقسمتی سے سرِ فہرست رہا، جہاں 6 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہوگئے حالانکہ آبادی کے تناسب سے پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں یہاں کیسز اور اموات کی تعداد کم ہونی چاہیے تھی۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق خیبرپختونخوا میں کیسز کی تعداد بڑھنے کے تین چار اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو یہ ہے کہ عوام نے ابتدا ہی سے بداحتیاطی کا مظاہرہ کرکے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی اور حکومتی ہدایات کو نظر انداز کرکے ہجوم بنانے اور نقل و حرکت سے گریز نہیں کیا، جس کے باعث وائرس دوسروں کو منتقل ہوتا رہا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ صوبے کی بہت بڑی تعداد دوسرے ممالک خصوصاً خلیجی ریاستوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ لوگ احتیاط اور ٹیسٹ کرائے بغیر واپس آگئے۔ ایئرپورٹس پر ابتدا ءمیں سکریننگ اور مانیٹرنگ کے ناقص یا محدود سہولتوں کے باعث یہ لوگ باہر آتے گئے اور جب یہ اپنے اپنے علاقوں میں گئے تو ان کے ذریعے ان کے رشتہ داروں اور ملنے والوں میں کرونا پھیلتا گیا۔ تیسری وجہ تبلیغی جماعت کے وہ کارکن ہیں جو کہ اس بدترین بحران کے دوران بھی مساجد میں ڈیرے ڈالتے رہے۔ ان کی مانیٹرینگ نہ ہونے کے باعث ابتدا ءمیں مسافروں کی طرح یہ بھی وائرس پھیلانے کا باعث بنے، حالانکہ انتظامیہ نے بعد میں ان کی نقل و حرکت کو محدود بنایا اور تبلیغی جماعت کے اکابرین نے بھی ان کو ہدایت دی کہ وہ اپنی سرگرمیاں محدود کرے۔ یہ تمام اسباب اور چیلنجز صوبے کو اب بھی درپیش ہیں۔ تاہم حکومت کی سخت اقدامات سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ممکنہ حد تک اس مسئلہ پر قابو پانے میں کافی کامیابی مل جائے گی۔ اس کے لئے پھر بھی ضروری ہے کہ عوام کو آگاہی مہم، علماء ، اساتذہ اور میڈیا کے ذریعے درپیش بحران کی شدت، خطرات اور نتائج سے آگاہ کیا جائے اور جو حلقے یا افراد اس ضمن میں حکومت سے تعاون نہیں کر رہے اور اب بھی اس عالمی چیلنج اور خطرے کو مذاق سمجھ کر ہلکا لے رہے ہیں، نتائج اور ردعمل کی پرواہ کیے بغیر ایسے عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے کیونکہ اس وقت امریکہ برطانیہ اسپین اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی زیادہ تر انحصار احتیاطی تدابیر پرکر رہے ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جس میں انھوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا سے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایک لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف برطانیہ سے رپورٹ آئی ہے کہ وہاں پر مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز کم پڑ گئے ہیں جبکہ بھارت میں ریل کے ڈبوں کو آئسولیشن سنٹرز میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ عوام کو یہ بات سمجھانے اور سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ان کی بد احتیاطی اور غیر ذمہ داری سے نہ صرف ان کی زندگی بلکہ ان کے رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور دوستوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑھ سکتی ہیں اور اگر وہ احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے تو وہ مذہبی اخلاقی اور قانونی طور پر ایک بڑے جرم بلکہ گناہ کا بھی مرتکب ہورہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور حکومت کو مزید سخت اقدامات پر مجبور نہ کیا جائے۔